ہنسنے اور بھول جانے والی کہانی

اکثر جب آپ کے امتحانات ختم ہو گئے ہوں اور آپ گھر جانے کے خیال سے ٹرین کی ٹکٹ کروا چکے ہوں تب آپ کے نزدیک سب سے اہم کام ریلوے اسٹیشن تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال تب اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب آپ پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ اپنا سامان باندھ چکے ہیں اور پھر سے لائبریری جاتے ہیں۔ لیکن آپ کے دماغ میں کسی کتاب کا خاکہ نہیں ہے۔ آپ کے نزدیک سب کتابیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں، سوائے ان کے سائز کے۔ آپ میلان کنڈیرا کا ناول اٹھاتے ہیں جو اس کے نام کی طرح ہی دلچسپ ہے، اور اس کا سرورق ان دونوں سے زیادہ عجیب۔ آپ ٹرین میں ہی اسے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس کے نام اور پلاٹ میں خاصہ فرق ہے۔ آپ کو نہ تو ہنسی آتی ہے نہ آپ اسے بھولنا چاہتے ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے آپ اسے یاد بھی نہیں رکھ سکتے۔ آپ اسے بند کرتے ہیں، موبائل نکالتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس کو پڑھنے کیلئے جتنا وقت لگا، اتنا آپ کی زندگی سے نہ کاٹا جائے

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply