حاجی صاحب

کافی دیر ہوگئی یہ دونوں کہاں رہ گئے.
ہوسکتا ہے پڑوس میں کسی نئے مکین سے ملنے گئے ہوں.
پر ابھی تک تو انہیں آجانا چاھیے تھا اور میرا نہر کے قریب والا بنگلا وللہ نجانے کیسا ہوگا ابھی جاؤں گا تو دیکھوں گا اور میری نئی نویلی بیگم، اف وہ بھی تو میرے انتظار میں پاگل ہو رہی ہوگی..
خیر میرے آنے کا تو انہیں معلوم ہی ہوگا کوئی معمولی شخصیت تو ہوں نہیں جسے یہ دونوں انتظار کروا رہے ہیں.
بولٹن بازار کا سیٹھ ہوں آخر کو..
ابھی پچھلے ہی دنوں ڈیفنس کی سب سے بڑی کوٹھی خریدی ہے اور تو اور کئی برس سے لاہور کی جوتا مارکیٹ پر مونوپلی چل رہی ہے ہماری۔
ایویں ہلکا لے لیا ان دونوں نے پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں مجھے ابھی آئیں تو لیتا ہوں انکی کلاس..
ویسے انہیں کیا معلوم میری اوقات کا ارے میں نے دبئی میں اس وقت دھندا جمایا جس وقت کوئی دبئی کو پوچھتا بھی نہیں تھا سارے لوگ بھاگے بھاگے ملائیشیا کو جاتے تھے آج دبئی میں طوطی بولتا ہے میرا…..!
عرب بھی نظریں نیچی کرکے بات کرتے ہیں مجھ سے اور یہ دونوں اتنی دیر لگا رہے ہیں..

وقت دیکھنے کیلیے بے دھیانی میں حاجی صاحب نے کلائی کو یوں دیکھا جیسے اس پر انکی رولیکس کی مہنگی ترین گھڑی بندھی ہوگی اور گھڑی نہ ملنے کی صورت میں ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے خود ہی خود منہ میں کچھ بڑبڑانے لگ گئے..
خدا جانے کیا ٹائم ہوگا…!
مجھے یہاں آئے دو تین گھنٹے سے تو اوپر ہو ہی گئے ہوں گے اور یہ دونوں ادِھر اُدھر گھومنے میں لگے ہوئے ہیں بس بھائی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے.
اب انہیں کون سمجھائے کے میاں یہ کوئی عام آدمی نہیں ہے یہ حاجی عبدالقدوس ہے عبدالقدوس جو جب چاہے پورے ملک میں سریا مہنگا کر سکتا ہے جو جب چاھے سیمنٹ کے بھاؤ بڑھا دے بھلا مجھ سے کون پوچھنے والا ہے.
ارے چار سال پہلے یہ ہی ہوا تھا کہ ایک حکومتی پارٹی کے منسٹر نے اپنا پی اے بھیج کے بھتہ مانگ لیا تھا..
یعٰنی بھتہ وہ بھی حاجی عبدالقدوس سے اگلے ہی دن اپنے یار دوستوں کے ساتھ مل کر اسٹاک مارکیٹ کے وہ شئیر گرائے کے وزیر خزانہ مجبور ہوگیا اور بھاگتا ہوا آیا اور پاؤں پکڑے اس نے میرے پاؤں..!
ارے حاجی عبدالقدوس نام ہے میرا ابھی سیمنٹ کے بورے پر دس روپے بڑھا دوں تو حکومت کی چیخیں نکل جائیں گی اور یہ دونوں مجھے انتظار کروا رہے ہیں..
کہاں گیا میرا موبائل ابھی بڑے لڑکے کو لگاتا ہوں فون اور کہتا ہوں کہ ریٹ بڑھا دے دوائیوں کا پھر دیکھیو مزا…..!
کہاں گیا موبائل… اوہ…
کچھ سوچتے ہوئے پھر منہ بسور کے بیٹھ گئے.. نا گھڑی نا موبائل…
چلو حاجی صاحب یہ دونوں خدا جانے کب تلک آئیں گے تم ذرا کمر سیدھی کر لو..
یہ آئیں گے تو دیکھا جائے گا…
اور پھر حاجی صاحب کے غضبناک خراٹوں نے سکوت زدہ ماحول کی ایسی تیسی کردی.
اٹھو مسٹر.
اٹھو…
اوئے اٹھ…
اٹھ اوئے…
ایک لات….
پھر دوسری پھر تیسری..
مگر حاجی صاحب کہاں اٹھنے والے تھے دونوں مہمانوں میں سے ایک نے حاجی صاحب کی انگلی کو پکڑ کر ذرا دبایا کے حاجی عبدالقدوس چیخ مار کر اٹھ بیٹھے.
ابے کون ہے بے کس کی اتنی جرات کے حاجی عبدالقدوس کو انگلی کر رہا ہے.
ایک زناٹے دار تھپڑ آیا اور حاجی صاحب زمین پر چت لیٹ گئے.
بڑی مشکل سے آنکھوں میں آنسو لئے گال سہلاتے اٹھے اور روتے ہوئے کہنے لگے.
اما شرم نہیں آتی اپنی عمر دیکھو اور میری.
بیس حج کیے ہیں اور ہر سال عمرہ کرتا ہوں اب تو یاد بھی نہیں کہ کتنے عمرے کر چکا ہوں.
ہر جمعہ اللہ کے گھر جاکر ادا کرتا ہوں میری سفید داڑھی کا ہی کچھ خیال کیا ہوتا اور پھر حاجی صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے.

چپ کر ڈرامے……!
ہاتھ نیچے کر اور سوالوں کے جواب دے.
حاجی صاحب تھے کہ رونا ہی بند نہیں ہورہا تھا. مہمانوں میں سے ایک نے دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے آگے بڑھا اور حاجی صاحب کے چہرے پر ایک اور جھاپڑ رسید کیا اور کہا ابے ڈرامے اب رویا نا تو الٹالٹکا کے آج سے ہی تیری سزا کا آغاز کر دیں گے.
سیدھی طرح سے یہ چند سوالات ہیں ان کے جوابات دے.
حاجی صاحب سزا کا سن کر کونے میں دبک کر بیٹھ گئے.
ان کے سامنے چند کاغذات رکھے گئے جن پر سوالات لکھے تھے.
چلو جلدی جلدی سوالات کے جوابات بلند آواز سے دو یہاں سب کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے.

پہلا سوال: نام ؟
حاجی عبدالقدوس
جتنا لکھا ہے اتنا بولو حاجی واجی دوبارہ کہا تو……
جی جی سمجھ گیا مائی باپ
دوسرا سوال: مذھب؟
جواب: اسلام
سوال: کہاں پیدا ہوئے تھے؟
جواب: گجرات میں اور پھر ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہائے کیا دن یاد دلا دیئے صاحب پتہ ہے پوری ٹرین کٹ گئی تھی اور ہم لٹے پٹے لاہور پہنچے.
ایک زور دار تھپڑ… اور پھر سناٹا..
تجھے کہا نہ جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دے.
عبدالقدوس: جی صاحب غلطی ہوگئی
سوال: اتنی دولت کیسے بنائی؟
جواب: (حاجی صاحب کچھ سوچتے ہوئے کہ انہیں تو سب کچھ سچ سچ پتہ ہی ہے اگر جھوٹ بولا تو پھر مار پڑے گی)
آواز آئی.. جلدی بتاؤ ہمارے پاس وقت نہیں.
جی وہ کیا ہے کہ میں نے زندگی بھر کافی محنت مزدوری کی ہے سامان اٹھانے کے لیے بولٹن میں گدھا گاڑی تک چلائی پھر اللہ نے دن پھیر دیئے اور آج آپ کے سامنے ہوں.
ایک مہمان آگے بڑھا ہی تھا کہ حاجی صاحب چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر فر فر شروع ہوگئے.
بھائیوں کیا بتاؤں آپ کو تو سارا ہی علم ہے میں جس سیٹھ کے پاس کام کیا کرتا تھا وہ مجھ پر اعتماد کرنے لگا تھا پھر آہستہ آہستہ اس نے پیسوں والی پیٹی میرے حوالے کر دی پھر کیا تھا میں نے آہستہ آہستہ روپے مارنا شروع کردیئے سیٹھ کو میری چالاکی کا کبھی علم ہی نہ ہوا اور یوں میں نے کافی روپیہ جمع کرلیا. پھر ایک روز سیٹھ نے مجھے ایک پارٹی کو پیسے دینے کے لیے بھیجا. میں نے موقع غنیمت جانا اور وہ پیسے سیدھا گھر لاکر چھپا دیئے اور اپنی قمیض پھاڑ کر روتا پیٹتا سیٹھ کے پاس جا پہنچا اور اسے کہا کے راستے میں کچھ لوگوں نے مجھے مارا پیٹا اور روپیہ بھی چھین لیا اور دھمکی دی ہے کہ اگر پولیس کو اطلاع دی تو تیرے سیٹھ کو مار دیں گے بہت سادگی کا زمانہ تھا اوپر سے سیٹھ چونکہ بہت ڈرپوک تھا اس لیے اس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی اور مجھے بھی منع کر دیا کہ پولیس کو نہ بتاؤں. یوں کچھ ہی سال میں چوری کرتے کرتے میرے پاس کافی دولت جمع ہوگئی اور میں نے اسی مارکیٹ میں سیٹھ کے سامنے اپنی دکان ڈال لی اور پھر دھندے میں چور بازاری شروع کر دی ناپ تول میں بہت ڈنڈی مارتا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں ذخیرہ اندوزی کے کام میں اتر گیا. کاروبار میں بےایمانی اور ہاتھ کی صفائی کے وہ جوہر دکھائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے آدھا جوہر ٹاؤن خرید ڈالا (یہ کہتے وقت حاجی سب کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی ) بس پھر کیا تھا کاروبار کو پورے ملک میں پھیلا دیا اپنے لڑکوں سمیت بھائیوں کو بھی اس دھندے میں اتار دیا اور سب کو دھندا کرنے کے خفیہ گر سکھا ڈالے اور دیکھتے ہی دیکھتے ماشاءاللہ سے کاروبار پھلتا پھولتا گیا۔ لیاقت آباد سے پہلے گلشن شفٹ ہوا پھر وہاں سے سیدھا ڈیفنس اور پھر ڈیفنس کے بھی مہنگے ترین ایریا میں کوٹھی ڈال لی. دونوں مہمان ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے.

اگلے سوال کا جواب دو.
سوال: کاروبار میں ترقی کے لیے جو راہ استعمال کی کیا وہ جائز تھی.؟
جواب: بھائیو..! دھندا کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اگر میں یہ سب نہ کرتا تو آج بھی سیٹھ کے بچوں کا ملازم ہوتا بلکہ میری اولاد تک اسکی ملازم ہوتی.
اب اگر شریعت کی بات کریں تو بھائی ہاں میں نے کیا غلط سیدھی سی بات ہے آپ لوگوں سے بھلا کیا چھپا ہوا ہے جو میں آج یہاں جھوٹ بول کر بچ جاؤں گا.
سوال: مساجد کے نام پر شہر کے مختلف علاقوں میں زمین پر قبضے بھی کیئے ؟
جواب: وہ کیا ہے نہ کہ اپنی برادری کا بھی بھلا سوچنا ہوتا ہے اور میں نے خدا کی قسم فلاحی کاموں میں زمین کو استعمال کیا ہے
ایک زناٹے دار تھپڑ کی گونج…
تو نے مسجد کے نام پر زمین پر قبضہ کیا یا نہیں.. جواب دے۔۔۔( ایک مہمان چلایا )
حاجی صاحب نم آنکھوں کیساتھ گال سہلاتے ہوئے بولے جی یہ بالکل سچ ہے میں نے اپنی جماعت کے ساتھ ملکر مساجد کے نام پر قبضے کیئے.
سوال: رمضان میں فطرانے اور فلاحی کاموں کے نام پر زکٰوت و صدقات اور قربانی کی کھالیں جمع کی ؟
حاجی صاحب : جی وہ کیا ہے کہ….
مہمانوں میں سے جوں ہی ایک آگے بڑھا ہی تھا کہ حاجی صاحب دیوار سے چپک گئے اور چیخ کر کہا جی جی چالیس سال تک یہ دھندا کیا خوب بیوقوف بنایا عوام کو انکے پیسے سے اپنا کاروبار چلایا دبئی اور ملائیشیا میں لڑکوں کو ہوٹل انڈسٹری لگا کر دی.
سوال: کوئی نیک کام کیا ہو وہ یاد کر کے بتاؤ.
جواب: جی ہاں کئی نیک کام کئے ہیں میں نے وہ کیا ہے کہ حافظہ تھوڑا کمزور ہے ابھی جو یاد آرہا ہے وہ بتلائے دیتا ہوں کوئی تین چار سال پہلے۔۔ میرے آفس میں ایک چوکیدار کام کرتا ہے بھلا سا نام ہے اسکا ہاں یاد آیا اسحاق.. وہ اپنی لڑکی کی شادی کے لیے کافی پریشان تھا یہ تو آپکو معلوم ہی ہے کہ خاندانی رشتے ملتے کہاں ہیں…. ایک مہمان کا ہاتھ جوں ہی فضا میں بلند ہوا حاجی صاحب بول پڑے… میں نے اس کی لڑکی سے نکاح کر کے نیکی کا کام کیا اور میں نے اس لڑکی کو فلیٹ لے کر دیا اور اس کے باپ کے اوپر میرا واجب الادا جتنا بھی قرض تھا وہ میں نے اللہ کی راہ میں معاف کر دیا.
دونوں مہمان ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جیسے وہ بات کی گہرائی کو سمجھ چکے ہوں…

سوال: کوئی ایسا نیک کام بتاؤ جس سے سماج میں بھلائی اور نیکی کا پیغام گیا ہو؟
جواب: ہیں سماجی بھلائی…؟ کیا فرما رہے ہیں یہ کیا ہوتا ہے میں نے تو ساری زندگی دو جمع دو چار کئے ہیں.
سوال: کتنی شادیاں کی ہیں.؟
جواب: اسحاق کی لڑکی کو ملا کر (سوچتے ہوئے ) ٹوٹل چھ شادیاں.
سوال: اولاد کی تربیت کیسی کی؟
جواب: ماشاءاللہ سے چار لڑکوں اور تین لڑکیوں کی اولاد ہے ساری اولاد پانچ وقت نمازی ہے بلکہ چھوٹے دونوں لڑکے تو حافظ اور مفتی ہیں اور ہماری ہی جماعت کے اہم عہدوں پر بھی ہیں اور مذھبی فلاحی جتنے بھی کام ہیں وہ یہ ہی دونوں سنبھالتے ہیں…..
(یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب کی نظریں زمین میں گڑ سی گئیں… )
سوال: دواؤں کے کاروبار میں آتے ہی تم نے قیمتوں کے نرخ میں اضافے کے ساتھ ساتھ نقلی دوائیں بھی سپلائی کیں کیا یہ درست ہے؟
جواب: (شرمندہ ہوتے ہوئے) آپ مائی باپ ہیں آپ سے کچھ نہیں چھپا مگر میری سپلائی کی ہوئی دوا سے ایک بھی موت نہیں ہوئی تھی یہ مجھ پر الزام ہے اور جو کیس ہوا تھا مجھ پر وہ بھی جھوٹا ثابت ہوا جج صاحب نے مجھے باعزت بری کیا بلکہ جج صاحب کا رقعہ ہے میرے پاس..
سوال: سیاست میں آکر تم نے اپنے ہی ہم پلہ کاروباری لوگوں سے بھتہ خوری کی اور مذھب کے نام پر کئی بےگناہ انسان قتل کروائے..؟
جواب: بھئی سیاست نام ہی طاقت کا ہے.
…تڑاخ….
(اس تھپڑ سے حاجی صاحب کافی دیر تک زمین پر پڑے رہے)
جب کچھ ہوش آیا تو چلانے لگے..
سلمٰی کی ماں اری او نجمہ کی ماں..
کہاں مر گئے سب کے سب ارے مجھے اس قبر میں ڈال کر کہاں مر گئے تم لوگ..
ارے کھولو اس قبر کو میں زندہ ہوں مرا نہیں ہوں مجھ زندہ کو دفنا کر کہاں جلدی جلدی بھاگ گئے..
ارے جلدی سے مجھے باہر نکالو یہ قبر کے فرشتے مجھے مار ڈالیں گے ایک ایک روپے پیسے کا حساب مانگ رہے ہیں..!
ارے میں نے تم لوگوں کے لیے ہی تو کمایا تھا.
ارے یعقوب کہاں مرگیا..
تُو تو مفتی ہے کچھ کر میرا ۔۔ مجھے بچا لے ان سے مجھے نکال قبر سے میں زندہ ہوں.
چِلاؤ مت… تم مر چکے ہو… اس قبر کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اسکا اندازہ تمھیں اس وقت بھی تھا جب تم زندہ تھے.
( قبر میں آئے فرشتوں میں سے ایک نے ہاتھ میں پکڑا رجسٹر بند کرتے ہوئے کہا )
مگر.. مگر میں نے کئی عمرے کیئے ہیں اور حج بھی…
(حاجی صاحب ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے رونے لگے)
وہ سب تم نے اپنے ذاتی مفادات، مذھبی و سیاسی قتل، کاروبار میں ناجائز منافع خوری جیسے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور دنیاداری کے لئے کیئے…
تم نے مذھب کو اپنے کالے کرتوتوں کے لیے ایک ڈھال بنائے رکھا مگر اب تم یہاں سے بچ کے کہاں جاؤ گے..؟
یہاں اس قبر میں قیامت تک تمھیں اپنے ایک ایک گناہ کا حساب دینا ہوگا یہاں تمھاری مدد کے لیے کوئی نہیں آسکتا.
(فرشتوں نے یک زباں ہوکر کہا)

Advertisements
julia rana solicitors london

قبر میں ایک جانب کھڑکی سی کھلتی ہے…
حاجی صاحب کھڑکی میں جھانک کر دوسری جانب دیکھتے ہیں وہاں انکی طرح کے کئی حاجی صاحبان جن میں سے اکثر کو تو وہ بذاتِ خود جانتے بھی تھے وہ سب کے سب آگ کے شعلوں کی گرفت میں تھے.
وہ سب حاجی عبدالقدوس کو دیکھ کر مدد کے لیے پکارنے لگے.
مگر حاجی صاحب تو بیچارے خود ہی انکی طرح سے آج بےیارو مدد گار تھے.
اچانک پیچھے سے ایک دھکا لگتا ہے اور عبدالقدوس چیختے چلاتے آگ کے اُبلتے الاؤ میں جا گرتے ہیں.

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”حاجی صاحب

  1. مانی بھائی کی بات سے متفق ہوں ،،لکھتے تو تم اچھا ہو ہی ۔۔ماشاللہ لیکن منظر نگاری پے توجہ اس کو اور بھی بہتریں بنا سکتی ہے ۔۔

Leave a Reply to alia Cancel reply