شمالی امریکا میں ایسے ہزاروں درخت دیکھے جاسکتے ہیں جو حیرت انگیز طور پر خمیدہ ہیں اور ماہرین اب تک ان کی وجہ جاننے سے قاصر ہیں۔ پہلی نظر میں گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ درخت کسی بیماری کے شکار ہیں یا قدرت نے انہیں ایسا ہی پیدا کیا ہے کیونکہ بعض درخت اوپر بلند ہونے کی بجائے فرش کے متوازی آگے بڑھتے ہیں اور گویا ایسا لگتا ہے کہ بہت عرصہ قبل شعوری طور پر ان درختوں کا رخ موڑا گیا ہے۔ امریکا میں ایسے درختوں کو ٹریل درخت کہا جاتا ہے جن کے تنے زاویہ قائمہ پر مڑے ہوتے ہیں، شکستہ ہوتے ہیں یا پھر کسی تبدیلی سے گزرے ہوتے ہیں۔ عموماً ایک درخت کا تنا چار سے پانچ فٹ سیدھا ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ 90 درجے پر مڑ جاتا ہے اور کئی فٹ زمین کے متوازی بڑھتے ہوئے دوبارہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ تاہم خمیدہ حصوں پر کوئی نشان موجود نہیں جس سے ظاہر ہو کہ درخت کی شاخوں کو زبردستی موڑا گیا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درخت قدیم شکاریوں اور چرواہوں نے تبدیل کیے ہیں تاکہ وہ اتنے بڑے جنگل میں بھٹکنے کی بجائے اپنی منزل تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ ایک مصور ڈینس ڈونس نے دیکھا کہ مڑے ہوئے درخت برف باری میں بھی بہت دور سے دیکھے جاسکتے ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے اس پر تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا کہ ریمنڈ جینسن نامی ایک ارضیات دان نے 70 برس قبل امریکا کی 13 ریاستوں میں گھوم کر ان درختوں پر تحقیق کی تھی۔ اس نے ان درختوں کو انسانی مداخلت قرار دیا تھا۔ ریمنڈ کے مطابق امریکا کے قدیم باشندوں ریڈ انڈینز نے شعوری طور پر درختوں کی اشکال کو موڑا تھا جس کا احوال اس نے اپنے چار مضامین میں پیش کیا ہے۔ تاہم بعض درخت، جانور، برفباری، ہوا کی قوت اور آسمانی بجلی سے بھی مڑے ہیں لیکن وہ انسانی کاوشوں سے الگ نظر آتے ہیں کیونکہ ان پر گہرے نشانات اور کھرونچے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہر درخت انسان نے نہیں موڑا بلکہ کچھ درخت بعض دیگر وجوہ کی بنیاد پر اس طرح کی شکل اختیار کرگئے ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں