دیکھنے میں تو غنڈے لگتے ہو۔۔۔سانول عباسی

آج کچھ اور لکھنا تھا مگر یکایک کچھ پل ایسے گزرے کہ اسپِ خیال ماضی کے دھندلکوں میں محو سفر ہو گیا اونچی نیچی گرم سرد یادوں سے ہوتا ہوا یاد کے اس مزار پہ آ کے رک گیا جہاں جذبات کا تلاطم کسی آتش فشاں کی صورت بےمہار ہوتا ہے جہاں زندگی میں رنگ ہی رنگ ہوتے ہیں جہاں امیدوں کو پر لگ جاتے ہیں اور انسان آسمانوں کی دنیا میں محو پرواز رہتا ہے جہاں خوابوں کی اڑان اس قدر برق رفتار ہوتی ہے کہ آنِ واحد میں انسان جنت سے ہو کر آ جائے۔

زندگی بھی کتنی عجیب ہے انسان کو دائروں میں گھماتی رہتی ہے اور انسان گھومتا رہتا ہے پتھر کے دور کی بات ہے ہم جس شہر سے ملحقہ دیہات میں رہتے ہیں وہاں دور دور تک کسی ہائی سکول کا نام و نشان تک نہیں تھا جو ایک دو سکول تھے وہ گھر سے کافی دور تھے بغیر کسی ٹرانسپورٹ کے سکول جانا ممکن نہیں تھا جو سب سے قریب ترین سکول تھا وہاں بغیر سائیکل کے نہیں جایا جا سکتا تھا اور ہمارے  سائیکل خریدنے کے  وسائل نہیں تھے تو بھلا ہو بھٹو صاحب کا جنہوں نے سٹوڈنٹس کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ فری کر دی اور ہمارے سکول کا انتظام ہوا اور تقریباً  روزانہ بسوں پہ لٹک لٹک کے سکول آنے اور جانے کا اپنا ہی ایک الگ مزہ تھا۔

جب میٹرک کا داخلہ ہوا تو داڑھی مونچھوں کے آثار واضح طور پر ظاہر ہو چکے تھے میں ہمیشہ اپنی طبعی عمر کے حساب سے پانچ چھ سال بڑا ہی رہا ہوں کسی نے بھی میرا چہرہ، جسمانی ڈیل ڈول دیکھ کے جب بھی کوئی اندازہ لگایا تو ہمیشہ ہی پانچ چھ سال کا فرق ڈال دیا کیونکہ ایک کسان کے محنت و مشقت اور دیسی خوراک میں پلے بیٹے اور نازو نعم میں پلے ممی ڈیڈی قسم کے بچوں میں جو فرق ہوتا ہے وہ بدرجہ اتم موجود تھا اور دیہاتی زندگی میں نوجوانوں کا بہترین مشغلہ پہلوانی کرنا اپنا جسم بنانا ہوتا ہے تو ہم بھی اسی شوق کی تسکین میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے تو کسرت کی وجہ سے جسمانی ساخت میں سختی اور ایک رعب چھلکتا تھا اور جسم میں اگر طاقت ہو تو رویہ میں دبدبہ آ ہی جاتا ہے اور اگر یہ مسلسل رہے تو چہرے پہ کچھ مخصوص قسم کے آثار مستقل آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ سے تھوڑا سا دبک کے رہتے ہیں کہ کہیں لڑ ہی نہ پڑے تو ہم بھی دیکھنے میں کچھ لاابالی سے تھے لگتا تھا کہ جیسے ابھی لڑ پڑے گا۔

سکول میں داخلہ ہو گیا اور ہم بسوں پہ سکول آنے جانے لگے ہم کبھی بھی بس کے پچھلے دروازے سے سوار نہیں ہوئے تھے اگر سامنے کے دروازے سے جگہ نہ ملی تو بس ہی چھوڑ دی مگر اصولوں پہ کبھی سودے بازی نہیں کی جو لوگ بسوں میں سفر کرتے رہے ہوں انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ سامنے کے دروازے سے کیا نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور جو کچھ ہم نے بسوں میں دیکھا وہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آیا مخلوق خدا کا حسن اور جتنے رنگ اس غربت نے اپنے چیتھڑوں میں چھپائے ہوئے ہیں امارت تو اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتی ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ پہ کبھی بھی سیٹ کی تمنا نہیں کی تھی اگر کبھی سیٹ میسر بھی ہوئی تو ہر ممکن کوشش یہی ہوتی کہ اس پہ نہ بیٹھا جائے اگر چار و ناچار بیٹھنا بھی پڑتا تو ڈرائیور  کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ جاتے تاکہ یہ مختصر سا وقت کہیں ایسے نہ گزر جائے اس عمر کا بھی اپنا ہی ایک ذوق ہے بہت سی باتیں بہت سے واقعات بہت سی انہونیاں ایسی ہو جاتی ہیں کہ انسان تمام عمر ان یادوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہے۔

حسن لازوال ہے اور کائنات کی واحد طاقت ہے جس کی کاٹ نہیں سوائے وقت کے اور اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ انسان کو مفلوج بنا دیتا ہے بظاہر بنا اسباب کے انسان کو ایسا اپنی مٹھی میں کرتا ہے کہ کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا ہر انسان حسن پسند ہوتا ہے مگر تخلیقی صلاحیتوں کے مالک حسن پرستی کی حد تک حسن پسند ہوتے ہیں ہمیں جو اپنا  آپ یاد آتا ہے خاصے حسن پسند واقع ہوئے مگر یہ شغل صرف دیکھنے کی حد تک تھا اس کے علاوہ نہ کبھی کوئی خواہش ہوئی اور نہ ہی کوشش کی بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پہ اب تک کاربند ہیں آج ان اصولوں میں تھوڑی ترقی یہ ہوئی ہے کہ اب دیکھنا بھی گناہ شمار کرتے ہیں گو کہ غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر ہر ممکن بچاؤ کی کوشش کی جاتی ہے۔

گناہ کرنے کے لئے ہٹ دھرمی ،بےحسی اور سرکشی کی انتہائی ضرورت رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کا بےشرمی کی حد تک درندہ صفت ہونا انتہائی ضروری ہے وگرنہ کسی بھی سادہ انسان کے بس میں ہی نہیں کہ کوئی جرم ،کوئی گناہ کر سکے، ہم جو روزمرہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کو دیکھتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے اندر کا انسان مرتا جا رہا ہے اور جیسے جیسے انسان کی موت ہو رہی ہے ویسے ویسے بے حسی بےشرمی وحشت درندگی پروان چڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا خون کرتے ہوئے ذرا بھی احساس نہیں رہتا کہ شاید اگلا بھی انسان ہے اپنے اندر کے انسان کو جگانے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ دوسرے انسانوں کو انسان سمجھا جائے اگر انسان سوائے اپنے کسی کو بھی انسان نہیں سمجھتا تو سمجھ لیا جائے کہ اس کی انسانیت مر چکی ہے اور یہ انسانی روپ میں درندہ ہے۔

ایک دوپہر سکول سے واپسی پر بس سٹاپ پہ کافی رش تھا تو میں جیسے تیسے زور لگا کر دروازے سے لٹک گیا کچھ دوست بھی لٹک گئے مگر دو دوستوں کی جگہ نہ بن سکی تو وہ کہنے لگے چھوڑو یار نیچے آ جاؤ دوسری بس پہ چلتے ہیں تو یاروں کی بات پھر کون ٹالتا ہے ہم سب نیچےآ  گئے اور پھر وہی جو دوستوں کی محفل میں ہوتا ہے جو دوست سوار نہ ہوسکے ان کی کٹ لگنا شروع ہو گئی باقی دوست بھی مل گئے تو کافی خوشگوار سا احساس تھا مگر وقت نے نہ جانے کب ایسی کروٹ لی کہ پیمانہء حیات میں زہر کی سی تلخی آتی چلی گئی ابھی وہ دوست نہ جانے زندگی کی سنگینیوں میں حالات کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اب اگر کبھی مل بھی جائیں تو تلخی حیات نے وہ سب رنگ چھین لئے ہیں اب ہم باہم   ملاقات میں مذاق بھی کرتے  ہیں ،ہنستے بھی ہیں مگر زندگی کا وہ والہانہ احساس کہیں ناپید ہو گیا ہے ۔

خیر دوسری بس آئی اور ہم اس میں سوار ہو گئے اور اب کی بار ان کمزور دوستوں کو اپنے آگے رکھا کہ کہیں  دوبارہ بس چھوٹ نہ جائے بس میں سوار ہوئے تو میرے دوست نے ٹہوکا دیا۔۔ اوئے! وہ دیکھ، میں نے  کہا کہ یار ابھی اندر تو آ لینے دو پھر دیکھ بھی لوں گا بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی مگر اوپر جانا لازم ہو گیا تھا تو زور لگا کر متجسس نظروں سے اندر آ گیا تو دیکھتے ہی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اتنی خوبصورت آنکھیں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں باقی چہرے پہ تو نقاب لیا ہوا تھا مگر آنکھیں کیا کمال تھیں یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاعری میں آنکھوں کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے جو بھی تماثیل مستعمل ہیں سب کی سب ان آنکھوں کے سامنے ہیچ تصور ہوں گی میں نے جیسے ہی دیکھا تو ایک لمحے کے لئے مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ میں انتہائی ندیدوں کی طرح ان آنکھوں میں کھو سا گیا ہوں میرے دوست نے مجھے ہلا کے کہا اوئے نظروں سے کھائے گا کیا بیچاری کو مگر میں نے سنی ان سنی کر کے پھر ان آنکھوں میں کھو گیا اس لڑکی کو بھی بڑی شدت سے احساس ہوا کہ کوئی ندیدہ بڑی بےرحمی سے دیدے پھاڑ پھاڑ کے اسے دیکھ رہا ہے عورت کی چھٹی حس انتہائی تیز ہوتی ہے اور بہت جلد نیت کو بھانپ لیتی ہے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اس کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی ادھیڑ عمر عورت نے کنڈیکٹر کو آواز لگائی کہ فلاں سٹاپ پہ روکنا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمارے سٹاپ سے پہلے والے سٹاپ پہ اترنا ہے تو میں نے اپنے دوست سے کہا یار ابھی مجھے تنگ نہ کرنا اور ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگا وہ لڑکی بھی کنکھیوں سے دیکھ لیتی مگر شرم کا عنصر غالب ہونے کی وجہ سے وہ مسلسل نیچے دیکھے جا رہی تھی ان کا سٹاپ آنے والا تھا انہوں نے کنڈیکٹر سے کہا کہ ابھی بس روکنا ہمیں یہاں اترنا ہے تو وہ اس ادھیڑ عمر عورت کے ساتھ دروازے تک آنے لگیں تو میں چونکہ بالکل دروازے کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ لگے سہارے کو پکڑا ہوا تھا پہلے وہ بڑی عمر کی عورت گزری اس کے پیچھے یہ حسینہ عالم تھیں تو جس سہارے کو میں نے پکڑا ہوا تھا وہ میرے قد سے اوپر تھوڑا فاصلے پہ تھا تو لڑکی نے بھی اسی سہارے کو پکڑ کے نیچے اترنا تھا تو اس نے دانستہ یا غیر دانستہ میری کلائی کو پکڑ لیا تو جیسے ہی نسوانی ہاتھوں نے میرے جسم کو چھوا تو یوں لگا جیسے بجلی کا ایک بہت بڑا جھٹکا لگا ہو اور بس بھری ہونے کے باوجود اس جھٹکے نے مجھے اپنی جگہ سے اٹھا کے پیچھے کی جانب پھینک دیا اور لوگوں کے اوپر آ گرا لوگ مجھے برا بھلا کہنے لگے ایک ساتھ والی سیٹ  پر  سواری پکار اٹھی اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا تو ایک دوست نے مسکرا کے جب مجھے دیکھا تو اتنے میں اس نقاب والی لڑکی نے اپنی مسکراتی آنکھوں سے مجھے سر سے پیر تک دیکھا اور میں جو سنبھل رہا تھا میری کیفیت کو دیکھ کے کہنے لگی!
“دیکھنے میں تو غنڈے لگتے ہو”

آج برسوں بعد پھر وقت ایک ایسی  پری زاد کو سامنے لے آیا ،نور کے جلوؤں میں لپٹا پری پیکر جو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا بقول شاعر جناب جلیل مانکپوری۔۔

کس کے رخسار دم سیر چمن یاد آئے
پھول آنکھوں میں کھٹکنے لگے کانٹا ہو کر

خیر حسن کی تعریف کہاں ممکن ہے جتنی لفاظی بڑھتی جائے گی اتنی ہی تشنگی بڑھتی جائے گی بڑی سے بڑی تشبیہ بڑے سے بڑا استعارہ کوائف حسن کے مکمل بیان سے قاصر ہے سوائے اس کا دیکھنا، حسن ایک آسیب ہے جو انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور انسان چاہتے ہوئے بھی اس گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔

کچھ دن پہلے ایک شاہکار حسن سے ملاقات ہوئی تو جیسے ہی ان آنکھوں نے اس پری پیکر کو دیکھا جھپکنے سے انکار کر دیا اس حسن کی دیوی کو فوراً احساس ہوا کہ ایک ندیدہ شخص بےبس و لاچار بنا اسے گھور رہا ہے تو مسکرانے لگیں دل میں خواہش جاگی کہ ان سے بات کی جائے تو کوشش کر کے جب ان سے بات کرنا چاہی تو جسم میں عجیب کپکپی سی طاری ہو گئی اپنی مکمل کوشش کے باوجود بھی اس تشنجی کیفیت پہ قابو نہ پا سکا بولنے کے لئے منہ کھولا تو زبان لڑکھڑانے لگی ،کوئی لفظ منہ سے نہ نکلا ،ہاتھ پیر ٹھنڈے یخ ہو گئے سردی کی لہروں سے مسلسل بدن کانپ رہا تھا اور ماتھے پہ پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے خیر وقت گزرتا رہا اور چاہ کر بھی کچھ نہ بول پایا اور ملاقات کا وقت ختم ہو گیا جب وہ پری زاد جانے لگیں تو کھڑے ہو کر  مجھے دیکھ کے مسکرانے لگیں اور اس ملاقات میں صرف ایک جملہ بولا گیا جو جاتے وقت ان کی زبان سے نکلا تھا ۔
“دیکھنے میں تو غنڈے لگتے ہو”

Advertisements
julia rana solicitors

اور آخری وقت تک ہم اپنے بدن کی کپکپی وتشنجی کیفیت کو قابو کرنے میں لگے رہے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply