پکوڑا بائیکاٹ مہم

T
پکوڑا بائیکاٹ مہم۔۔۔ یدبیضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما قادر بادشاہ آدمی ہیں۔ انتہا درجے تک غریب پرور انسان ہیں۔ آپ کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہوں، کوئی مانگنے والا آجائے تو ماما اسے ساتھ بٹھا کر اس کے لئے وہی آرڈر دیں گے جو ہم خود کھا رہے ہوں۔ ایک دو بار دوستوں نے ماما سے شکایت کہ ماما آپ ایسا نہ کیا کریں۔ ماما نے کہا، بھائی بات یہ کہ اگر ہمارا جیب دس بندوں کے کھانے کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے تو گیارہ بندوں کے کھانے کا بوجھ بھی برداشت کر سکتا۔
ایک بار ہم آٹھ دوستوں کا پورا پاکستان گھومنے کا پلان بن گیا۔ سب تیاری مکمل ہو گئی۔ بورڈنگ، فیول، کھانے وغیرہ کے لئے ابتدائی طور پر بیس ہزار فی کس کے حساب سے پیسے جمع ہو گئے۔ روایت کے برخلاف ماما نے کہا اس بار خزانچی کے فرائض ہم انجام دے گا۔ پروگرام سے دو دن پہلے سب پیسے جمع کروا دو۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ہم نے پیسے ماما کو دے دئیے۔ سفر شروع ہونے کی رات تک سب نارمل تھا۔ جس صبح نکلنا تھا اسی رات ماما نے سب کو فون کیا کہ کل نہیں نکل سکتے مجھے ایک ایمرجنسی درپیش آ گئی ہے۔ ماما نے ایمرجنسی بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ صبح دس بجے ملاقات میں تفصیل بتاوں گا۔
خدا خدا کر کے صبح دس بج گئے۔ سارے دوست ماما کا انتظار کر رہے تھے۔ دیکھا تو ماما خراماں خراماں ہشاش بشاش چلے آ رہے تھے۔ جونہی ماما بیٹھ گئے، سب نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ماما نے ہوٹل والے کو آواز دی۔ ہلکہ درے چائنکی چائے راوڑہ۔ جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی۔ اور آرام سے گویا ہوئے۔
یارانو! تم لوگوں نے جنت کما لیا۔
یا اللہ خیر۔ سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ سب کو اندازہ ہو چکا تھا کہ ماما کوئی کھانڈ کر کے آیا ہے۔ اب کچھ ممکن نہیں تھا۔ بہرحال بات تو جاننی تھی۔ پوچھا ماما کیا کر آئے ہو پھر؟
ماما بولے۔ یارا تم لوگوں میں کس نے پشاور، کراچی یا لاہور نہیں دیکھا؟
سلیم غصے میں چلایا۔ میں نے نہیں دیکھے۔
ماما نے ایک آنکھ بند کر کے سلیم کو دیکھا، پھر بولے۔ کوئٹہ دیکھا ہے ناں؟ باقی شہر بھی ایسا ہی ہے۔ اور نہیں بھی دیکھو تو کیا فرق پڑتا ہے۔
ہم نے پوچھا، ماما پہلیاں چھوڑو۔ صاف بتاو کہانی کیا ہے؟
ماما نے کہا۔ یارا اپنا قدوس( فرضی نام) ہے نا۔ اس کا بیٹی کا دو سال پہلے منگنی ہوا تھا۔ سسرال والا بھی غریب مسکین لوگ ہے۔ قدوس خود درپدر ہے۔ بیٹی پتہ نہیں کب تک باپ کے گھر بیٹھی رہتی۔ کل ہم قدوس کے پاس گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ رکھا اور اس کو بولا کہ دولہا والوں کو خبر کر دو کہ ہم نے سامان کا بندوبست کر لیا۔ تم لوگ دس دن بعد آکر دلہن لے جانا۔ یارا تم سب نے جنت کما لیا۔ پاکستان تو ہم اگلا سال بھی دیکھ سکتا ہے۔
سب خاموش رہے۔ کہنے کو گویا کچھ نہیں تھا۔
ماما کو فضول خرچی سے سخت نفرت ہے۔ ماما رمضان میں اچار، پیپسی، پکوڑے، سموسے، بھلے، پوری، کچوری کچھ نہیں لیتے۔ کہتے ہیں ایک تو یہ زہر ہے اوپر سے غیر ضروری چیز ہے۔ ہم ہر رمضان پکوڑوں، سموں اور الا بلا کا حساب لگا کر وہ پیسے بھی فدیہ کے پیسوں میں جمع کر لیتا ہے اور خیرات کر دیتا ہے۔
ماما کی اس اسکیم سے ایک تجویز ذہن میں آ رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ فروٹ بائیکاٹ مہم میں صرف غریب طبقہ ہی پسنے والا ہے۔ اس کے لئے لمبی بحثیں اور اکنامکس کے اصول، ڈیمانڈ اور سپلائی کی چین وغیرہ پر کیا بحث کریں۔ آئیے ماما قادر کی طرح سموسوں، پکوڑوں، اچار، چٹنیوں، پیپسیوں کچوریوں، بوندیوں، جلیبیوں اور اس نوع کی دیگر اجناس کو چھوڑ کر اس کا بجٹ فدیہ کے ساتھ غریبوں کے لئے وقف کر دیں۔ وقف نہ بھی کریں تو کم سے کم بھی یہ بجٹ پورے مہینے کی پانچ/ دس ہزار تو بن ہی جاتی ہے۔ ان اشیاء کے استعمال نہ کرنے سے کسی چھابڑی والے نقصان کا اندیشہ بھی بہت کم ہے۔ یہ اشیاء عموما ایک ماہ کے لئے بیکریوں اور جنرل سٹوروں والے خود باہر تھڑے لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ ان کے نہ کھانے سے ایک تو صحت کی بچت ہے اور پھر کسی غریب کی مدد بھی ہو جائے گی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply