• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران میں طبقاتی جدوجہد عہدِ قدیم سے جدید تک(حصہ اول)

ایران میں طبقاتی جدوجہد عہدِ قدیم سے جدید تک(حصہ اول)

مزدک، طبقاتی جدوجہد کا ایرانی سورما!
یہ 528عیسوی کا کوئی دن ہے ۔ایران کے ساسانی فرماں رواں قباد کا دربار لگا ہوا ہے اور شہنشاہِ معظم تخت پر جلوہ افروز ہے ۔ایک طرف شاہ کا جانشین نوشیرواں ہے جو دو سال بعد اسی تخت پر متمکن ہو گا اور ظلم و بربریت کی داستانوں میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تاریخ میں ’’نوشیرواں عادل‘‘ کہلانے کا حق دار ٹھہرے گا ۔ دوسری جانب اس عہد کے جاگیردارانہ نظام کی نمائندگی کرنے والے امرائے دربار ہیں جن کی مسرت چھپائے نہیں چھپ رہی کہ آج کا دن ان کے لیے ایک بڑی مصیبت سے نجات کا دن ہے ۔ ان سب کے مقابل ایک طرف زرتشتی علماء ،آٹھ آتش کدوں کے مہان پجاری اور مسیحیوں کا لاٹ پادری بازانیس ہیں تو دوسری جانب اس عہد کا ایک دانا ،مفکر اور عظیم مساعی پسند اپنے رفقا کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اس انقلابی پر اتہام واردہے کہ وہ کفر اور الحاد کا نمائندہ ہے ، اس کی تعلیمات نے ایرانی سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیاہے اور غریب و مفلس انسان جن کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں آج بغاوت پر اتر آئے ہیں سو آج مناظرے میں اس کا فیصلہ ہو گا کہ کو ن راستی پر اور کون گمراہ ہے۔

انقلابی کے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے وہ کہتا ہے کہ خدا نے دھرتی پر زندگی کے وسائل اس لیے پیدا کیے ہیں کہ سب انسان اس سے برابر مستفید ہوں اور کسی کو کسی سے زیادہ حصہ نہ ملے ۔ وہ انسانوں میں پیدا ہونے والی تقسیم کو طاقت ور لوگوں کے جبر اور تشدد کا نتیجہ قرار دیتا ہے جس کی بنیاد دوسروں کا حصہ چھین کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے ۔وہ سماج میں غیر منصفانہ تقسیم اور ظلم و بربریت کے لیے اس امر کو لازمی قرار دیتا ہے کہ امیروں کی دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کر دی جائے تاکہ شروع میں انسانوں کے درمیان جو مساوات تھی اسے دوبارہ قائم کر دیا جائے۔ایران کے الم نصیب محنت کار اور دہقان جوق در جوق اس کی انجمن میں شامل ہو تے ہیں یہاں تک کہ شاہ قباد بھی اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے مگر جاگیر داروں کے نمائندے امراء اور زرتشتی عالم اس شخص کی تعلیمات کو اپنے لیے پیامِ مرگ سمجھتے ہیں،شاہی دربار سے لیکر معبدوں تک میں سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں قباد عارضی طور پر تخت و تاج سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوبارہ اس شرط پر واپس آتا ہے کہ اس ’’فتنے‘‘ کا سر کچلا جا سکے ۔سو یہ دربار اسی لیے آراستہ کیا گیا ہے جس میں امراء اور پجاریوں کا چہیتا اور قباد کا جانشین نوشیرواں پیش پیش ہے۔فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے سو اسے قابلِ گردن زدنی قرار دیتے ہوئے ساتھیوں سمیت زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ قباد،نوشیرواں، امرائے دربار ، جاگیروں کے مالک اور ان کی ہر ناانصافی اور لوٹ کھسوٹ کومذہبی جواز فراہم کرنے والے زرتشتی علماء فاتح ٹھہرتے ہیں ۔

ایران کا یہ جلیل القدر انقلابی اور دانائے روزگار جسے ہم مزدک کے نام سے جانتے ہیں، دھرتی پر انسانوں کے ایک جیسے اختیار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی پاداش میں زینتِ دار بنایا گیا ۔ اپنا تخت و تاج بچانے والے قباد نے اگر جاگیر داروں اور پجاریوں کے طبقاتی مفادات کے حضور مزدک اور اس کے رفقاء کا ذبیحہ پیش کیاتو اس کے جانشین اور انصاف کے قاتل حکمران ’’نوشیرواں عادل‘‘نے اس کے ہزاروں پیرؤں کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی تعلیمات پر مشتمل کتابوں اور تحریروں کو آتش کدوں میں روشن ’’مقدس آگ‘‘ کی نذر کرنے میں زرا بھی تساہل نہیں برتا۔ یہ سب ایران میں کوئی پہلی بار نہیں ہو ا بلکہ اس سے کوئی 252سال قبل اسی ایران میں شاہ بہرام نے بھی اس عہد کے ایک انقلابی مانی کے خلاف اسی طرح کا منظرے کا اہتمام کیا تھا ور پھر اس کی کھال کھینچوائی تھی اوراس کا سر قلم کر کے فصیلِ شہر پر لٹکا دیا تھا ۔ سو قباد اور نوشیرواں کے بعد کے ایرانی حکمران ہوں یا عرب ۔۔سب نے اس آزمودہ نسخے کو خوب آزمایا ۔انہوں نے ’’مزدک‘‘ اور ’’مزدکیت‘‘ کے لفظوں کو کفر اور گم راہی کے ہم معنی بنادیا اور ہر اس انقلابی اور تحریک کو یہی کہہ کر مطعون کیا گیا جو ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف سینہ سپر تھا ۔

ظلمات کی قوتوں نے اپنے تئیں مزدک اور اس کی تعلیمات کو نہ صرف نیست و نابود کر دیا بلکہ تاریخ سے اس کا نام تک کھرچ ڈالا مگر تمام تر جبر واستبداد کے باوجود مزدک زندہ وپائندہ رہا اور اس کی تعلیمات کا سرخ سورج تاریکیوں پر خندہ زن رہا ۔مزدک کا شمار نوعِ انسانی کے ان محسنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں مساوات کا پرچم بلند کیا اور اپنے اپنے عہد کے حالات و تقاضوں کے مطابق اس کے لیے جدوجہد کی ۔آج 15صدیوں بعد جب ہم مزدک کی تحریک اور تعلیمات( جس حد تک بھی دستیاب ہیں)کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں بہت سی چیزیں عجیب بلکہ کافی حد تک مابعد الطبعیاتی رنگ کی حامل لگتی ہیں،مگر مزدک کے نظریات کو جانچنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے اس کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کی بنیادوں کا پتہ چلایا جا سکے ۔اس کے جو بھی افکار ہم تک پہنچے ان کا مآخذ اس کے بدترین مخالفین کی تحریریں ہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مقنع نے مزدک کی کتاب’’مزدک نامگ‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا مگر یہ بھی دستیاب نہیں ہے ۔

بہر کی۔۔۔ ہمیں یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس زمانے میں اکثر انقلابی تحریکوں اور رہنماؤں نے سماجی تبدیلیوں کے لیے مابعد الطبعیاتی پیراہی اختیار کیا۔ویسے بھی انسانی تاریخ میں ہمیں بالادست طبقات کے مفادات کی نگہبانی اور ترجمانی کرنے والی مابعد الطبعیات کے ساتھ ساتھ اس کا ایک عوام دوست رحجان بھی نظر آتا ہے ۔مزدک کی تحریک نہ تو ایران میں اپنی نوعیت کی پہلی تحریک تھی اور نہ ہی آخری، مذہبی انداز میں پیش کی جانے والی یہ تحریک دراصل ساسانی عہد کے جاگیردارانہ نظام اور امراء اور زرتشتی علماء کے اتحادکے خلاف دہقانوں کی طبقاتی جدوجہد تھی جس نے مذہبی طرز پر اپنا اظہار کیا ۔ایران کی تاریخ میں مظلوموں کی طبقاتی جدوجہد کے خدوخال ہمیں قدیم ایرانی اساطیر میں بھی نظر آتے ہیں ۔مثال کے طور پر قدیم ایرانی دیومالائی کردار ’’کاوہ‘‘ نامی ایک لوہار جس نے’’ضحاک ‘‘ نامی ایک شیطان پرست بادشاہ کے خلاف اپنی دھونکنی کے چمڑے سے تیار کیا ہوا جدوجہد کا علم ’’درفش کاویانی‘‘ بلند کیا تھا۔ ضحاک کو اپنے کاندھوں پر بیٹھے سانپوں کو کھلانے کے لیے روزانہ دو انسانوں کا مغز درکار ہوتا تھا ،لوگوں کو ضحاک کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ’’کاوہ ‘‘ نے اسے کاندھوں پر بیٹھے ہوئے دو سانپوں سمیت قتل کر دیا تھا۔یہاں قابلِ غور امر یہ ہے کہ کاوہ دیگر اقوام کے اساطیری کرداروں کی طرح نہ تو کوئی دیوتا زاد ہے اور نہ کوئی اوتار یا مافوق البشر کردار بلکہ سماج کا ایک عام محنت کش انسان ہے۔

تیسری صدی عیسوی میں شاہ بہرام کے ہاتھوں قتل ہونے والے انقلابی مانی کی تحریک بھی کچلے ہوئے انسانوں کی طبقاتی جدوجہد ہی تھی جو مذہبی طرز پر سامنے آئی جو ایران و بابل میں مقبول ہوئی۔مانی جس نے تقابلِ ادیان کا گہرا مطالعہ کیا اور تلاشِ حق میں ہندوستان اور چین و تبت تک کی خاک چھانی تھی ۔ہر چند کہ اس کی تعلیمات زرتشیت، مسیحیت اور بدھ مت امتزاج پر مبنی تھیں اور اس نے نور اور ظلمت کی آویزش بھی زرتشیت سے ہی مستعار لی تھی مگر اس کے مقاصد خالص طبقاتی اور سیاسی تھے۔ مانی کے قتل کے بعد زرتشت تیسر خورگان جسے بندوس بھی کہا جاتا ہے ،نے اس کی تعلیمات کو مزیدسنوارتے ہوئے مؤ ثرانداز میں پیش کیا۔ ’’کاوہ‘‘ کی اساطیری داستان ہو یامانی اور بندوس کی جدوجہد ،مزدک اسی طبقاتی جدوجہد کا تسلسل تھا ۔البتہ مانی اور بندوس پر مزدک کو جو برتری حاصل ہے وہ اس کا زبردست مساعی پسند اور مردِ عمل ہونا ہے جس کی بدولت اس نے ساسانی عہد کے طبقاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔چوں کہ مزدک کے نظریات بنیادی طور پر ایرانی محنت کاروں بالخصوص دہقانوں کی طبقاتی جدوجہد کی ترجمانی کرتے تھے اس لیے یہ اس کے قتل کے صدیوں بعد تک زندہ رہے اور طبقاتی لڑائیوں میں مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتے رہے۔

قتلِ مزدک کے کوئی ڈھائی سوسال بعد771میں خراسان کے شہر نخشب میں’’مقنع‘‘ کے نام سے شہرت پانے والے ہاشم ابن حکیم نے مزدکیت کا پرچم بلند کرتے ہوئے خلیفہ المہدی کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا ۔اس نے مزدک کی تعلیمات کی روشنی میں 14سال تک ایک حکومت قائم کی اور خلیفہ کی افواج کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا ۔785میں خلیفہ کی افواج نے اسے گھیر لیا مگر اس نے مانی اور مزدک کی طرح ایک اور شہنشاہ کے ہاتھوں زینتِ دار بننے کی بجائے آگ میں جل کر راکھ ہوجانے کا راستہ اختیار کیا ۔ مقنع کی تحریک طبقاتی کے ساتھ ساتھ عربوں کی بالا دستی کے خلاف ایران کی قومی تحریک بھی تھی ۔نویں صدی عیسوی میں سرزمینِ ایران پر جنم لینے والا ایک اور آتش نفس کسان انقلابی رہنما بابک خرم دین تھا ۔ مزدک کی تعلیمات کے احیاء کے لیے پرعزم اورتاریخ میں بابک خرمی کے نام سے زندہ جاوید ہونے والے اس انقلابی نے مدتوں عباسی خلافت کی ناک میں دم کیے رکھا ۔اس کی تحریک نے بڑے پیمانے پر ایرانی دہقانوں کو متاثر کیا ۔ مامون الرشید نے بابک خرمی کے خلاف کئی ایک فوجی مہمات روانہ کیں لیکن کام یاب نہ ہو سکا ۔ 835میں معتصم باللہ کے سپاہ سالار افشین کے ہاتھوں بابک گرفتار ہوااور معتصم باللہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔ اپنے انقلابی پیش روؤں مانی اور مزدک کی طرح بابک بھی سرِ دربار قتل کیا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تھا ایران کے ان عظیم انقلابیوں کا مختصر احوال جنہوں نے اپنے ادوار میں طبقاتی جدوجہد کی اور سولیوں پر مساوات کے نعرے بلند کرتے ہوئے اس جہانِ رنگ و بو سے رخصت ہوئے۔ان پر خوب سنگِ دشنام اور ملامت کے تیر برسائے گئے، سنسار کی ہر برائی کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ،ان کی تعلیمات اور نظریات کو مٹا دینے کے جتن کیے گئے اور ان کے ناموں کو گالی بنا دیا گیا ۔مگر وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے اس لیے کہ ان کا تعلق باجبروت شہنشاہوں ،شاہی درباروں ،امراء ،جاگیرداروں اور ان کے حاشیہ بردار مذہبی پیشواؤں سے نہیں بلکہ محنت کار عوام سے تھا ۔اس کے بعد بھی ایران میں طبقاتی جدوجہد مختلف شکلوں اور صورتوں میں جاری رہی یہاں تک کہ انسانی تاریخ ایک نئے عہد یعنی سائنٹفک سوشل ازم کے دور میں داخل ہوگئی۔ انیسویں صدی میں مارکس اور اینگلز کی تعلیمات نے طبقاتی جدوجہد کو نہ صرف ایک نیا موڑ دیا بلکہ محنت کشوں کو جدوجہد کا ایک نظریاتی ہتھیار بھی فراہم کیا ۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ اسی صدی میں دانیان یورپ نے مزدک کے بارے میں تحقیق اور جستجو کرتے ہوئے اس دھول کو صاف کرنے کی کوشش کی جو درباری مورخین کی خامہ فرسائیوں کا نتیجہ تھی ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply