• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہم اور سر ی پاڈا کہہ لیجیے آدم پیک ۔۔۔سلمیٰ اعوان

ہم اور سر ی پاڈا کہہ لیجیے آدم پیک ۔۔۔سلمیٰ اعوان

نویرا اہلیہ سے آدم پیک تک کا راستہ پہلو در پہلو لیٹی ہوئی ڈھلانی پہاڑیوں پر مشتمل، جن پر چائے کے باغات کا سلسلہ فطرت کے کسی دلآویزشاہکار کی طرح آپ کا دل مُٹھی میں بند کر لیتا ہے۔ راستہ سانپ کی طرح بل کھاتا تھااور پہاڑی علاقے کے سب لوازمات سے بھی لیس تھا۔داہنے ہاتھ گھاٹیاں تھیں پر انہیں دیکھ کر رگوں میں خوف سے سنسنی کی لہریں نہیں دوڑتی تھیں۔ بائیں طرف پہاڑوں کی دیوار تھی پر ان میں جلال سے زیادہ جمال کی جھلک تھی۔
ہمارے گائیڈ نے کہا۔”ذرا سامنے دیکھیے۔“
دور شفاف آسمان کے نیچے دھوئیں کا بادل تھاجس کے سائے میں سفید گُنبدسا نظر آتا تھا۔ مُنی سی قامت والا پہاڑ اب بھلا کے ٹو،نانگا پربت، راکاپوشی اور ترچ میر دیو قامت چوٹیوں کو دیکھنے والی آنکھ کو بھلا کیا جچتا۔

نوروڈ گروپ کے گاؤں سے جب گاڑی مُڑی تب دریا کا دیدار ہوا۔ پر سمندروں سے گھرے ہوئے جزیرے کا یہ کیسا دریا تھا؟ خاموش لیٹا ہوا،ٹکڑیوں میں بٹا، کٹاؤ دار، کہیں ایسی صورت گری جیسے کسی فیشن ایبل نے اپنے لباس میں جگہ جگہ میچنگ کپڑے سے کٹاؤ بنائے ہوں۔
آدم پیک کا مقامی نام سری پاڈا،سمینیو لا کنڈا Samanola Kanda ہے۔سری پاڈا کا مطلب مقدس فٹ پرنٹ اور سیمینولا کنڈا سے مرادسیمن دیوتا کا پہاڑ ہے۔ مغربی سیاحوں نے اسے آدم پیک کا نام دیا ہے۔ سری لنکا کے ساحلوں سے باہر پوری دنیا میں اس کی وجہ شہرت 7437فٹ اُس کی بلند ی نہیں بلکہ چوٹی پر دھرے پاؤں کے نشان کا تقدس ہے۔ جسے بُدھ مت کے پیرو کار بُدھا، کیتھولک عیسائی سینٹ تھا مس (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں میں سے ایک جو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے منتخب ہوئے)، مسلمان حضرت آدم علیہ السلا م اور ہندو شیو اعظم دیوتا کا مانتے ہیں۔

آدم پیک کی حدود میں گاڑیوں کا اژدہام نظر آیا۔ پر بدنظمی اور بے ترتیبی کہیں نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں کچھ اِسی شان بان سے کھڑی تھیں جیسے کِسی شہر کی اچھی انتظامیہ سڑک کو دورویہ درختوں سے سجا دیتی ہے۔
”میرے اللہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پورا سری لنکا زیارتی مشن پر نکل آیا ہے۔ یہ تو گائیڈ نے ہی بتا دیا تھا کہ پیک پر جانے کا بہترین وقت رات کو دو بجے کا ہے۔ 4800سیڑھیاں درمیانی رفتار کے ساتھ چڑھ کر صبح دم جب آپ اُوپر پہنچتے ہیں تو ایک دلفریب منظر اپنی پوری رعنائیوں سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس نظارے کی گرفت ابھی ڈھیلی نہیں ہوتی کہ اس سر زمین کا ایک اور خوبصورت منظر طلوع آفتاب آپ کو اپنے آپ میں جذب کر لیتا ہے۔

ذرا کمر سیدھی کرنے پر ہم دونوں ہی تیار نہ تھیں۔ ڈل ہاؤس روڈ پر گاڑیوں کی چیخم دھاڑ کلیجہ دہلائے دیتی تھی۔کسی چابک رسید ہ سہمے ہوئے گھوڑے کی طرح بد ک بدک کر ہم کبھی سڑک کنارے اور کبھی ملحقہ کچّے راستے کے سرے پر ہوتے۔ چھوٹے چھوٹے کھوکھے فوڈ انڈسٹری کی ماڈرن صورتوں سے پوری طرح لیس راہگیروں کو لذت کام ودہن کی دعوت دیتے تھے۔
میل بھر چلنے کے بعد ہم ایک رنگ رنگیلے بھر یا میلے کی حدود میں داخل ہوئے دورویہ دوکانیں مقامی مصنوعات سے پُر تھیں۔ نسواری، لال اور زعفرانی رنگوں والے تقریباً تین انچ چوڑے اور 10انچ لمبے لجلجے سے جیلی نما حلوے کے ٹکڑے جنہیں سنہالی زبان میں دُودُل کہا جاتا ہے ہر مٹھائی والی دوکان کی زینت بنے زائرین کو خریدنے اور کھانے پر اُکساتے تھے۔

رات کو کھانے کے لئے ڈائننگ روم میں آئے تو دنیا جہان کی نسلوں کا ایک اکٹھ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہا تھا۔ فضا میں کھانوں کی مہک تھی۔ گلاسوں میں ڈرنک انڈیلنے کا شور تھا۔ ہماری قریبی میز پر دو اُدھیڑ عمر کنفرمڈ بیچلر جرمن جو تین بار سری لنکا اور سات چکر انڈیا کے لگا بیٹھے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ ایک بار بھی پاکستان نہیں آئے تھے۔
”کیوں کیا پاکستان میں باگڑ بلے بیٹھے ہیں تمہیں کھانے کے لئے؟“
انڈیا کے سات چکر لگانے کا سُن کر میں تو یوں حسد سے تڑخی تھی جیسے گرمی سے گیلی مٹی تڑختی ہے۔ پاکستان تو دہشت گردی کا شکار ہے۔ القاعدہ کے لوگ گھروں میں چھُپے بیٹھے ہیں۔ آئے دن بم دھماکے ہوتے ہیں۔ اُس نے۔۔۔۔۔۔۔
”انڈیا تو امن کی جنت ہے نا؟ وہاں تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ انڈیا سے زیادہ بم بلاسٹ اور کہاں ہوتے ہیں؟ انڈیا اور امریکہ سے بڑے دہشت گرد اور کون ہیں؟“
ایسی تلخ باتوں پر اُن کے بندر کی پیٹھ جیسے رنگ والے چہرے اور لال گلال ہوئے۔ ہنسے ضرور پر تھوڑی سی خفت بھی نمایاں ہوئی جس نے مجھے حوصلہ دیا۔ اور میں نے پاکستان کی خوبصورتی اور اس کے تاریخی مقامات کی زوروشور سے وکالت کی۔ لاہور کے دروازوں   کی تفصیل اس شہر کی تاریخی عمارات جن میں شہزادیوں کے حمام اور نشست گاہوں کا دلفریب نقشہ ان سب کا ذکر کس قدر زوروشور سے بیان ہوا۔ارے اندرون لاہور کا تو چپہ چپہ تاریخ میں اُلجھا پڑا ہے اور جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ توجمّاہی نہیں۔اپنی زبان کی یہ کہاوت جب انہیں سُنائی تو ان کے ہنسنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی ہنسے۔

کھانے کی میز پر سری لنکا کے کھیتوں میں اُگنے والے چاول قاب میں پڑے یوں دِکھتے تھے جیسے سُچے موتی سجے ہوں۔ درمیان سے موٹے اطراف سے پتلے چھوٹے آف وائٹ کلر لئے ہوئے۔
جگانے کے لئے دستک زوردار تھی۔ نیند بھی اُس وقت زوروں پر تھی۔ روزے کے لئے سحری کے وقت اُٹھنے والی مجبوری اور بیزاری کی سی کیفیت تھی۔
”سر ی پاڈے کو دفع کرو۔اُسے گولی مارو۔“نیند نے جیسے سرگوشی کی۔ پر اسے ہرگز دفع نہیں کیا جاسکتا تھا اور نہ اسے گولی ماری جا سکتی تھی۔

شراٹے مارتی اوائل فروری کی اس تیسرے پہر کی خوشگوار خنکی سے لبالب بھری ہوائیں ڈھلانی پہاڑوں پر اُگے چائے کے پودوں سے گتھم گتھا ہو کر آنے کا بھرپور تاثر دیتی تھیں۔ نیچے گھاٹیوں میں خوفناک گہرا اندھیرا تھا۔ جہاں ہوائیں سیٹیاں بجاتی اور شور مچاتی تھیں۔
رات کے اس پہر بھی ہر عمر اور ہر سائز کے ہجوم عاشقاں کا سیل رواں تھا۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں او رچھوٹے بچوں کی اُچھل کود نے حرم کعبہ کی بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا تھا۔ کچھ فرق تھے جن میں متانت اور سنجیدگی سر فہرست تھی جو وہاں تھی اور یہاں نہیں۔

آدم پیک کا راستہ آغاز میں خاصا کشادہ کلیجی مائل سُرخ بجری سے ڈھنپا اطراف میں جا بجا سٹالوں سے سجا پڑا نظر آیا تھا۔رات کے گھور اندھیرے اردگرد کے نظاروں کی باریکیوں کو دیکھنے اور سراہنے کی راہ میں حائل تھے۔ نوجوان بُدھ بھکشووں کی زائرین کی طرف دلچسپی اور بھرپور توجہ متاثر کن تھی کہ اطراف میں لگائے گئے چھوٹے سے کیبنوں میں کھڑے وہ نوجوان لڑکیوں کی کلائیوں میں دھاگہ نماڈوریاں باندھنے اور انہیں ہدایات دینے میں بڑے انہماک سے جتے ہوئے تھے۔
مسلسل چلنے اور موڑوں کی چڑھائیوں سے ہم ہونکنے کی کیفیت میں تھے۔ شاید اِسی لئے چائے کے سٹال کے سامنے دھری کُرسیوں پر ڈھے سے گئے۔پر یہاں چائے نہیں کافی تھی۔ اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض کے لئے کافی خطرے کا سگنل ہے۔پر تھوڑا ساتازہ دم ہونے، تھوڑی سی بشاشت اور ہڈیوں کو متحرک کرنے کے لئے چند گرم گھونٹوں کا اندر جانا بھی بُہت ضروری تھا۔سو ڈرتے ڈرتے آدھا کپ پیا۔سٹال پر کھڑا خوش طبع اور تعلیم یافتہ لڑکا ”غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دنیا“ کی عملی تفسیر نظر آیا تھا کہ جونہی میں نے یہ جاننے کے لئے لب کھولے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے متعلقہ اس روایت کا کوئی تاریخی حوالہ بھی ہے یا یونہی قصہ کہانی ہی ہے۔ اُس نے حوالوں کے ڈھیر لگادئیے۔

پہلا حوالہ  تو اُن عرب تاجروں کا تھاجو پہلی صدی عیسوی میں سیلون (سری لنکا کا پرانا نام) آئے تو چوٹی سے نکلتے مختلف رنگوں کی بوچھاڑ نے نہ صرف ان کی رہنمائی کی بلکہ انہیں یہ یقین دلایا کہ بابا آدم یہیں تو گرے تھے۔ دوسرا طاقتور حوالہ مار کوپولو ابن بطوطہ اور مریگنولی کی تحریروں کا تھا۔ تیسری تفصیل اُس راہب کی تھی جو 1346ء میں اُوپر گیا اور جس نے واپس آ کر یہ کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُوپر پہاڑ پر جا کر انہیں کوئی جنت یا کوئی ماورائی چیز نظر آئے گی کیونکہ اس سے پہلے دنیا بھر میں یہی نظریہ کار فرما تھا۔ سخت غلطی پر ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد اب وہاں نہیں ہیں۔

دونوں میں سے کسی کی کلائی پر رِسٹ واچ نہیں تھی۔ سٹال پر گھڑی کی ٹِک ٹِک کچھ کہتی تھی کہ تمہارا پینڈا چوکھا بھی ہے اور کٹھن بھی۔ پوپھٹنے سے پہلے اوپر نہ پہنچیں تو سفر کھوٹا ہو جائے گا۔
بڑھاپے کے عشق اکثروبیشتر بڑے مہنگے پڑتے ہیں۔ سانس لوہار کی دھونکنی کی مانند پھولا پڑتا تھا۔ اُوپر والے سے میر ی سرگوشی بڑی رازدارانہ تھی۔
”سر میرا کلیجہ پھٹ کر سری پاڈے کے اس پہاڑ پرہر گز ہرگز بکھرنا نہیں چاہیے۔“

ہم بھی کیسے اچھے موسم میں سری لنکا آ ٹپکے تھے کہ اس چوٹی کا نظارہ اور زیارت دسمبر سے شروع ہو کر سنہالہ اور تامل کے نئے سال اپریل کے وسط تک ہی رہتی ہے۔ یہ بڑی رنگ رنگیلی مہم جوئی تھی۔ جگہ جگہ بکتی کھانے پینے کی اشیا ء۔ اعزازی رضاکاروں کے قائم کردہ فسٹ ایڈ اسٹیشن اور چائے کافی کے سٹال آپ کو چند لمحوں کے لئے توانائی اور سرشاری ولطف کا احساس ضرور دیتے ہیں۔
شب کی تاریکی اور برقی مدقوق سی روشنیوں میں اردگرد کے قدرتی نظاروں کی نوعیت واضح نہیں تھی۔ پر کہیں پھول اور اُن کے رنگ شب دیجور میں جگنوؤں کی مانند جگمگا سے جاتے۔ ٹھنڈی اور جنگل کی خوشبوؤں سے لدی پھندی ہوائیں تازگی اور فرحت کا احساس بخشتیں۔ان ہواؤں کے جھُلاروں میں ہم نے خود کو کیا ٹائم ہے؟ اور کتنا باقی ہے؟ جیسے سوالوں اور جوابوں کی پر یشانی سے آزاد کر لیا تھا کہ ساتھ چلنے والے بھی تو اسی مار دھاڑ میں لگے ہوئے تھے۔ ساتھ چلتے بوڑھوں اور جوانوں کو کم و بیش اپنی جیسی کیفیات میں مبتلا دیکھتے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہانپتے کانپتے راستہ طے ہونے لگا تھا۔

ذرا تھم اے راہرو کہ پھر مشکل مقام آیا۔۔۔۔
اور وہ مشکل مقام آ پہنچا تھا۔۔
عمودی چڑھائی کا ٹوٹا افسانوی بیانات اور رنگوں سے قطعی کم نہ تھا۔ میرا سانس اور ٹانگیں تب بھی پھولتیں اگر اس کے پیچھے تازہ خون بھی ہوتا۔ تاہم اس ٹکڑے کو ممکنہ حد تک آرام  دہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ سُرخ پتھر کی سیڑھیوں کو درمیان کی ریلنگ سے الگ کرتے ہوئے اُترنے اور چڑھنے والوں کو اطراف سے بھی سہارا فراہم کرنے کی کاوش بہترین تھی۔
کہیں بہت کشادہ اور کہیں قدرے چوڑے راستے پر کھُلے ڈھلے انداز میں چلنے والے ٹولے اب سمٹ کر ایک دوسرے کے بہت قریب ہوگئے تھے۔ یوں جیسے کوئی چوڑے پاٹ کا دریا کسی پہاڑی پیچ و خم میں آکر سکڑ جائے۔
حکومت کی مسلسل توجہ نے اسے بہت روشن اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ گزشتہ صدی کے نصف میں سفر کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اس پر چڑھنا کتنا جان جوکھوں کا کام تھا۔

صبح کاذب نے اُمید اور منزل کے قریب آنے کی نوید سنائی تھی۔ اور جب صبح صادق کا اُجالا مقد س عمارت اور اردگرد کے خوبصورت مناظر کوآشکارہ کر رہا تھا۔ ہم چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔ انسانوں کے اژدہام کے باوجود نظم وضبط کمال تھا۔ دھکم پیل نہیں تھی۔ مقدس عمارت کی طرف بڑھنے کی بجائے ہم دونوں ریلنگ کے ساتھ ایک جانب ہو کر سانسوں کی درُستگی اور سورج نے کس سمت سے برآمد ہونا ہے کا جائزہ لینے اور لوگوں کو سیڑھیوں کے پوڑوں پر ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھنے کے لئے رُک گئیں۔
صرف ہم ہی نہیں بلکہ وہ سب بھی جو پینڈا مارتے یہاں تک پہنچے تھے لوگوں کو کہنیاں مارے اور دھکے دئیے بغیر اُس قطعہ پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے جو طلوع آفتاب کے نظارے کے لئے مخصوص تھی۔
قطعہ غیر ملکیوں اور مقامی لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہر آنکھ مشرق کی جانب اُٹھی ہوئی تھی۔ سچی بات ہے یوں محسوس ہو رہا تھا۔۔جیسے مشرق کا سینہ نظروں کے تیروں سے چھلنی چھلنی ہو جائے گا۔
اس بڑے سے قطعے کے اگلے حصے کو تین ساڑھے تین فٹ اونچی اور خاصی لمبی دیوار سے محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

پھر چوٹی کے عقب میں رو پہلی تلوار کی تیز چمک دار دھار جیسے منظر نے آنکھوں کے سامنے لشکارا مارا۔ گہرا نارنجی جیسے آگ کا شعلہ پہاڑ کی پیشانی پر لپکا۔پہاڑ کا دامن دھند میں ملفوف، پیشانی نیلگوں سبزے میں لپٹی، دور اس پیشانی پر یہ آگ کا شعلہ۔ نصف سورج کی رو پہلی دھاریں چند بار مشرق کی پہنائیوں میں ڈوب ڈوب کر یوں اُبھریں جیسے آسمان کے سینے پر آنے سے قبل مقدس نشان کو تعظیم دیتی ہوں۔
اچانک جیسے محو تماشا لوگوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ تیزی سے بے شمار سروں کے رُخ مغرب کی جانب مُڑے۔ برقی انداز میں ہم نے بھی گردنوں کو گھُمایا۔
”میرے خدایا! کس قدر عجیب وغریب منظر مجسم آنکھوں کے سامنے تھا۔“
پہاڑ کا گہرا مخروطی سایہ عمودی ہو کر سر سبز زمین سے چوٹی تک پھیلا ہوا تھا۔ اورچندساعتوں کے بعد غائب بھی ہو گیا۔ میرا سانس سینے میں کہیں اٹکا ہوا تھا۔ میری حسیات اس جادوئی اظہار پر عجیب سی سنسناہٹ کا شکار تھیں۔ پھر جیسے کسی جذب کے عالم میں میں نے اوپر دیکھا۔ رعبِ حُسن سے آنسو رخساروں پر بہہ گئے اور جیسے میں نے سرگوشی میں کہا ہو۔ شعبد ہ بازیوں سے ایسے کمال کی توفیق تجھے ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فضا میں گھنٹیاں بج اُٹھیں۔ سدھو۔ سدھو۔ سدھو۔سینکڑوں زائرین کی آوازیں اپنے اُس خدا کے حضور مقدس گیت گانے لگیں۔جو تخلیق کائنات کے وقت سے ہر روز ہر صبح یہ معجزہ زمین کے باسیوں کو دکھاتا اور اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply