کالا باغ ڈیم،ڈو اور ڈائی۔۔۔۔صبور ملک

میرے والد صاحب 50کے عشرے میں ماڑی انڈس کے علاقے میں محکمہ ڈاک میں ملازمت کے سلسلے میں تعینات رہے ہیں،وہ بتایا کرتے تھے کہ 1951کے لگ بھگ کالا باغ کے مقام پر تعمیرات شروع ہو چکی تھیں،اور ڈیم کا کام زرووشور سے جاری تھا،اس ڈیم کا ایک تاریخی پس منظر ہے،اسکی تعمیر کا حکم قیام پاکستان کے فوری بعد بانی پاکستان قائد اعظم نے متعلقہ محکمہ کو دیا،لیکن آپ کی ناگہانی وفات کے بعد اس کا کام بند کر دیا گیا جو دوبارہ 1953میں شروع ہوا،

اس سے پہلے کہ میں اس ڈیم کے فوائد پر کچھ کہوں،مناسب ہو گا کہ تھوڑا تاریخ کا مطالعہ کر لیا جائے،ہمارے ہاں جو قائد اعظم کا کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے والی بات کی جاتی ہے وہ اسی لئے کہ ہمارے ملک میں بہنے والے سارے دریا کشمیر سے ہی نکلتے ہیں،اسی لئے جب خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی نے بھی قائد اعظم کی تائید میں اس بات پر زور دیا کہ کشمیر ہمارے لئے رگ جاں ہے کیونکہ قائداعظم اور مشرقی کی دوررس دیدہ بینا نے اس امر کوبخوبی بھانپ لیا تھا کہ مسقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا شکار ہو نا پڑے گا۔لہذاا سی تناظر میں ہر دو نے کشمیر کو پاکستان کے لئے لاز م وملزوم قرار دیا تھا،لیکن افسوس بانی پاکستان رحلت فرما گئے اور مشرقی کو پاگل قرار دے کر میانوالی جیل میں ڈال دیا گیا،کالا باغ ڈیم یونین کونسل ماڑی انڈس کے علاقے پیر پیائی اور ڈہوک بھرتال کے درمیان واقع ہے،یہ دنیا کے اُن چند ڈیموں میں شمار ہوتا ہے جن کے اردگرد قدرتی طور پر پہاڑ ہیں،کالا باغ ڈیم کی جھیل کے اردگرد موجود پہاڑ وں کا پتھر سخت ہے،جن میں مٹی اور نمک کی مقدار نہیں جس سے ڈیم میں مٹی بھر جانے کا اندیشہ ہو،جیسا کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں مٹی اور ریت بھر چکی ہے، کالا باغ ڈیم کا پہلا سروے 1952کوہوا1969میں اس ڈیم کی فزبیلٹی مکمل ہوئی۔اس سے پہلے 1953میں امریکی ڈیموں کے ماہرین کی ایک ٹیم نے پیدل سفر کرکے یہ رپورٹ دی تھی کہ دریائے سند ھ پر دس ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں لیکن ضیاء دور میں گورنر سرحد فضل حق نے اس ڈیم کی مخالفت کردی کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا،لہذاڈیم کی اُونچائی 1000فٹ سے کم کرکے 915 فٹ کر دی گئی،اور ڈیم سے نوشہرہ کی اُونچائی 85فٹ ہو گئی،لیکن پٹھانی رگ تھی پھر بھی نہیں مانی،حتی کہ واپڈا اور ورلڈ بنک اس حوالے سے بار بار اپنی رائے دے چکے ہیں کہ ڈیم سے نوشہرہ کو کوئی خطرہ نہیں،

اُدھر کے پی کے کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سندھ والوں نے بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کو اپنا وطیرہ بنا لیا اور بلوچستان کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا،اس سب کے  پیچھے ایک تو تیل مافیا ہے جو ہایئڈرو پاور کی سستی بجلی کے بجائے تیل سے مہنگی بجلی بنا کر اپنی تجوریاں بھر رہا ہے،اور دوسرا سب سے بڑا مخالف  بھارت جو سالانہ اربوں ڈالرزکالاباغ ڈیم کے مخالفین میں بانٹ رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو پاکستان کی ترقی کی رفتار دوگنی ہو جائے گی، جو اُسے کسی طور قبول نہیں،کالا باغ ڈیم تعمیراتی او ر استعمال کے لحاظ سے ایک سستا ترین ڈیم ہے،کیونکہ ڈیم کی جھیل قدرتی طور پر موجو دہے،صرف فرنٹ پر سپل وے اور بند باندھنے کی ضرورت ہے،اس ڈیم کو اُصولاً آج  سے تین دہائیاں قبل تعمیر ہو جانا چاہیے تھا،لیکن ملک کی ترقی کے دشمنوں کی خواہ مخواہ مخالفت کی بنا پر اب یہ حالت ہے کہ ڈیم کی تعمیراتی لاگت بڑھنے کے ساتھ ساتھ 50کی دہائی میں ڈیم کے پاس تعمیرشدہ رہائشی عمارتیں اور دیگر انفر سٹرکچر اور مشینری تباہ ہو چکی ہے،کالا باغ ڈیم سے 3600میگا واٹ بجلی کے ساتھ پنجاب کو 22لاکھ ایکڑ،سندھ 40لاکھ،کے پی کے 20لاکھ جبکہ بلوچستان کو 15لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہو سکتا ہے،کالا باغ ڈیم میں 601ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے،اور سالانہ ہمارے ملک کو 180ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے سستی بجلی الگ جس سے ہماری صنعتی پیداوار کی لاگت کم ہو نے سے براہ راست اثر ہوشربا مہنگائی،برآمدی بل اور تجارت پر مثبت اثر پڑے گا،لیکن وائے ناکامی،قرآن کے الفاظ میں بے شک انسان خسارے میں ہے لیکن وہ جو خالق کائنات کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق زندگی گزارے،اسکے لئے آسانی ہے،ہم نے اپنی تباہی کی بنیاد خود اپنے ہاتھوں رکھی ہے،

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل جب پنڈی اسلام آباد میں گرمی کا زور ہوتا تھا تو ہفتے میں ایک آدھی بارش ہو جایا کرتی تھی اب تو لگتا  ہے کچھ ایسے ہے گویا بارشیں ہم سے روٹھ سی گئی ہیں،جی ٹی روڈ پنڈی کچہری سے نکلتے ہوئے بچپن میں جب گاؤں جایا کرتے تھے تو تا حد نگا ہ سبزے اور درختوں کا ایک جھنڈ نظر آتا تھا،جن کی وجہ سے فضا ء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈکا انجذاب زیادہ تھا۔اور بارش کی شرح بھی زیادہ ہوتی تھی،لیکن برا ہو اس سوسائٹی مافیا کا جس نے اپنی تجوری بھرنے کی خاطر سبزے کی جگہ کنکریٹ کا جنگل کھڑا کر دیا،اب ہم بار ش کو ترس رہے ہیں،رہی سہی کسر ایئر کنڈیشنز نے پوری کر دی جو زمین کا درجہ حرارت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،جب کہ ناداں یہ نہیں جانتے کہ ایک درخت لگانے سے کتنے ٹن اے سی کی ہوا پیدا ہوتی ہے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا انجذاب ہو تا ہے؟سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ زرعی ماہرین ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے خطے کے لئے کون سے درخت مفید اور کارآمد ہیں،یہ نہ ہو کہ کراچی میں جیسے مصطفی درخت یا اسلام آباد میں جنگلی شہتوت اُگائے گئے تھے،جن کا خمیازہ ہم آج گرمی اور الرجی کی صورت بھگت رہے ہیں،شیشم،بیری،پھلاہی،دریک،نیم،اور برگد جیسے درختوں سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے،ہمارے ملک میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے،بڑے شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ سے سیوریج کا پانی کنووں،اور بورنگ میں شامل ہو نے سے ہیپاٹائٹس کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے،ان سارے  عوامل کی وجہ صرف ہماری کوتاہی ہے،قومی انتخابات کا بگل بج چکا ہے لیکن کسی ایک بھی بڑی سیاسی جماعت کے منشو رمیں پانی کے مسئلے کے حوالے سے کوئی روڈمیپ نہیں دیا گیا،عملاً کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہم نے داخل دفتر کیا ہو ا ہے،جب بھی کوئی سیاست دان اس پر بات کرتا ہے تو ڈیم مافیا بلکہ میں تو انکو پاکستان دشمن مافیا کہوں گا کے پیٹ میں مروڑر اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں،کالا باغ ڈیم صرف پنجاب کا ڈیم نہیں جیسا کہ اُوپر بیان ہوا یہ پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا مسئلہ ہے،وقت آگیا ہے کہ ہم سارے فروعی و سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر اس گمبھیر مسئلے کی جانب فوری توجہ دیں ورنہ ہمار ا حال بھی قحط زدہ ایتھوپیا جیسا ہو سکتا ہے،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply