کالی جیکٹ۔۔۔سلیم پاشا/افسانہ

بیگم میرے لئے جلدی سے کھانا ٹیبل پہ لگا دو،میں تھنکنگ روم سے فریش ہوکے دو منٹ میں آیا۔آج تو ایمان سے اتنے زوروں کی بھوک لگی ہوئی ہے کہ دم نکل رہا ہے۔ اتنا کہہ کر میں واش روم کی طرف بھاگا۔

گھر میں موجود اِس گوشے کو یہ ادبی نام میرا ہی دیا ہوا تھاکیونکہ واش روم کے اندر جاتے ہی کئی سوئی ہوئی سوچیں جاگ اُٹھتی ہیں۔لڑکپن میں تو چار ،پانچ فٹ کا یہ گوشہ میرے لئے مطالعہ کے کمرے سے  کم نہیں تھا۔اُس زمانے میں محلے کی آنہ لا ئبریرلوں سے روزانہ تین چار ناول کرائے پر لانا اور ان سب کو ایک ہی دن میں گھر والوں سے چھپ چھپا کے پڑھنے کیلئے یہی جگہ میرے کام آتی تھی۔ اپنے گھر میں اکیلا پڑھنے والا بچہ ہونے کے ناتے،بجائے میرے نخرے اٹھانے کے اُلٹا گھر والوں نے میری جاسوسی شروع کردی اور ایک ایک حرکت پر نظر بھی رکھنے لگے۔میرے ہاتھوں میں کتاب دیکھ کر انہیں خوشی کی بجائے تجسس پیدا ہوتا کہ کیاواقعی میں کورس کی کتاب پڑھ رہا ہوں یا فضول ناول پڑھ کر اپنا وقت اور اُن کے پیسے ضائع کررہا ہوں۔اُن وقتوں کے آسودہ گھرانوں میں بھی کمروں کے ساتھ اٹیچ باتھ کی سہولت نہیں تھی۔گھر کے افراد چار پانچ ہوں یا دس بارہ،واش روم ایک ہی ہوتا اور وہ بھی عام طور پر چھت پر۔یوں توہمارے گھرمیں بھی تھا تو چھت پرہی لیکن ستم یہ کہ اس کی اپنی چھت نہیں تھی۔سو موسم کی گرمی،سردی یا برسات کوبھی ساتھ ساتھ بطور سزاکے جھیلنا پڑتا تھا۔ویسے تو عام استعمال میں وہاں کام کچھ زیادہ دیر کا نہیں ہوتا لیکن مجھے لائبریری کے جرمانے سے بچنے کیلئے گھر میں موجودشرلک ہومز اور سیکرٹ سروس کے باقی ارکان سے آنکھ بچا کر یہ ناول ایک ہی دن میں ختم کرناضروری ہوتے تھے۔ نہ جانے کس دشمن نے ان کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ ناول پڑھائی کے دشمن ہوتے ہیں،چنانچہ انہوں نے مجھ پر چیک رکھ لیا۔ میرے بڑے بھائی کی شادی ہونے کے بعد آنے والی بھابی بھی اس دشمن دستے میں شامل ہوگئی،یعنی ادھر نفری اور بڑھ گئی۔اس بھاگ بھری نے اَن پڑھ ہوتے ہوئے بھی گھر کے باقی افرادکی معلومات میں یہ کہتے ہوئے مزید اضافہ کردیاکہ ان ناولوں اور رسالوں میں عورت اور مرد کے تعلق کی پوری کہانی لکھی ہوتی ہے۔ میرے نیم خواندہ والدین اور دونوں مکینک بڑے بھائیوں کیلئے یہ اطلاع بریکنگ نیوز ثابت ہوئی،جس کے نتیجے میں مجھ پر سختی اور بڑھ گئی۔ جب بھی واش روم کا دروازہ دیر تک نہ کھلتا تو اس کا صاف مطلب اندر میری موجودگی کو ثابت کرتا۔ میں نے مجبور ہوکر چوبارے کی چھت پر لیٹ کر ناول بینی شروع کردی،جس کی منڈیر نہ تھی،سو بیٹھ کر پڑھنے میں پکڑے جانے کے خوف سے یہ طریقہ اختیار کرتا۔

دن بھر کے کام کاج سے تھکا ہاراابھی گھر میں داخل ہوااور واش روم کی جانب فریش ہونے کے واسطے چلتے ہوئے میرے قدم ٹیلی فون کی گھنٹی نے پکڑ لئے۔اِس وقت کسے کھجلی ہوئی ہے؟میرے دل کے کسی گوشے سے صدا اُبھری۔ میں نے ریسیور اٹھا کرکان سے لگایا تو ہیلوکا لفظ ماضی بعید کی گم شدہ وادیوں میں لے کر اترگیا۔ایک زمانہ تھا جب یہ آواز میرے آس پاس چہکتی رہتی تھی۔میں نے سر کو جھٹک کر یادوں کی گٹھڑی کو پرے پھینکا اور اپنے روائتی انداز میں وعلیکم ہیلو کہہ کر نام پوچھنا چاہاکیونکہ کینیڈا کے لاہور جیسے شہرٹورانٹو میں ایک عرصہ سے رہتے رہتے میں بہت سے دوستوں،رشتہ داروں کے لہجے اور انداز تکلم بھولنے لگا ہوں۔ قریب کے گزرے وقتوں کی صدائیں بھی اب یاد نہیں رہیں،لڑکپن تو بہت دور رہ گیا ہے۔خیر میں نے بات آگے بڑھاتے اور اپنی شرمندگی کو دباتے ہوئے پوچھا!آپکو کس سے بات کرنا ہے؟جواب میں دوسری جانب سے جو آواز آئی اس نے میرے ہوش اڑا دئیے: ”لعنت او تیرے جیسے بھلکھڑ یاروں پہ جسے میری شکل تو کیا آواز بھی یاد نہیں“ میں نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوچھا”یار اپنا تعارف کرانے میں تجھے کوئی مسئلہ ہے تو ٹھیک جب تیری بوتھی مجھے یاد آئے گی تو پھرتم سے بات بھی کرلوں گا،تم اپنا نمبر چھوڑ دو“پہچان تو میں چکا تھا لیکن اب مجھے بھی ستانے میں مزہ آنے لگا تھا۔میری بات سنتے ہی وہ فوراً ہتھیار ڈال بیٹھا اور بولا”میں تیرا جگر،تیرا دل بول رہا ہوں اب بھی نہیں پہچانا مجھے اوئے ہوئے ہوئے ہوئے؟ اوہو تو یہ تم ہو عاشق چن تم کہاں ہو میرے یار،اور کدھر سے بول رہے ہو،پاکستان میں سب خیریت تو ہے ناں،آجکل کیا کرتے پھر رہے ہواور یہ تم نے میرا نمبر کہاں سے لیا ہے؟میں نے چھوٹتے ہی پانچ سات سوال اس پر لاد دیے۔ میں یہیں ٹورانٹو میں ہوں میرے جگر،اب بتاؤ میں کہاں آؤں اپنا ٹھکانہ بتاؤ؟پنجی منٹی تیرے پاس اور باقی سب سوالوں کے جواب سامنے بیٹھ کر دوں گا ایمان سے۔

میں فون رکھ کے دھڑم سے صوفے پر جاگرا،تھکاوٹ،بھوک،کھانا،واش روم سب کچھ دماغ سے نکل گیااور جو یاد رہ گیا وہ اس آنے والی بلا کا نام تھا جو ابھی کچھ دیر بعد نازل ہونے والی تھی۔ دو کمرے کا اپارٹمنٹ جس میں ایک ہم میاں بیوی کے پاس تو دوسرا بچوں کے قبضے میں۔ چھوٹا سا ٹی وی لاؤنج جس میں پڑا دو نشستوں والا پرانا سا صوفہ،سامنے دھرا اس سے بھی پرانا ٹی وی،سوچتا ہوں یہ ناتواں صوفہ اُس وزنی جثے والی بلا کابوجھ کیسے اُٹھا پائے گا؟اگر ہمت کرکے بٹھا بھی لے تو اس کے سونے کامتحمل نہیں ہوسکتاکیونکہ مہمان کاحجم صوفے کے رقبے سے کہیں زیادہ ہے۔میں اسی ادھیڑ بن میں غرق تھا کہ بیگم کی آواز آئی:”کھانا لگا دوں کیا؟ نہیں!پہلے اسے آلینے دو پھر اکٹھے مل کر کھائیں گے۔اب ہم دونوں میں بیوی صلاح مشورے میں مشغول ہوگئے،پتہ نہیں اس کا کیا پروگرام ہے، کتنے روز ٹھہرے گااور جتنا یہاں قیام کرے گا،اسے ٹھہرائیں گے کہاں، کھلائیں گے کیا؟پتہ نہیں بڑے شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کے لوگ یہی باتیں سوچتے ہیں جو ہم دونوں کے دل و دماغ میں تھیں۔بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ لندن،نیویارک اور ٹوکیو جیسے بڑے شہروں کے لوگ اپنے مہمانوں سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ آپ نے جانا کب ہے؟ٹورانٹو بھی نیویارک کا دور کا ہمسایہ شہر ہے،اس کا مزاج بھی باقی کاسمو پولیٹن شہروں جیسا ہی ہے۔ گرچہ یہاں رہتے ہمیں ایک دہائی ہونے کوآئی ہے لیکن ابھی بھی اس کے رنگ میں پوری طرح سے نہیں رنگے جا سکے۔اور پھر ہم جو ٹھہرے پنجابی بندے مروّت کے مارے یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ خیر سے آئیے جناب اوربرا نہ منائیں تو اب آئندہ کا پروگرام بھی بتلا دیجے۔

اوہ میرے یارکامریڈ،میرا جگر،میرا دل،اوئے ہوئے ہوئے ہوئے۔۔۔۔ مجھے تو اس بات کی حیرت ہورہی ہے کہ تو نے مجھے فون پر پہچانا کیوں نہیں اوئے۔ عاشق چن نے گھر میں قدم رکھتے ہی گلہ کردیا۔اس کے پیچھے پیچھے ایک تگڑی سی گول مٹول عورت نے بھی اپنی انٹری ڈالتے ہوئے میری بیگم کو پیچھے کھڑے دیکھ کر اپنی بانہیں پھیلا دیں،تو اُن کے اس اقدام سے عاشق چن جی کی خاتونِ اول ہونے کابھی انکشاف ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی چاند کی چاندنی ہمارے ٹی وی لاؤنج میں بکھر گئی۔یہاں ہم ایک کیلئے پریشاں تھے مگر یہ تو جوڑی نکلی۔ جوڑی بھی ایسی کہ جسے دیکھ کے دم نکلے۔سبھی لاؤنج میں ہی اوپر تلے ہو کر بیٹھ گئے اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں نے گفتگو کے درمیان وقفہ دیکھ کر کھانے کا پوچھ لیا تو چن صاحب نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا ”اب تم کھانا بھی ہمیں پوچھ کر کھلاؤ گے کیا؟ میں نے یہ بات سن کر روٹی کھول دیو کا نعرہ مستانہ بلند کردیا۔بیگم کچن کی جانب چلی تو اس کے پیچھے پیچھے چاندکا ٹکڑا بھی سرکتا ہوا چل دیا۔اب دونوں خواتین باورچی خانے میں اور دونوں جوان میدان میں اکیلے اپنی لفنٹری کے زمانوں کو کھوجنے لگ پڑے۔

یارا ! کیا اب بھی پارٹی میں کوئی دم خم ہے یا بالکل ہی مرگئی؟ مجھے تو یوں لگتا ہے یہ پارٹی اب نظام سقہ ٹائپ بندے کے رحم وکرم پر ہے،میں نے عاشق چن کو کریدتے ہوئے مزید کہا، کیا زمانے تھے ہمارے قائد جیسالیڈر دیس تو کیا پورے جگ میں نہیں تھا۔عوام کا سیلاب اس کے پیچھے چل پڑتا تھا۔کیا انقلابی سوچ لے کے آیا تھا۔یو این او میں گرجتا تھا تو شریکوں کو آگ لگ جاتی۔سارے اسلامی ملکوں کا بے تاج بادشاہ تھا،یاد ہے تجھے جب لاہور میں اسلامی کانفرنس کروائی تھی تو اس گلوبل پنڈ کے چوہدری کے سینے پر مونگ دل دی تھی۔ یار چن تجھے تو پتہ ہے مجھے مذہب سے کچھ نہیں لینا دیناہمیشہ سے انسانیت کاپیروکار رہا ہوں۔قائد کے سوشلزم کے نعرے نے میرا بھی دل موہ لیا تھااور اپنے سبھی ترقی پسند دوستوں کی طرح میں بھی اس کے پیچھے لگ گیا۔کیا زمانے تھے یارا،میرے دل سے آہ کے ساتھ یہ جملہ نکلا۔

کھانا کھاتے ہوئے میں نے چن کی بیگم سے پوچھا،”بھابھی آپ نے یہ جن کیسے قابو میں کیا؟،اسے تو ضیائی مارشل لا بھی نہیں زیادہ دیر برداشت کرسکا“ بھابھی نے شرما کر منہ جھکا لیا۔جواب میں چن کہنے لگا،”تجھ جیسے کافر کو مومن بیوی مل سکتی ہے تو مجھے کیوں نہیں؟اچھا یہ بتاؤ بی بی کے دور میں تو تیری بہت ٹور تھی،میں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔ مارشل لا دور کی تیری قربانیوں کا صلہ خوب ملا تمہیں،میں نے سنا تو کوئی مشیر وغیرہ لگ گیا تھا۔ ہاں یارا،چن نے کہنا شروع کیا،مجھے بی بی شہید نے اسلام آباد بلا لیا اور وزارت مذہبی امور میں ایڈوائزر لگا کر میرا مان بڑھایا۔اور تو اور جب بی بی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی بار عمرہ کرنے ربّ کے گھر تشریف لے گئیں تو میرے جیسے پارٹی کیلئے اصل مار کھانے والے جیالوں کو ساتھ لیجانا نہیں بھولیں۔کامریڈا ! تویہ سن کر میری قسمت پر رشک کرے گا کہ جب بی بی شہیدکیلئے خصوصی طور پرخانہ کعبہ کا دروازہ کھلا تھاتو میں بھی ان کیساتھ کعبۃاللہ کے اندر گیاتھا۔تجھے اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے مجھ گناہگار پر کتنا کرم کیا،اپنا گھر بھی دکھایا اور اندر جا کے نفل بھی پڑھنے کی سعادت ملی جو لاکھوں کروڑوں میں کسی کسی کوملتی ہے۔ تم واقعی سلوک کی اس منزل کا ادراک نہیں کرسکتے۔تمہیں کیا معلوم کہ یہ کتنی بڑی سعادت ہے،تم تو الٹی سیدھی کتابیں پڑھ پڑھ کے نہ جانے کیا سے کیا بن گئے ہو؟ کبھی کبھی تو مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ تم اب مسلمان نہیں رہے۔ اچھی بات ہے عاشق بھائی تمہارا حق بھی تھا یہ،تمہاری بہت خدمات ہیں پارٹی کیلئے،میں نے بات کو لپیٹتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ جیلیں کاٹیں،کوڑے کھائے،کاروبار ختم ہوا،کیا کیا نہیں ہوا تمہارے ساتھ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی درگت بنتے دیکھ کر وطن سے بھاگ نکلا اور یہاں آکر ایک نئی زندگی کی شروعات کیں۔تنکا تنکا جمع کرکے یہ چھوٹی سی کٹیا بنائی،مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔

کامریڈ یارا! تم کل بھی عظیم تھے اور آج بھی ہو،دیکھ لو آج قدرت مجھے خود ہی تمہارے پاس لے آئی ہے۔ ہاں یارا تم ٹھیک کہتے ہو،میں نے جواب میں کہا۔چلو یار باہر ذرا ٹہلتے ہیں بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں دکھنے لگ پڑی ہیں،عاشق نے تجویز پیش کی۔ٹھیک ہے جناب چلیے،میں نے عورتوں کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں باہر جانے کا بتایا جو کچن میں کھانے  کے بعد باتیں کرتے ہوئے برتن دھو رہی تھیں۔

ٹورانٹو کا موسم تو بہت ہی پیارا ہے یار،ادھر اپنے پنجاب میں تو آجکل آگ برس رہی ہے سمجھو۔یوں لگتا ہے جیسے آدمی پسینے کے ساتھ پگھل کر آدھا رہ گیا ہو،چن نے باہر نکلتے ہی کھلی فضا میں لمبا سا سانس لینے کے بعد ارشاد فرمایا۔ہاں یار یہاں بھی گرمی کا موسم آتا تو ہے مگر ایسے جس طرح اپنے وطن میں بہار آتی ہے،گورے بہت خوش ہوتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں اس موسم کا۔ سب میلے ٹھیلے اسی موسم میں ہوتے ہیں۔ ویسے بھی یہ شہر رونقوں اور خوشیوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ تو گرمیوں میں بھی سویٹر اور جیکٹس پہنے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے عاشق کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔جیکٹ کا نام سن کر عاشق نے کہنا شروع کیا،”مجھے اندازہ تھایہاں ٹھنڈ ہوگی، کامریڈ ویر اسی لئے میں نے ٹورانٹو آنے کیلئے خالص چمڑے کی کالی جیکٹ سیالکوٹ سے خصوصی طور پر بنوا لی تھی۔“اس نے اپنی لیدر جیکٹ کو فخر کے ساتھ تھپ تھپاتے ہوئے مجھے یقین دلایا۔ واقعی یار تمہاری جیکٹ خوبصورت ہونے کے  ساتھ قیمتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ تمہیں شاید معلوم نہیں یہاں خالص لیدر کی جیکٹ کتنی مہنگی ہے اور عام آدمی تواِسے خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتابلکہ میری طرح اسے شوکیس میں لگی دیکھ کر ہی اپنا دل بہلا لیتا ہے۔ یہاں تو ایسی جیکٹ کیلئے قتل بھی ہوجاتے ہیں،یہ کہہ کر میں نے جیکٹ کی اہمیت کو اور بلند کردیا۔

ہم باتیں کرتے کرتے کافی دور نکل آئے،عاشق نے میری طرف مڑتے ہوئے کہا،”کامریڈ!ہر شہر کا ایک مرکز ہوتا ہے اور اس مرکز میں کہیں ریڈلائٹ ایریا بھی پایا جاتا ہے،کیا وہ یہاں بھی ہے؟ کیوں نہیں چن جی غلام عباس کے افسانے ”آنندی“کی طرح یہ کلچر ہر شہر کی  بنیادی حیثیت کا حامل ہے،میں نے چن کی بات کو لپیٹنے کی کوشش کی۔ تو پھر ٹورانٹو کی ہیرا منڈی کدھر ہے،چن نے مجھ سے دریافت کیا۔ ٹورانٹو ایک شہر کا نام نہیں بلکہ اس میں کئی چھوٹے بڑے شہر مل کر اسے گریٹر ٹورانٹو ایریا بناتے ہیں۔یوں سمجھ جیسے پنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہر ہیں۔رہی بات ریڈ لائٹ ایریا کی تو ایسی کسی پختہ جگہ یا مقام کا تو مجھے علم نہیں ہے مگر مساج سینٹرز کے نام سے ہر علاقے اور سڑک پرمراکز ضرور موجود ہیں جن کی آڑ میں پیشہ ور عورتیں اپنا دھندا کرتی اورخواہش مند وہاں جاکے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ان مالشی عورتوں کونوٹ دکھا کر موڈ بنوانا کوئی بڑی بات بھی نہیں۔

چل پھر مجھے وہاں لے چل،چن نے خواہش ظاہر کی۔ٹھیک ہے لیکن میرا خیال ہے تم لمبے سفر سے آئے ہو آرام کرلیتے،پھر کبھی درشن کرلیں گے،گھر میں تمہاری بیگم بھی انتظار کررہی ہوگی۔ویسے بھی وہاں دیکھنے کو ہے کیا؟ وہاں کوئی مجرہ وغیرہ توہوتانہیں،میں نے وضاحت بیان کرتے ہوئے کہا۔ اوہ نہیں یارا مجھے ابھی دکھا یہاں کا کوٹھا،چن نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ میں نے ہتھیار پھینک دیئے اور ذہن دوڑانے لگا کہ یہاں نزدیک کوئی مساج سینٹر ہوتو وہیں کا چکر لگا لیا جائے۔ اِک دم خیال آیا کہ چلو گوگل کرکے دیکھتے ہیں،موبائل فون پر ایک منٹ میں آس پاس کے چار پانچ سینٹرز کے نام پتے سامنے آگئے۔ایک سب سے نزدیک والے کا انتخاب کرکے ادھر کا رخ کرلیا اور کوئی پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ہم مساج سنٹر کے سامنے پہنچ گئے۔ سنٹر پہلی منزل پہ تھا،نیچے کوئی ریستوران جس کیساتھ ہی اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں تھیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کے اوپر پہنچے تو وہاں کاریڈور میں شیشے کی دیوارسے اندر کا رنگ برنگا منظر دکھائی دیا، جہاں مختصر زیر جامہ لباس میں کھڑی ایک حسین نوعمرلڑکی مسکراتے ہوئے ہمیں اندر کی جانب آنے کا اشارہ کرتی نظر آئی۔ اس کا کسا ہوا بلاؤز اُمڈتی جوانی کے سیلاب کو بمشکل تھامے ہوئے تھا۔ شاید یہ اسکی پیشہ وارانہ مجبوری تھی یا ہنر،مگر میں اس سے اور آگے کچھ سوچنے کی بجائے چن کو بولا،جی بھر کے دیکھ لے اسے اور جلدی کر گھر والے انتظار کررہے ہوں گے،اتنا کہہ کر میں گویا اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔ میری بات کو چن نے کوئی لفٹ نہ کراتے ہوئے جواب دیا،نہیں یار ابھی تو آئے ہیں اور اندر کا نظارہ تو کیا ہی نہیں کیوں نہ ایک ٹور کیا جائے،اس نے تجویز دی۔ میں نے کہا، اندر بھی وہی کچھ ہے جو شیشے میں دکھائی دے رہا ہے، بس لاہور کی ہیرا منڈی والاماحول نہیں ملے گا۔اوئے کامریڈ کم نصیبا دیکھ تو سہی لُس لُس کرتی جوانی۔۔۔ اس کا پیالہ پئے بنا کیسے واپس جایا جا سکتا ہے؟ اندر کی اصل بات بھی اس کے ہونٹوں پہ آگئی۔

میرا دل چاہ رہا تھا اِسے تھپڑ مارتا ہوا گھر لے جاؤں جہاں اس کی بیوی انتظار میں بیٹھی ہے،مگر یہ میری کسی بات میں آہی نہیں رہا کم بخت پر کیا بھوت سوار ہوگیا۔ میرے سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنی ضد سے نہ مڑا تو پھر میں بھی ہار کر بولا،چل اپنی مرضی پوری کرلے۔میرے اقرار کو سن کر چن کی آنکھیں چمکیں اور بولا کہ تو اس سے بات کرمیرے ساتھ سیکس کرنے کے کتنے پیسے لے گی؟ میں نے لڑکی کو اشارہ کیا تو اس نے شیشے کے دروازے کی اندر والی کنڈی کو کھولنے کیلئے ذرا جھک کر ہاتھ بڑھایا تو اس کی بمشکل ڈھکی ہوئیں چھاتیاں اور کھل کر سامنے آگئیں۔ لڑکی کی عمر کوئی بائیس تئیس برس کے لگ بھگ تھی مگر یہ مشٹنڈہ پچاس کو پھلانگ چکا تھا۔ مجھے لڑکی پر ترس سا آنے لگا،خیر میں نے جھجکتے ہوئے پیسے پوچھے تو اس نے پچاس ڈالر مانگ لئے۔ چن نے یہ سنا تو فوراً ہاں کردی۔ اس نے اپنی جیکٹ اتار کر میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا ’یار تم اس کی حفاظت کرنا‘۔مجھے بہت عجیب لگا اور کہنے لگا یار اندر کلی یا ہک ہوگا جہاں پہ تم اسے لٹکا دینالہذا اسے تم ساتھ ہی لے جاؤ تو ٹھیک ہے،میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔ اوہ نہیں اوئے کامریڈ جگر،تو اسے باہر ہی لے کے کھڑا رہ اور میرے  واپس آنے تک اسے احتیاط سے پکڑے رہنا،چن نے مجھے نصیحت کرنے کے انداز میں بولا۔ مگر یار اسے اندر لیجانے میں کیا مضائقہ ہے؟میں نے زور دیتے ہوئے پوچھا۔ ساری باتیں نہیں سمجھے گاتو آخرکامریڈ کا کامریڈ ہی رہا،یہ کہہ کر وہ مڑا اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ ے جلدی سے اندرکمرے میں گھس گیا کہ کہیں میں کوئی اور عذر نہ تراش لوں، لیکن وہ مجھے اپنے گھمبیر جملے کی فلاسفی میں الجھا گیا۔ مجھے قیاس آیا شاید جیکٹ میں کوئی رقم وغیرہ ہے جس کی حفاظت کے خیال سے میرے حوالے کرگیا ہے۔ لاہور کی ہیرا منڈی ایسی چوریوں اور ٹھگیوں کیلئے مشہور ہے،لوگ وہاں بھری جیب لئے جاتے اور اپنا سب کچھ لٹا کر لوٹتے ہیں۔ہوسکتا ہے چن کے ساتھ وہاں ایسی کو ئی واردات ہو گزری ہو جس کے ڈر سے یہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ویسے بھی سانپ کا ڈرا ہوا رسی سے بھی خوف کھاتا ہے۔ میں اتنی دیر باہر کھڑا ہوکر منحوس جیکٹ کو کندھے پر لٹکائے سگریٹ کے دھویں میں چن کی تہہ دار شخصیت پر غور کرنے لگا۔ جیکٹ اصل چمڑے کی بنی ہوئی تھی اور خاصی وزنی بھی،اس نامراد کو اٹھائے ہوئے تومیرا کندھا درد کرنے لگا۔

چن کو واپس آنے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگا۔ مگر کہتے ہیں کہ انتظار کا ایک ایک پل صدی کے برابر ہوتا ہے۔ اس کی شکل دیکھتے ہی میری جان میں جان آئی اور میں نے جیکٹ اس کی جانب اچھالتے ہوئے کہا،یہ لو اورسنبھالو اسے۔ مگر جیکٹ وزنی ہونے کے سبب اس کے ہاتھوں تک نہ پہنچ پائی اور درمیان میں ہی زمین پر جا گری۔ چن نے ایکدم غصے میں میری جانب دیکھا اور پھر جیکٹ کو زمین پر سے اٹھا کرجھاڑتے ہوئے اپنی آنکھوں کے ساتھ لگایا اور ساتھ ہی محبت کے ساتھ چومنے لگ پڑا۔ مجھے حیرت ہورہی تھی اور اس عمل کی بالکل سمجھ نہ آئی تو اسے پوچھا یار اگر اس میں تیری کوئی قیمتی شے تھی تو بھی اسے اندر کوئی خطرہ نہیں تھا،یہاں کے لوگ بہت ایماندار ہیں اور لڑکی نے صرف وہی پیسے لینے تھے جو اس نے طے کیے تھے۔تم کیوں اسے اندر لے کر نہیں گئے؟میرا سوال پھر ابھر کر اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ عاشق چن جو اپنی جیکٹ کو چوم چام کے پوری طرح سے پہن چکا تھا،میرے ساتھ گھر واپس مڑتے ہوئے بولا!

” میں نے تجھے بولا تھا ناں کہ تو کامریڈ دا کامریڈ بلکہ پکا کافر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجھے اس کی قدر کیسے ہو بھلا،اور ویسے بھی میں اس جیکٹ کواُس ناپاک جگہ میں کیوں لے جاتا؟
اوہ بے وقوف انسان اس جیکٹ کی جیب میں میرا قرآنِ پاک تھا“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply