چراغ تلے کا چراغ بجُھ گیا۔۔۔ بلبیر سنگھ

ہم گنواں بیٹھے اک انمول ہیرا
جس کا فن تھا محض لبوں کو کھِلکھلانا

چند ماہ قبل جب میری گیارہویں جماعت کا نصاب اپنے اختتام پر تھا۔تو ان کی کتاب “چراغ تلے”کا ایک انشائیہ “اور آنا گھر میں مرغیوں کا”پڑھا تو لبوں پہ مسکراہٹ رکنے کا نام نہ لے۔لیکن جب کلاس کی استانی صاحبہ نے بتایا کہ احمد مشتاق یوسفی صاحب حیات ہیں تو فوراً ٹھان لیا کہ پیپرز کے اختتام پر   مشتاق یوسفی صاحب سے ملنے جاؤں گا۔
میرا گھومنے اور چند اہم لوگوں سے ملنے کا ٹور دو روز بعد شروع ہونے والا تھا۔لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ چراغ تلے کا خالق اپنے خالق  حقیقی سےجا ملے گا۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب 4 ستمبر 1923ء کو بھارت کی ریاست راجھستان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے تھے۔آپ نے آگرہ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ فلسفے میں ایم۔اے اور پھر اس کے بعد ایل۔ایل۔بی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیا۔1946ء میں راجپوتانہ سول سروس میں ملازم ہوئے۔1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد آپ نے 1949ء میں کراچی کا رخ کیا اور مسلم کمرشل بینک میں منیجر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں اور ہمیشہ کی طرح ترقی کرتے ہوئے پاکستان بینکنگ کونسل کے چئیر مین بنے۔آپ نے اپنا باقاعدہ مضمون 1955ء میں”صنفِ لاغر” کے نام سے لکھا اور اس وقت کے مشہور رسالہ “سویرا” کو  اشاعت  کے لیے بھیجا۔1979ء سے 1990ء تک غیر ملکی بنک بی سی سی آئی(BCCI) کے مشیر کی  حیثیت سے لندن میں مقیم رہے۔آپ کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے 1999ء میں ستارہ امتیاز اور 2002ء میں ہلال امتیاز کے تغموں سے نوازا۔
آپ ایک درخشندہ ستارہ،ایک مشہور و معروف ادیب اور طنز و مزاح کے حقیقی بادشاہ تھے۔آپ نے پانچ نامور کتب لکھیں۔
جن میں۔۔۔
چارغ تلے (1961ء)
خاکم بدہن (1969ء)
زرگزشت (1976ء)
آبِ گم (1990ء)
شام شعرِ یاراں (2014ء) شامل ہیں۔

آپ کے نام کا اگر اصطلاحی معنی دیکھا جائے تو محض ہنسی یا پھر لبوں کا رقص ہی نکلے گا۔اگر عصر حاضر کو دورِ یوسفی کہا جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہوگی۔ کیوں کہ آپ نے ادب کو طنز و مزاح کی ایک ایسی سمت دی کہ جو ممکن ہے آگے جاکر ہمیں نہ مل پائے گی۔آپ کی نثر میں یہ خوبی تھی کہ وہ براہِ راست ہمارے دلوں اور احساسات کو گدگداتی رہتی اور ہمیں خوشیوں کے احساس سے دوچار کرتی.یوسفی صاحب کے لئے ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے کیا خوب کہا ہے کہ “ہم مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

یوسفی صاحب کے قلم میں ایک ایسا جادو تھا۔جو افسردگی سے روشناس لبوں کو ہنسا دیتا اور کانٹوں سے بھی کسی کو گداگدا دیتا۔آپ کا قلم تہذیب و ثقافت سے بھر پور تحریر لکھتا۔ ہمیشہ مسکراہٹ اور مسرت بھرے احساسات بکھیرنے والا یہ شخص ہمیں پہلی اور آخری بار رلا کے چلا گیا۔بروز بدھ 20جون 2018ء طویل عرصے کی علالت کے بعد آپ 94 سال کی عمر میں بوجہ نمونیہ  رخصت ہو چکے۔آپ کے جدا ہونے سے اردو ادب کا ایک اور ستون گر پڑا ہے،طنز و مزاح کا طویل ترین  باب ختم ہو چکا ہے،ایک عظیم عہد یا پھر عہد یوسفی ختم ہو چکا ہے۔
صد افسوس کہ چراغ تلے کا چراغ بجھ چکا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چراغ تلے کا چراغ بجُھ گیا۔۔۔ بلبیر سنگھ

  1. بالبیرسنگھ صاحب اچھا مضمون لکھا ہے اگر مزید کچھ مشتاق احمد یوسفی کے کام کے بارے میں لکھتے تو اور بہتر ہوتا لیکن آپ نے اچھی کوشش کی ۔ ۔

Leave a Reply