• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دولے شاہ کے چوہے اور ہمارے سماج میں پائی جانے والی مماثلت۔۔۔شہباز حسنین بیگ

دولے شاہ کے چوہے اور ہمارے سماج میں پائی جانے والی مماثلت۔۔۔شہباز حسنین بیگ

سید کبیرالدین شاہ کا مزار گجرات شہر کے درمیان میں واقع ہے ۔اس کی وجہ شہرت اس مزار پر پائے جانے والے معصوم اور انتہائی مظلوم انسان ہیں ۔جو کہ آپ کو گجرات میں  دربار کے اردگرد اور مختلف جگہوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ان بھکاریوں کے سر انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں  اور ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں ۔ذہنی طور پر مفلوج اللہ تعالی کی مخلوق سے بھیک منگوائی جاتی ہے ۔ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے ۔انتہائی نامساعد  حالات کا شکار ان مظلوموں کو دو لے شاہ کے چوہے کہا جاتا ہے ۔دو لے شاہ کے چوہے نہ سوال کر سکتے ہیں نہ کوئی جواب دے سکتے ہیں ۔خاموشی کے ساتھ سائل بن کر اشاروں کنایوں  سے اپنا کشکول سامنے کر دیتے ہیں۔

مختلف روایات ان دو لے شاہ کے چوہوں کے متعلق زیر گردش ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق پیدائشی طور پر کسی بیماری کی وجہ سے ان کے سر کی نشوونما نہیں  ہو پاتی اور ان کا سر سائز میں چھوٹا رہ جاتا ہے اور ذہنی طور پر معذور ہوجا تے ہیں ۔مگر عمومی روایت کے مطابق اس دربار پر بے اولاد جوڑے منت  مانگتے ہیں  کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو پہلا بچہ دربار پہ چھوڑ جائیں گے ۔اس روایت کے مطابق پہلا بچہ دو لے شاہ کا چوہا پیدا ہوتا ہے ۔اس کو دربار پہ نذرانے کے طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اور بعد میں نارمل اور صحت مند اولاد پیدا ہوتی ہے ۔اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے ۔حقیقی المیہ ان بچوں کی ذہنی پسماندگی اور مظلومیت ہے کہ بجائے ان بچوں کی اس معذوری کا علاج کرنے کے ہمارا بے حس معاشرہ نجانے کب سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہے ۔

دو لے شاہ کے چوہے تمام عمر بھکاری بن کر در در کی ٹھوکریں کھا کر مر جاتے ہیں ۔کوئی مسیحا آج تک دو لے شاہ کے ان چوہوں کی مسیحائی کےلیے اس دھرتی پر نہیں  اترا۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محرومی ان بیچاروں  کا سب سے بڑا روگ  ہے۔اس کے علاوہ جسمانی لحاظ سے بھی انتہائی لاغر اور کمزور ہوتے ہیں ۔

اب اگر غور کیا جائے تو بحیثیت پاکستانی ہماری قوم کی اکثریت بھی دو لے شاہ کے چوہوں سے مماثلت رکھتی ہے ۔فرق محض اتنا ہے کہ دولے شاہ کے چوہے ذہنی اور جسمانی معذور ہوتے ہیں  اور ہم جسمانی طور پر صحت مند   مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی کا ضرور شکار ہیں۔ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ لگ چکا  ہے۔۔ہمارے ذہنوں پر سوچنے کی پابندی لگا دی گئی ۔مذہب کے نام نہاد ٹھیکداروں نے تقدیس اور خوف کی اک چادر ہمارے معاشرے کی اکثریت کے ذہن پر مسلط کر دی ۔اب اگر کوئی انسان اپنی ذہنی صلاحیت کو کام میں لا کر سوال کرتا ہے یا اس سوال کے جواب کی تلاش میں تحقیق کرتا ہے  تو یہی مذہبی علماء لٹھ لے  کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ان علماء نے عوام کی اکثریت کے دماغ میں یہ بات ڈال دی ہے کہ خبردار اگر دماغی صلاحیت کا استعمال کیا گستاخ بن جاو گے ۔مذہب سے دور ہو جاو گے ۔

ہمارا مذہب اسلام ہمہ وقت تدبر کی تلقین کرتا ہے  کہ ہم نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے قرآن نازل کیا ۔اللہ کے کلام پر غور کرو سمجھو ۔مگر علماء کہتے ہیں ۔اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرو ۔نام نہاد علماء نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا لیا۔ان کے نزدیک قرآن کے ترجمہ اور تفسیر ان کی زیرنگرانی پڑھی جائے ورنہ نجانے کیا ہو جائے گا۔نام نہاد علماء کے نزدیک ان کاتقدس ہر شخص پر فرض  ہے ۔جو اکابر نے فرما دیا وہی حرف آخر ہے ۔اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ان نام نہاد علماء کی کسی بات پر تنقید کرنا ناقابل معافی جرم ہے ۔حالانکہ علماء پر تنقید مذہب پر تنقید ہر گز نہیں ہے ۔مگر چونکہ ہماری اکثریت کو یہ علماء دولے شاہ کا چوہا بنا چکے ہیں لہذا جو سوال اٹھائے تو ان کے تیار کردہ دولے شاہ کے چوہے اپنی زبانوں سے شعلے اگلنے لگتے ہیں ۔ان علماء کو ہر شخص کی سوچ پر اختیار چاہیے ۔ان کے مطابق ہر فرد کے دماغ پر ان کے اقتدار کی گرفت ہونا از حد ضروری ہے۔ہر شخص بلا سوچے سمجھے ان کے فرمودات پر کامل ایمان لائے۔اگر کوئی تنقید کرے تو کہتے ہیں مذکورہ شخص گستاخ ہے ۔مذہب سے لاتعلق ہے ۔یہاں تک کہ شدت جذبات سے مغلوب ہو کر اس کے قتل کا حکم جاری کر دیتے ہیں ۔

رحمت للعالمین  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی صرف اپنے حسن سلوک سے اور کردار کی عظمت سے گرویدہ بنا لیا۔کعبے کو پاسباں مل گئے صنم خانے سے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کا سب سے بڑا منافق عبداللہ بن ابی بھی طبعی موت مرا جبکہ عبداللہ بن ابی حد درجہ گستاخ بھی تھا منافق بھی حتی کہ ام المومنین کی ذات اقدس پر بہتان باندھنے والا بھی مگر اس کو قتل نہیں کیا گیا ۔آج کل کے علماء بات بات پر قتل کے فتوے  صادر کرتے ہیں ۔شدت پسندی کا زہر ہمارے ذہنوں میں انڈیل کر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا  بنا ڈالا۔

چند دن پہلے میں نے فیس بک پر اک پوسٹ لگائی  کہ پاکستان میں علماء کے پاس چاند کی رویت کا اختیار ہے اور اسی پر ہر سال اختلاف ہو جاتا ہے ۔سوچو اگر اقتدار پورا ان کے پاس ہو تو کس قدر اختلافات جنم لیں گے ۔اس پوسٹ پر متحدہ مجلس عمل کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کا کمنٹ آیا  کہ خدا کا خوف کرو علماء پر تنقید نہ کرو اتنے بڑے صحافی نہ بنو ۔اس کے بعد ایک کالج سے تعلیم یافتہ گریجویٹ کا کمنٹ تھا۔جس کو علماء سے مسئلہ ہے وہ اپنے باپ کاجنازہ عاطف اسلم اور عارف لوہار سے پڑھوائے ۔اندازہ کریں کہ یہ ہے وہ رویہ جو علماء نے اس معاشرے میں پروان چڑھایا ۔جب کہ میرا سوال یہ ہے کہ سال کے دس ماہ چاند کی رویت پر اختلاف نہیں ہوتا ۔صرف عیدین کی چاند کی رویت کا اعلان علماء نے کرنا ہوتا ہے  اور فقط اسی پر ہی تماشہ کیوں لگتا ہے ۔علماء جدید دور میں بھی اہل نہیں جبکہ دعوے کرتے ہیں کہ اسلام کی بقاء ہمارے دم سے ہے ۔ایک تعلیم یافتہ نے اسی پوسٹ پر تبصرہ کیا کہ جناب علماء کو نشانے پر نہ رکھیں  علماء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک علماء حق اور دوسرے نام نہاد علماء اور پھر فرماتے ہیں ۔علماء کی بدولت یہ دنیا قائم ورنہ تو قیامت  کے تمام آثار اور نشانیاں مکمل ہو چکیں ۔علماء نے قیامت روک رکھی ہے ۔گویا علماء خدائی قیامت کے آگے سیسہ  پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں ۔

جبکہ عملی طور پر پاکستان میں دہشت گردی فرقہ واریت اور بے گناہوں کا خون صرف علماء کی  شعلہ بیان تقاریر کی بدولت بہایا گیا۔سارے عالم میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی علماء کی مرہون منت ہے ۔جماعت اسلامی کے منور حسن نے کہا وطن کی حفاظت کرنے والا شہید نہیں البتہ  معصوم انسانوں کا خون بہانے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد خونی  درندے شہید ہیں ۔ہزاروں پاکستانی مذہبی جنونیوں نے خودکش دھماکوں میں مار ڈالے ۔اور جب بھی کوئی دہشت گرد گرفتار ہوا اس نے بیان دیا کہ میں نے جنت کے حصول کے لیے سب کچھ کیا۔خدا کی بنائی گئی جنت کو دوزخ علماء کی نام نہاد تعلیمات نے بنایا۔علماء نے ہماری اکثریت کی سوچ پر قدغنیں لگائیں ۔

کیا وجہ ہے ہمارے معاشرے میں پوری دنیا میں  تسلیم شدہ متفقہ برائیاں موجود ہیں ۔جھوٹ  ملاوٹ  دیانتداری کا فقدان  جہالت انتہا پسندی اور جذباتیت بے حسی اور ظلم نا انصافی  نظم و ضبط اور حقوق و فرائض سے لاعلمی خطرناک حد تک موجود ہے ۔علماء نے اس ضمن میں  کیا کردار ادا کیا۔البتہ اگر علماء کی ان خامیوں پر بات کی جائے تو اس کو مذہب  پر تنقید کا نام دے کر خاموش  کر دیا جاتا ہے ۔بحیثیت پاکستانی اب ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوگا ۔ورنہ ہم مکمل دولے شاہ کے چوہے بن کر رہ جائیں  گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ!مضمون میں موجود  کسی بھی عقیدے یا شخصیت کے بارے  اظہار ِخیال سے ادارے کا  متفق ہونا ضروری نہیں ،یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے!

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply