ٹرمپ کا دورہ سعودیہ اور عرب اسلامک امریکن سربراہ کانفرنس کا بظاہر مقصد تو دہشت گردی کے خلاف وسیع تر اتحاد بتایا گیا لیکن کہانی کچھ اور ہی تھی۔ اس کانفرنس نے مشرق وسطی کے مستقبل پہ خدشات کے بادلوں کو مزید گہرا کردیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ وسیع تر اسلامی اتحاد کا نام محض نام یا چھتری ہی تھی جس کے اندر اصل اتحاد سعودیہ امارات، اردن اور مصر کا ہے۔ اس کا باقاعدہ سیکریٹریٹ ہوگا۔ سعودیوں نے ایک ہی سفارتی چال میں کئی مقاصد حاصل کرلئے۔ امریکہ سے خطیر رقم اسلحہ کی خریداری کے دس سالہ معاہدہ کے نتیجہ میں سعودی حکمرانوں نے اگلے دس سال کے لئے امریکی حمایت کو یقینی بنالیا اور ٹرمپ کا دہشت گردی کے بارے میں موقف بھی تبدیل کرالیا۔ دہشت گردی کے ضمن میں ٹرمپ کا خطبہ اب ایران، حزب اللہ اور حماس کے گرد گھوما۔ داعش کا ذکر خانہ پری کے لئے ہی تھا۔
مشرق وسطی میں ایک نئی صف بندی واضح طور پہ ہوتی نظر آرہی ہے۔ حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد قرار دینے پہ اسرائیل سے زیادہ خوش کون ہوگا؟ ویسے بھی اردن اور مصر عرصہ سے اسرائیل کے اتحادی اور دوست تھے۔ متحدہ عرب امارات میں اسرائیل نے ۲۰۱۵ سے سفارتی مشن کھول دیا تھا۔ سعودیہ اور اسرائیل کے تعلقات ابھی زیر زمین ہیں لیکن شہزادہ ولید بن طلال نے اشارے کنایوں میں کافی کچھ بتادیا تھا جسے پانی کا درجہ حرارت چیک کرنا سمجھنا چاہئے۔ مزید وقت آنے پہ کھلے گا۔ دراصل ان عرب حکومتوں کا خطرے کا احساس threat assessment تبدیل ہوچکا ہے۔ ستر یا اسی کی دہائی کی طرح اب خطرہ وہ اسرائیل سے نہیں بلکہ ایران سے محسوس کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سوچ کو عرب عوام میں پوری طرح مقبول نہیں ہوسکی۔
اس دورہ کو سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان کے ساتھ دیکھا جائے جس میں انہوں نے بیان کیا کہ "جنگ ایران کے اندر" لڑی جائے گی۔
یہ ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عرب ممالک اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ تو پہلے ہی جاری تھی جو عراق اور شام میں لڑی گئی یا یمن میں۔ لیکن براہ راست ایران کی طرف اشارہ کرنا! اس کا واضح مطلب تو ایران کے اندر پراکسی جنگ ہے۔ ایران کے جنوب میں خوزستان یا اہواز میں عرب آبادی پہلے بھی ایران کے لئے مسئلہ بنی رہی۔ جنوبی ایران کی کرد آبادی عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں شامل تو ہوئی لیکن انکی واپسی پہ ایرانی کردستان میں بےچینی پیدا ہوئی۔جنوری ۲۰۱۷ میں سعودیہ نے عراقی نیم خودمختار کردستان میں قونصلیٹ قائم کی اور اپریل میں ایرانی کردستان میں کرد کارروائیاں سامنے آئیں۔ اسی طرح سیستان اور ایرانی بلوچستان میں جند اللہ یا جیش العدل کی طرف سے ایرانی سرحدی محافظین کے خلاف کاروائی میں دس محافظ مارے گئے جس کے بعد ایران کے پاکستان سے تعلقات بھی خراب ہوئے۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان کیلئے بہت مشکل صورتحال آ بنی ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور پاکستان اس کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا اور پاکستان کے سعودیہ سے بھی قریبی تعلقات ہیں جنہیں خراب نہیں کرنا چاہتا۔ سعودیہ اور امریکہ کی تمام تر کوشش کے باوجود اس صورتحال میں غیرجانبدار رہنا ہی پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان مشرق وسطی کی دلدل میں داخل ہونے سے بچتا چلا آیا ہے۔ اگرچہ انڈیا کچھ عرصہ قبل عرب ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدہ جات میں داخل ہوچکا تھا لیکن پاکستان نے قدم نہیں رکھا۔
صورتحال زیادہ تشویشناک رخ بھی اختیار کرسکتی ہےاگر عرب ایران پراکسی افغانستان کا رخ اختیار کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پہ اب تک غور نہیں کیا گیا لیکن یہ عین ممکن ہے۔
افغانستان میں داعش پہلے سے ہی موجود ہے اور اس کی طاقت اطلاعات کے مطابق پچاس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جسے افغان حکومت اور انڈیا کی سرپرستی حاصل ہے۔ انڈیا کے عرب ممالک کے ساتھ حالیہ سالوں میں دفاعی معاہدہ جات بھی ہوئے ہیں۔ قابل غور ہے کہ پاکستان واضح طور پہ کہہ چکا ہے کہ اس کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال نہ ہوگی تو پاکستان سے مایوسی کی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ پراکسی جنگ کو ایران کے اندر پہنچانےکی کوشش براستہ افغانستان بذریعہ انڈیا ہو۔ اس صورت میں خطے کی صورت حال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔ پاکستان اگرچہ مشرق وسطی کا حصہ نہیں اور اس کے معاملات سے الگ رہ سکتا ہے لیکن پاکستان ، افغانستان کی صورت حال سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ مشرق وسطی کی آگ افغانستان تک جاپہنچے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں