امتحانات میں پاسنگ مارکس 33 فیصد ہی کیوں ہوتےہیں؟

لفظ تعلیم عربی لفظ علم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں جاننا یا آگاہی حاصل کرنا، جبکہ اس کو انگریزی میں ایجوکیشن کہا جاتا جو لاطینی زبان سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں نشونما پانا ، تربیت پانا یا پرورش کرنا۔

ہم دو طرح کے علم  حاصل کرتے ہیں ایک دینی ،دوسرا دنیاوی۔ دینی علم  کیلئے دنیا ایک امتحان ہے جس کا نتیجہ آخرت میں ملے گا، جبکہ دنیاوی امتحان  کا نتیجہ دنیا ہی میں میں مل جاتا ہے۔

پاکستان اور بھارت مین طالب علموں کو پاس ہونے کیلئے 33 فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ صرف 33 فیصد ہی کیوں ہوتے ہیں اس سے زیادہ یا اس سے کم کیوں نہیں ہوتے؟

امتحانات میں پاسنگ مارکس کا آغاز بہت پرانا ہے، 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں 1858 میں پہلا میٹرک کا امتحان ہوا تو انگریز کو اس چیز کی ضرورت محسوس پہوئی کہ طالب علموں کو کتنے نمبروں سے پاس کیا جائے۔

چنانچہ ہندوستان میں موجود انگریز سرکار نے برطانوی حکومت کو خط لکھا ۔ خط کے جواب میں کہا گیا کہ برطانیہ میں پاسنگ مارکس کیونکہ 65 فیصد ہیں اور برصغیر کے  طالب علم برطانیہ کے بچوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ وہاں کے لوگ آدھی عقل کے مالک ہیں، اسلئے وہاں کے طالب علموں کو پاس ہونے کیلئے ساڑھے بتیس نمبر دئے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ انگریز سرکار کی ایک سوچ تھی کہ برصغیر کے طالب علم بہت کمزور ہیں اور برطانوی اسٹوڈنڈس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 1961 تک ساڑھے بتیس نمبر کا سلسلہ چلتا رہا، جس کے بعد حساب کو آسان بنانے کیلئے اسے سیدھا سیدھا 33 فیصد کردیا گیا۔ جو بدقسمتی سے آج تک رائج ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply