ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا…

آج سے دو سال قبل میری شادی ہوئی تو پانچ دن بعد ہی رمضان تھا. کشمیری ہونے کی وجہ سے مجھے لگتا تھا کہ دنیا میں جب من و سلویٰ کا نزول ہوتا ہو گا تو یقیناﹰ وہ چاول سے بنی ہی ڈشز ہوں گی. چاولوں کےعلاوہ مجھے اگر کوئی چیز پسند تھی تو وہ بس وہی تھی جو چاولوں کے ساتھ کھائی جا سکے. "شدید بھوک" اکثر گھر میں چاول نہ پکے پا کر "بھوک ہی نہیں لگی" بن جایا کرتی تھی. مجھے سبزیاں بہت پسند تھی کیونکہ وہ چاولوں کے ساتھ کھائی جاتی تھی. البتہ پھلوں سے بے رغبتی کے لیئے میں بس اتنا لکھوں گی کہ میں نے دس سال آم کو منہ نہیں لگایا. اور یہ دس سال ہوش کے تھے.
خیر قصہ مختصر یہ کہ شادی پنجابیوں میں کر بیٹھی. اور دیگر مکمل تفریق جو مجھ میں اور میرے میاں میں تھی اس میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ پھلوں کے اس قدر دیوانے تھے کہ میں پھلوں کو بھی اپنی سوتن سمجھ سکتی تھی. ("بھی" کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کیونکہ اس "سوتن" نامی فہرست میں کچھ دوست کچھ عادتیں اور کچھ پسندیدگیاں شامل تھی). ہماری پھلوں پر پہلی تکرار ہوئی لیکن میرے میاں نے پہلا ہی ریمارک ایسا کیا کہ میں ناک آؤٹ ہو گئی. ان کا فرمان تھا "حضرت ابراہیم نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اس شہر کے رہنے والوں کو پھل ملتے رہیں" خیر اگرچہ اس میں بحث کی گنجائش بہت تھی مگر ضروری تو نہیں کہ ہر وقت بندہ فلسفی بنا رہے. بہرحال مجھے بحث میں چاروں شانے چت دیکھ کے میاں حضور نے اگلا مطالبہ پیش کیا کہ اب تم اگر مان ہی گئی ہو پھلوں کی اہمیت کو تو ان کو اپنی خوراک کا جزو بناؤ. میرے لیئے یہ تقریباﹰ زہر کا پیالہ پینے کے برابر تھا. بھلا جو حصہ میں نے پھل کھا کے بھرنا اس میں کتنے چاول سما سکتے ہیں. چار پانچ دن تو اسی ٹیبل ٹاک میں گزر گئے مگر مذاکرات ناکام ہوئے اور میں پھل کھانے سے انکاری رہی. مگر رمضان کا آنا میرے میاں کے کام آ گیا. پہلے روزے افطاری سے کچھ پہلے ہم کہیں نکلے. اور گاڑی میں صرف پھل اور پانی. گرمی کے طویل روزے کے بعد بھوک کو آخر کتنی دیر بہلاتی. میں نے زندگی میں پہلی بار افطار میں صرف پھل کھایا. اس کے بعد کچھ ایسی وجوہات مسلسل بنتی گئیں کہ وہ رمضان میرا بیشتر افطار ثابت اور سالم پھل سے ہی ہوتا. اس طرح میری پھل سے دوستی ہو گئی.
شادی سے پہلے میں نے بھی دیگر بچیوں کی طرح کبھی اس قسم کی خریداری کے لیے بازار کا رخ نہیں کیا تھا. لیکن بعد میں اس شاپنگ کو میں نے اپنی روٹین کا حصہ بنا لیا. کیونکہ مجھے سمجھ آئی کہ مرد اور شوہر بھی ایک قسم کے انسان ہوتے ہیں. اور ان پر بھی اتنا ہی بوجھ لادنا چاہیے جتنا وہ سہہ سکیں. سو یہ شعبہ بھی ہم دونوں نے بانٹ لیا. اور چڑیا چڑے کی طرح ایک دال کا دانہ اور ایک چاول کا دانہ لانے لگا. یوں ایک لڑکی جو کہ آٹے دال کا بھاؤ نہ جانتی تھی سارے پھل اور سبزیوں کی ریٹ لسٹ زبانی بتانے لگی.
میری اس اتنی لمبی تمہید کا مقصد اپنی شادی کا احوال سنانا نہیں. بلکہ اپنی تحریر کی تمہید اور کچھ آپ کی توجہ چاہنا تھا. اب جب کہ غالبا آپ متوجہ ہیں تو کیوں نہ کام کی بات ہو جائے.
رمضان دو ہزار سترہ کا آغاز ہوا. چاند رات کو میں کیلے خریدنے نکلی تو معلوم ہوا کیلا ایک رات میں ڈیڑھ سے دو سو روپے پر جا چکا. دکاندار سے گلہ کیا تو بولا باجی ہنس کے لے جائیں. ابھی تو مزید مہنگا ہونا. ہمارے کمانے کے دن ہیں. میں سوشل میڈیا سے منقطع ہوں. مگر واٹس ایپ پر پیغامات موصول ہونا شروع ہوئے کہ فروٹ بائیکاٹ مہم شروع کی جائے. پھر تاریخ کے اعلان کا پیغام آیا. پہلے تو مجھے اندر ہی اندر ہنسی آئی کہ ایک سو ساٹھ روپے کلو کا فالسہ دیکھ کر جب میں یہ کہہ کر چھوڑ دیتی ہوں کہ ابھی اس کی شکل ایسی ہے تو اتنا مہنگا ہے. سوہنا ہوتا تو کتنا مہنگا ہوتا، تو ایک خاموش سی ہڑتال تو میں کر ہی رہی ہوں. لیکن اب جب اس ہڑتال کی ایک باقاعدہ مہم سامنے آئی تو میرے لیئے فیصلہ مشکل تھا کہ میں کس طرف ہوں. بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کیا ضروری ہے کہ ہم کسی پلڑے میں جا ہی بیٹھیں. معتدل بھی تو رہ سکتا ہے انسان. لیکن کچھ ہی دیر میں حسب سابق دونوں طرف سے دھواں دار طنز اور تقاریر کے سلسلے مسجز میں آنے شروع ہو گئے.
میں نے اب تک جتنا کچھ پڑھا ہے سچ بتاؤں تو دم دونوں طرف کے دلائل میں ہے. میں بہرحال کسی کی نہ تو حمایت میں ہوں نہ مخالفت میں. لیکن بات اگر اٹھی ہے تو چلیں پھر بات کر لی جائے.
مہم کی ابتداء
کسی بھی مہم کی ابتداء پورے ہوم ورک کے بعد کرنی چاہیے. اس مہم کے اغراض و مقاصد بہت اچھے سہی، لیکن یہ ایک جلد بازی میں شروع ہوئی مہم تھی. اس کو ڈرافٹ کرتے ہوئے صارف کا ضرور سوچا گیا لیکن یہ نہیں دیکھا گیا کہ اصل نقصان کس کا ہو گا.
ہمارے ہاں ٹھیلے والے وہ قوم ہیں جو شاید نماز روزہ وغیرہ نہیں پورا کرتے مگر اللہ پر ان کا توکل پرندوں جیسا ہوتا ہے. وہ صبح گھر سے اپنا کل سرمایہ جیب میں رکھ کر نکلتے ہیں. اس سے سامان تجارت خریدتے ہیں. اسے فروخت کرتے ہیں. منافع گھر میں راشن ڈالنے کے کام آتا ہے. سرمایہ اگلے دن کا سامان تجارت خریدنے کے لیئے بچا لیا جاتا ہے. ان لوگوں کے اس سائیکل میں ذرا سا بھی دھچکا ان کی معاشی کمر توڑ دیتا ہے.
جب آپ نے یہ مہم شروع کرنی تھی تو لازمی تھا کہ آپ ہر فروٹ مارکیٹ میں منادی کرواتے کہ ہم تین دن تک پھل نہیں خریدیں گے. تاکہ یہ طبقہ جو روز کا روز کماتا ہے اپنا سرمایہ کسی سبزی میں لگا لیتا یا کم از کم اس دن سودا نہ لیتا(میں سوا سال ایسی جگہ رہی ہوں جہاں قریب کچی بستی میں یہ لوگ تھے اس لیئے میری باتوں کو میری ذہنی اختراع نہ سمجھا جائے). جب اس پھیری والے نے سودا لے لیا تو صاف بات ہے آڑھتی کو منافع مل گیا. اب نقصان کا جو جھٹکا آئے گا وہ اس پھیری والے کو سہنا ہے. یہ اس کا ایک پہلو ہے.
رد مہم والوں کے دلائل
جو اس مہم کو رد کر رہے ہیں وہ کچھ ملتی جلتی دلیلیں دے رہے.
کچھ کا کہنا ہے کہ کرنا ہے تو برانڈز کا بائیکاٹ کرو.
کچھ کہتے کہ پھل سے دو تین سو بچا کے اکانومی ڈیل کھا لی جائے گی.
کچھ کہتے افطار اور ڈنر بوفے کھا کر پھل والے کو دس روپے دیتے موت پڑتی.
کچھ کہہ رہے رمضان خیرات کا مہینہ ہے اس لیئے خرچ کریں.
بظاہر بات میں بہت وزن ہے. مگر کچھ چیزیں یہاں بھی توجہ طلب ہیں. میں ایک ایسی فیملی کو جانتی ہوں جسے میں نے گرمیوں میں تربوز کے علاوہ کوئی پھل نہیں کھاتے دیکھا. وجہ یہ تھی کہ واحد پھل تھا جو ساڑھے تین کلو سو روپے میں آ جاتا.
برانڈز پر خرچ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو یہاں ایک بات مکمل نظر انداز کی گئی ہے. تاحال یہ آسانی تو ہے کہ جس کے لیئے برانڈ افورڈ ایبل نہیں اس کے لیئے سستا جوتا سستا کپڑا ورکپڑا دیگر سستی اشیاء موجود ہیں. دوسری بات مڈل کلاس طبقہ جس میں میں بھی شامل ہوں وہ برانڈز عام دنوں میں نہیں لیتا. برانڈز کی بہترین بات سیل ہے. سیل کے دنوں میں انہیں برانڈز کی معیاری چیزیں اس قیمت میں دستیاب ہو جاتی ہیں جس میں عام چیزیں ملیں.
معاشیات کا اصول ہے کہ ایک صحیح مارکیٹ میں قیمت کا تعین طلب و رسد کرتا ہے. رسد طلب سے بڑھ جائے تو قیمت گر جاتی ہے. یہ مہم اسی سوچ کے ساتھ شروع ہوئی ہو گی (چونکہ میں بانیان مہم سے واقف نہیں تو حتمی فیصلہ نہیں دے سکتی). لوگ وہ بھی ہیں جو برانڈز کا پچیس ہزار کا سوٹ یہ کہہ کر لے لیتے ہیں کہ کتنی مناسب قیمت ہے. اس مہم کا مخاطب وہ نہیں ہیں. لوگ وہ بھی ہیں جو پچیس سو کی شرٹ پر پچھتر فیصد آف کا انتظار کرتے ہیں. تاکہ دو شرٹس لے کر سیزن گزار لیں اور عزت رہ جائے. یہ مہم ان لوگوں کے لیئے ہے. جب طلب و رسد کا توازن بگڑنے سے قیمت گرے گی تو شاید کچھ خاندان نیوزی لینڈ کا سیب چکھ سکیں گے.
ڈنر بوفے کرنے والے اگر پھل والے سے دس روپے کے پیچھے لڑیں تو ایسے شخص کے پیچھے اس بندے کو نہ بھولیں جو سارا دن محنت کر کے تیس روپے کی چنے کی پلیٹ کھا کے سوچتا ہے آج بڑی عیاشی کی.
یہ ماہ خیرات کا ہے تو اپنے گھر کام کرنے والوں کو اس ماہ وہ تنخواہ ادا کریں جو کم از کم ماہانہ تنخواہ مقرر ہے.
ان دونوں اطراف کے تجزئیے کا مقصد یہ تھا کہ یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا. ہر چیز میں اچھے برے پہلو ہوتے ہیں. میرے خیال میں جو لوگ مہم چلا رہے ہیں ان کو طنز اور تحقیر کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کی نیک نیتی کی داد دی جائے. انہوں نے بہرحال ایک اچھی نیت سے کام شروع کیا. اور وہ لوگ جو مخالف ہیں ان کے لیئے میرے پاس ایک تجویز ہے.
میں پورے دل سے قائل ہوں کہ اس میں نقصان پھیری والے کا ہوا ہے. مگر کراچی کے ایک ادارے نے اس کا بڑا مثبت حل نکالا. انہوں نے ایسے پھیری والے جن کا نقصان ہوا ان کو وہ سرمایہ قرض حسنہ کی صورت میں ادا کیا جس سے وہ کاروبار دوبارہ شروع کر لیں. آپ اس ماہ افطار پارٹیز نہ کریں. ان افطار پارٹیز پر ہونے والی رقم اکٹھی کرتے جائیں. آپ چند دوست ہیں تو مل کر ایسا کر لیں. وہ بچی ہوئی رقم اکٹھی کر کے ان پھیری والوں کو دے دیں جنہوں نے اپنی ریڑھ کی ہڈی پر اس مہم کا بھار سہا.
اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں عطا کرنے کا ہنر اور ظرف دے. آمین.
رمضان مبارک

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا…

Leave a Reply