پیارے انکل جون مسیح

میں خود کو بہت خوش نصیب انسان سمجھتا ہوں۔ کئی نعمتیں ایسی ملیں جنہیں خود چننے پر اختیار تو نہ تھا، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ بہترین ملیں۔ مثلاً کیسے عالم میں انتخاب شہر سے تعلق ہے، کتنے شفیق اساتذہ کا سایہ ملا ، کیسے اچھے دوست بنے، اور بھی بہت سی باتیں۔
انھیں چیزوں میں ایک میرے اسکول بھی ہیں۔ دو اسکولوں میں جانا ہوا۔ پہلا کوئینز روڈ پر Y.W.C.A اور پھرکیتھیڈرل سکول، ہال روڈ۔ یہ دونوں مشنری سکول میرے لیے بن مانگی نعمتوں میں سے ہیں، جن کا شکر واجب ہے۔ Y.W.C.A میرا پہلا اسکول تھا، جہاں صرف تین سال پڑھا۔ کوئینز روڈ پر، شاہ عنایت کے مزار کے قریب، یہ سکول واقع ہے۔ا سکول کے ایک باغیچے میں YMCA کے تحت آئے غیر ملکی ٹورسٹ خیمے لگا کر رہتے تھے۔ اس سکول کے دو دروازے ہیں اور دروازوں کے بیچ میں ایک پٹرول پمپ ہے ۔ میں اندرون شہر میں رہتا تھا، اور سکول آنے جانے کے لیے تانگہ لگا ہوا تھا، جس میں میرے علاوہ باقی سارے بچے کیتھیڈرل یا سینٹ انتھونی اسکول کے تھے۔ تانگے والے بابا جی سب سے آخر میں مجھے لینے آتے۔ یعنی چھٹی کے بعد میرے پاس شرارتیں کرنے کے لیے بہت وقت ہوتا۔ گیٹ پھلانگ سکتا تھا، پٹرول پمپ کے کونے میں لگے کولر سے ٹھنڈا پانی پی سکتا تھا اور سڑک پار کھڑے نان چھولے والے کی ریہڑی بھی نظر آتی تھی۔ لیکن ان سب شرارتوں سے روکنے کے لیے گیٹ پر ایک خوفناک جن کھڑا ہوتا تھا، انکل جون مسیح!
انکل جون کم از کم چھ فٹ لمبے ہوں گے۔ مجھے یاد ہے تانگے کے ساتھ کھڑے ہوتے تو گھوڑے کے کانوں کے برابر ان کا سر آتا تھا۔ یونیفارم میں شملے والی پگڑی، سیاہ رنگت اور اگر ڈرانے میں ابھی کوئی کسر رہ گئی تھی تو جناتی مونچھیں بھی رکھی تھیں! وہی لمبی مونچھیں جو قلموں کے زریعے سر کے بالوں سے ملی ہوتی ہیں۔ رکیئے، ابھی ایک اور ٹچ باقی ہے۔ سفید مونچھوں کو مہندی سے نارنگی کیا ہوتا تھا!
لیکن یہ ڈرنے کا خاکہ شاید اجنبیوں کے لیے ہو کہ میں نے ہمیشہ انکل کو ہنستے ہی دیکھا تھا۔ شرارت نہیں کرنے دیتے تھے، گیٹ پر نہیں چڑھنا، باہر نکلنے دینے کا سوال نہیں، لیکن ہنستے مسکراتے رہتے۔ ایک دن ایسے ہی چھٹی کا وقت تھا۔ تانگے والے بابا جی ابھی نہیں آئے تھے اور میں باقی دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے میں ٹھوکر کھا کر باغیچے کے جھاڑی پر جا گرا۔ خار دار تار سے ہاتھ اور بازوچھل گئے۔ کوئی دفتر سے فرسٹ ایڈ باکس لے آیا۔ اب زخم پر دوا لگنے سے شدید جلن ہوتی تھی اور میں نے خوب واویلا مچایا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے انکل جون مجھے بار بار سمجھاتے ’ دوائی لگوا لو، معمولی سی جلن ہے۔ اچھا ایسے کرو تم زخم کی طرف دیکھو ہی نہیں، شاباش۔ ادھر میری طرف دیکھو۔ زخم کی طرف مت دیکھو۔ ‘ غرض کہ بہلا پھسلا کر میرے زخم صاف کروا دیے۔
آج انکل جون کیسے یاد آئے؟ سنا کہ ہمارے ایک ڈاکٹر بھائی نے ہمارے ایک مسیحی بھائی کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ اتنی غلیظ کہ نقل کی بھی ہمت نہیں۔ مجھے معلوم ہے اب انکل جون اس دنیا میں نہیں ہیں۔ لیکن اگر انہیں یہ خبر ملے تو کیسی تکلیف محسوس کریں۔ جو اس دنیا میں ہیں، وہ بھی کرتے ہونگے۔سو مجھے انکل جون تک اپنی بات پہنچانی ہے! انکل جون، آپ اس خبر کی طرف مت دیکھیں! آپ میری طرف دیکھیں۔آپ ہماری طرف دیکھیں۔ دیکھیں، ہم شرمندہ ہیں۔ آپ ہماری ندامت دیکھیں۔لیکن آپ اس خبر، اس تکلیف دینے والی بات کی طرف پلیز مت دیکھیں!

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پیارے انکل جون مسیح

Leave a Reply to Mussarat Adeeb Cancel reply