اپنی ذات کا محاسبہ
افتخار احمدانور
دین اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔یہ فطرت انسانی کی ایک قریب ترین شکل ہے۔جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں سے دین اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں توازن ہے۔اس مذہب کو ایک آسمانی نوشتہ قرآن مجید سے بھی نوازا گیا جو کہ مکمل ضابطہ حیات رکھتی ہے۔زندگی کا کوئی ایک بھی پہلو اس سے مخفی نہیں ،ہر معاملہ عیاں ملے گا۔لیکن بصیرت چاہئے ہوگی اس کو سمجھنے اور پرکھنے کے لئے۔
ہر ایک کام کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔بعض احکامات ایک وقت کے لئے جاری ہوتے ہیں اور دوسرے کسی مقام پہ وہ احکامات کسی اور رنگ میں بجالانے ضروری ہوتے ہیں۔جہاد بالسیف،جہاد باالقلم اور جہاد بالنفس ،یہ بڑے عظیم المرتبت جہادہیں جن کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔
جہاد باالنفس! کی اس وقت انتہائی ضرورت ہے۔ انسانیت کو اس کی عدم موجودگی کی صورت میں بعض ہولناک واقعات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک معرکے سے واپس تشریف لارہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ اب ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف جارہے ہیں۔یعنی جہاد بالنفس!
ہم لوگ اپنے نفسی جذبات کی رو میں اتنی تیز رفتاری سے آگے کی سمت دوڑ رہے ہیں کہ ہماری زد میں آنے والا ہر کس و ناکس ’’رگڑا‘‘جا رہا ہے اور ہمیں احساس تک نہیں کہ اصل حالات و واقعات کیا ہیں۔
جو باتیں ہمیں ٹھیک معلوم ہوتی ہیں وہی ہم دوسروں پر تھوپ دینا چاہتے ہیں تاکہ ہمارا ’’نام نہاد نفس‘‘ تسکین پا سکے اور ہم سرخرو ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوں۔
یہی وجہ ہے معاشرہ ناہمواری کا نمونہ پیش کررہا ہے !
محاسبہء نفس اگر ٹھیک طرح سے کیا جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور پھر سوچیں کہ کیا میں اپنے آپ کو اس پیمانے کے مطابق پاتا ہوں جو مذہب اسلام، ہم سے تقاضا کر رہا ہے تو یقین جانئے سب ٹھیک ہو جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں