سیاسی کھچڑی

پانامہ کیس کے تناظر میں سارے ادارے اور سیاستدان اپنا اپنا کام چابکدستی سے سر انجام دینے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں.جے آئی ٹی والوں نے جہاں شریف سنز کو کھچ کر رکھا ہوا ہے وہیں سپریم کورٹ کے معتبر جج صاحبان کو بھی اپنی جیوڈیشل سپر میسی کا پورا پورا خیال ہے۔وہ بھی ایک آدھ انچ اس ڈر سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں کہ کہیں ان کی نیک نامی پر حرف نہ آ جائے اور اس سلسلہ میں بڑی دلچسپ اصطلاحات بھی سننے کو مل رہی ہیں۔
رہی بات سیاستدانوں کی تو الیکشن ائیر ہے اور وہ بھی اپنا اپنا کام پوری مستعدی سے سر انجام دے رہے ہیں.سیاست کے مبینہ بادشاہ زرداری صاب فی الحال دور سے تماشا کو انجوائے کر رہے ہیں.دونوں پاسے کی رسیداں کڈنے کا عمل یقینا ًزرداری صاب کے لیے اطمینان کا باعث ہے.ایم کیو ایم کو کچھ اس طرح سے الجھا دیا گیا ہے کہ اسےاپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں.اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے روایت کے عین مطابق چڑھتی کنی کو سلام کرنا ہے.ایسے میں اپنے عمران خان صاب بچتے ہیں تو ان  سے جتنا ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ شدت سے نواز اینڈ کو کی کریکٹر اساسینیشن میں مصروف ہیں۔
پانامہ کی شکل میں جو ترپ کا پتہ ان کے ہاتھ لگا ہے اس کا استعمال اس سے بڑھ کر کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا.رہی سہی کسر آئیڈلسٹک اپرووچ کو کھڈے لائن لگا کر وہ دوسری پارٹیوں کا کچرا انصافی فائونڈری سے دھلوا کر نئے مہرے ترتیب دے رہے ہیں.یہ سب چیزیں ظاہر کر رہی ہے کہ اس باری اقتدار کے حصول کی خاطر  وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں چاہے اس کوئلے کی دلالی میں ہاتھ پائوں کالے ہوتے ہیں تو کوئی گل نہیں۔
 ن لیگیوں کو بھی لگ بھگ پچھلے پینتیس سال کا سیاسی تجربہ ہے.اس تجربہ سے ان سے بہتر فائدہ کوئی اور اٹھا بھی نہیں سکتا.پانامہ کے طوفان سے الجھتے اور مخالفین کو الجھاتے بات جے آئی ٹی تک آن پہنچی تو سب سے اہم چیز لیگیوں کے نزدیک اس جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانا تھا اور وہ اس مقصد میں پورے نہیں تو آدھے کامیاب ضرور نظر آ رہے ہیں.جے آئی ٹی ممبران پر اعتراض کے بعد واٹس ایپ معاملہ سامنے آنے کے بعد ان کے بنیادی اہداف لگ بھگ پورےہو چکے ہیں.وہ ایک قسم کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیے کہ ان کے ساتھ کوئی ایکسٹرا قسم کی چھان بین ہو رہی ہے اور انہیں کسی انتقام وغیرہ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے. اب جے آئی ٹی کا فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے یا مخالفت میں وہ پوری سیاسی شہادت حاصل کریں نہ کریں آدھی سیاسی شہادت انہیں ملے ہی ملے گی اور اتنے بڑے طوفان سے آدھی سیاسی شہادت کا مل جانا بھی غنیمت ہی ہو گا.ہو سکتا ہے اس آدھی سیاسی شہادت کی بنیاد پر وہ اگلے الیکشن میں کم از کم پنجاب کو ہی سیکیور کر جائیں.ویسے بھی پنجاب کا شمار آدھے سے زیادہ پاکستان میں کیا جاتا ہے۔
المختصرسب کو اپنی اپنی بقا کی پڑی ہوئی ہے بجٹ آتا ہے اس پر بحث و تنقید برائے نام ہی سامنے آتی ہے ،کیونکہ سب کو پانامہ کا بخار چڑھا ہوا ہے۔حکمرانوں سے مایوس ہو کرماہ صیام کی مہنگائی کا حل عوام نے خود ہی فروٹ بائیکاٹ کی شکل میں نکالنا شروع کر دیا ہے۔اس بائیکاٹ کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے ایک چیز صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ عوام کا حکمرانوں پر سے یقین اٹھ گیا ہے۔وہ خود اپنے مسائل حل کرنا چاہ رہے ہیں.کرپٹ لیڈر شپ سے چھٹکارا بھی اس قوم کا اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کا حل بھی عوام کو خود ہی نکالنا ہو گا۔اگلےالیکشن میں ووٹ کی طاقت سے صحیح نمائندوں کا چنائو کرنا ہو گا۔موجودہ صورتحال میں جو کھچڑی پکی ہوئی ہے اس میں صحیح نمائندوں کا انتخاب بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہو گا۔دیکھتے ہیں عوام اس جوئےشیر لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

Facebook Comments

سرفراز قمر
زندگی تو ہی بتا کتنا سفر باقی ہے.............

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply