آپ پلگ کھینچنے میں کتنی دیر لگائیں گے؟۔ محمد احسن سمیع

سن 2011 کی بات ہے  جب ہمارے سگے چچا ڈرگ روڈ فلائی اوور کے نزدیک موٹر سائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوئے.۔ راہگیروں نے دارالصحت ہسپتال پہنچایا اور ان کی جیب میں موجود کارڈز کی مدد سے میرے والد کو فون پر اطلاع دی.۔ ہم بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے تو چچا کو نیم بے ہوشی کی حالت میں کچھ بولتے پایا مگر وہ غنودگی کے باعث محض  کچھ بے ربط الفاظ ہی بول پا رہے تھے.۔ ایمرجنسی ڈاکٹر نے سی ٹی اسکین کا مشورہ دیا مگر دارالصحت میں سی ٹی اسکین کی سہولت ہی موجود نہیں تھی سو انہیں ایمبولینس میں ڈال کر پٹیل ہسپتال پہنچے.۔  وہاں ڈاکٹر نے سرسے بلیڈنگ ہوتی دیکھ کر ایڈمٹ کرنے سے ہی انکار کردیا، سی ٹی اسکین کہاں سے ہوتا؟ پھر وہاں سے لے کر نکلے اور لیاقت نیشنل پہنچے مگر  وہاں آئی سی یو خالی نہیں تھا سو انہوں نے بھی ایڈمٹ نہیں کیا۔ اس بھاگ دوڑ میں کئی قیمتی گھنٹے ضائع ہو گئے۔ لیاقت نیشنل سے نکلے تو اس پریشانی میں تھے کہ اب کہاں جائیں؟ کیا کریں؟ چچا اب تک مکمل بے ہوش ہو کر خاموش ہوچکے تھے اور ہمارے دماغ بھی ماؤف ہو رہے تھے۔

ایسے میں ایمبولینس ڈرائیور کے مشورے پر ہل پارک ہاسپٹل چلے گئے.۔ وہاں بالآخر آئی سی یو بھی مل گیا اور سی ٹی اسکین بھی ہو گیا۔  ٹیسٹ کے دوران پتہ چلا کہ چچا کو شدید اندرونی چوٹیں آئیں ہیں اور نہ صرف کافی انٹرنل بلیڈنگ ہوچکی ہے بلکہ اندر خون جمنا بھی شروع ہوچکا ہے.۔ اب تک حادثہ ہوئے سات  گھنٹے ہو چکے تھے. ہسپتال والوں نے نیورو سرجن سے رابطہ کیا تو انہوں نے صبح سات  بجے سے پہلے آنے سے معذرت کرلی. صبح آٹھ بجے کے قریب آپریشن کیا گیا اور سر میں سے خون کا نکاس کر دیا گیا تاہم تقریباً بارہ  گھنٹے زخمی حالت میں انٹرنل بلیڈنگ ہوتے گزرنے کے سبب چچا کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا اور چچا کومے میں جا چکے تھے جو بعد میں مستقل ثابت ہوا۔

اس حادثے کے بعد تقریباً 40 روز چچا “زندہ” رہے مگر  وینٹیلیٹر پر! ہم سب کو  دس بارہ  روز میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کلینیکلی انہیں زندوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا. ۔99.99 فیصد امکان یہی تھا کہ وہ اب جانبر نہیں ہو سکیں گے مگر یہ جو 0.01 فیصد امید ہوتی ہے ناں، اس نے مزید تیس  دن ہمیں شدید تذبذب میں مبتلا رکھا. سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک معجزے کی امید ہر وقت میرے والد کو رہا کرتی اور کیسے نہ ہوتی کہ دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بھائیوں کو انہوں نے باپ بن کر پالا تھا اور اب وہی بھائی ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہا تھا۔  مجھے اب بھی ان کے چہرے کے تاثرات یاد ہیں جب انہوں نے بالآخر نو محرم کے دن شاید اپنی زندگی کا سب سے کڑا فیصلہ لیتے ہوئے وینٹ ہٹانے کی ہامی بھر لی.۔ ان کی اس ایک ہاں سے پل بھر میں چار کم سن بچے یتیمی کی آغوش میں جا رہے تھے جن میں سے ایک تو اس حادثے  سے محض دو دن قبل پیدا ہوئی تھی،اور اس بات  کا کرب ان کے چہرے سے عیاں تھا.۔ بالآخر وینٹ ہٹا اور کچھ ہی لمحات میں وہ ہوگیا جس کا اندازہ سب کو تھا مگر معجزے کی امید کے سبب یقین کوئی نہیں کرنا چاہتا تھا. انا للہ و انا الیہ راجعون.

Advertisements
julia rana solicitors london

مقصد اس واقعے کو بیان کرنے کا ان دوستوں کو کچھ شرم اور احساس دلانا ہےجو مسلسل بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے معاملے میں بنیادی انسانی اخلاقیات کا بھی لحاظ نہیں کر رہے.۔ تعلیم دیکھو تو ڈاکٹر انجینئر سے کم کوئی نہیں مگر  کیا فائدہ ان ڈگریوں کا جو ایسی جہالت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں.؟ زندگی اور موت کے درمیان اس باریک لکیر کے وزن کا اندازہ آپ کو شاید تب ہی ہو جب خدانخواستہ آپ کا کوئی اپنا قریبی عزیز اس دوراہے پر کھڑا ہو اور اس کی زندگی کا پلگ آپ کی ایک “ہاں”  سے بندھا ہو. ایسے میں آپ پلگ کھینچنے میں کتنی دیر لگائیں گے؟

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply