چهوٹو

وقت گزاری کے لیئے روزانہ چند لنگوٹیوں کے ہمراه ایک چائے والی دکان پر جاتا ہوں ۔ ۔ چونکہ ہم سب دوست دکاندار ہیں تو ایک دوسرے کے کاروباری حالات اور حالات حاضره پر اکثر بحث ہوتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ایک دن ہم آپس میں کسی خاص موضوع پر محو گفتگو تهے کہ” چهوٹا” چائے لے کر آ گیا ۔میں نے حسب عادت جزاک الله بول دیا ،تو اس کی آنکهوں میں نمی اتر آئی، میں نے محسوس کرتے ہوئے پوچھا ،کیا ہوا چهوٹو۔۔۔ روتے کیوں ہو؟ یہ آنکهوں میں نمی کیسی ۔ ۔ ؟
چهوٹو بیچارا بهرا بیٹھا تھا،پهوٹ پهوٹ کے رونے لگا ۔ ۔ میں نے اس کو پاس بٹها لیا اور پانی کا گلاس اس کی طرف بڑهایا ۔ ۔ ۔ ۔مجهے یوں لگا جیسے وه مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے ،لیکن کیا شاید آس پاس بیٹھے لوگوں سے گهبرا رہا تها، ۔۔۔میں اسے ایک سائیڈ پر لے گیا، وہ کرسی پر بیٹھتے ہی پوچھنے لگا ، صاحب آپ زکوٰۃ دیتے ہو ۔ ۔؟بات کہ تہہ میں پہنچ کر میرے ماتھے پر ذرا تیوری پڑ گئی،اور میں تلخ لہجے میں بولا کہ ،ہاں دیتا ہوں ۔کیوں کیا ہوا ،تم محنت سے جو کماتے ہو وه کافی نہیں؟ ۔۔۔۔تو کہنے لگا نہیں نہیں صاحب، آپ سمجھے نہیں، میری آمدنی سے میرا گهر جیسے تیسے چل جاتا ہے، مجهے اس کی پرواه نہیں لیکن میری پڑوسن بیوه ہے اور بیچاری بیمار ہے، میرا بڑا جی کرتاہے کہ اس کی مدد کروں ،لیکن میرا ابا اس پر ایک روپیہ خرچ نہیں کرنے دیتا ۔ ۔ اگر اس بار آپ اس کو ذکوٰۃ دے دیں ،تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔ ۔ ۔
مجهے بہت شرمندگی ہوئی کہ میں نے کیا سمجھا اور وہ کیا نکلا۔۔۔ خیر میں اگلے دن اس کے بتائے ہوئے پتے پر جا پہنچا اور اس گهر کی حالت دیکھ کر گویا دل پهٹنے کو ہوا، ایک چار پائی، ایک پنکها، جو شاید اس کے جہیز کا ہو اور نہ ہونے کے برابر چهت اور کچن کے نام پر ایک مٹی کا چولہا اور وه بهی شاید کئی دنوں سے نہیں جلا تها پوچھنے پر پتہ چلا کہ ماں جی کی اولاد نہ ہوئی اور ایک سال پہلے گھر کا واحد کفیل ،اس کا خاوند بھی فوت ہو گیا ۔ ۔ ۔میری آنکهوں سے اشکوں کا سمندر بہنے لگا ۔ ۔ ۔
میں نے سوچا یا الله تیرا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، جن نعمتوں سے تو نے ہمیں سرشار کیا ہوا ہے اور ہم تیرے گناه گار بندے تیرا شکر تک ادا نہیں کرتے ،خیر جو حسب توفیق تها میں ان کو دے آیا اور اپنے اور دوستوں کو بهی ان کی مدد کرنے کو کہہ دیا ۔اس واقعے کا لب لباب یہ ہے کہ کسی این جی او، یا ٹرسٹ کو پیسے دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی” چهوٹو” یا اس کے علاقے میں مکین گهروں پر ایک نظر ضرور ڈال لیں ، اور اپنے ہاتھ سے زکوٰۃ ادا کریں ، تاکہ ایسے سفید پوش بهی ہماری طرح عید کی خوشیاں منا سکیں ۔

Facebook Comments

سلمان شوکت
اپنی تلاش میں گم۔۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply