ٹی وی پر مذہبی اکھاڑے۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

میرے ایک نہایت محترم دوست جو ایک مشہور دارالعلوم کے فاضل ہیں اور ایک مشہور درسگاہ میں پڑھانے کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، انہوں نے لکھا کہ بول ٹی وی کے پروگرام میں تمام مسالک کے علماء موجود ہیں اور عوام دیکھ کر فیصلہ کرے کہ درست کون ہے۔ مجھے اس پر بہت حیرانگی ہوئی کہ ہمارا مذہبی طبقہ بھی کس قدر شعور سے عاری ہے۔ ٹی وی کے پروگرام چرب زبانی کا مرکب ہوتے ہیں، ان کا علم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہمارے اہل مدرسہ بھی اس قدر سادہ ہیں کہ اس کو حق و باطل کا معیار قرار دے رہے ہیں۔ اس کے چند روز بعد ہی انڈیا سے آئی کال نے جو ہیجان برپا کیا، اس سے خود ہمارے یہ فاضل دوست بھی تلملا اٹھے اور اس کے خلاف باقاعدہ ایک کمپین چلائی۔ کچھ عرصہ پہلے مفتی قوی اور  قندیل بلوچ نام کی اداکارہ کی تصاویر منظر عام پر آئیں میڈیا نے اس کو اس قدر اچھالا کہ اس اداکارہ کے بھائی کو لوگوں نے بے غیرت ہونے کے طعنے دینا شروع کر دیئے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، بھائی نے اپنی بہن کو قتل کر دیا۔ اس میڈیا کے لئے یہ بھی کوئی احساس دلانے والی بات نہ تھی بلکہ ان کا پیٹ بھرنے کے لئے یہ بھی ایک خبر تھی، اس وقت کی میڈیا کوریج نکال کر دیکھ لیں، انہوں نے اس سے بھی پیسے کمائے۔

میڈیا کا ایک المیہ ہے، اسے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور چاہیے اور کچھ نہیں ملے گا تو وہ خود سے خبریں بنائے گا، ایشوز تخلیق کرے گا اور ان پر ایسے لوگوں سے رائے لی جائے گی، جو معاشرے میں آگ لگانے والے ہوں گے۔ معاشرے میں وہ چیز زیادہ دیکھی جاتی ہے، جس میں زیادہ ہیجان ہوتا ہے، جو بس ابھی آگ لگانے والی ہو۔ اسی لئے آپ دیکھیں اگر تمام مسالک کے علماء متفق علیہ مسائل پر جن پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں تباہی ہو رہی ہے اور اس میں امت کا اتفاق بھی ہے، بات کریں گے تو دیکھنے والے بھی چینل تبدیل کر لیں گے۔ اس لئے پروگرام میں مصالحہ کے طور پر کچھ ایٹمز رکھے جاتے ہیں۔ دیگر پروگرامز میں تو گانے بجانے والے یا لطیفے سنانے والے پروگرام کے اس حصے کو مکمل کر دیتے ہیں، مگر مذہبی پروگرام میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ پروگرام کی ریٹنگ تب ہوگی، جب باہمی بحث و مباحثہ ہوگا، اس کے لئے بہترین حل مسلکی اختلافات کو بھڑکانا ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ پروگرام کو دیکھیں گے۔

نبی اکرمﷺ کے دنیا سے انتقال کے بعد کی کیفیت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہے، اب اس مسئلے کو اٹھایا گیا، پھر اس پر ایک مسلک کی رائے طلب کی گئی، پھر ان کی رائے پر دوسرے مسلک کی رائے جو معلوم ہے کہ اس کے مخالف ہے، طلب کی گئی، جب انہوں نے اپنی رائے دی تو ان کی توہین کی گئی اور ظاہراً ایسے لگا جیسے مولانا نے توہین رسالت کر دی ہے اور اب جانے کیا ہو جائے گا۔ فوراً سوشل میڈیا پر کمپین چل گئی، کچھ حق میں اور کچھ مخالفت میں لکھنے لگے، جس کا نتیجہ معاشرتی اضطراب کی صورت میں نکلا۔ پروگرام کی ریٹنگ نئی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ دو دن بعد ہی وہ مولانا صاحب پروگرام کی زینت ہوگئے، کچھ لوگوں کے مطابق یہ سب طے شدہ تھا اور لگ بھی یوں ہی رہا ہے۔ اب اسی چینل نے امیرالمومنین حضرت علیؑ کی انبیاؑ پر افضلیت کے مسئلے کو چھیڑ کر مناظرانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت پر سوالات اٹھوائے گئے، اس سے بھی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ اس تمام پر غور کے بعد میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ممکن ہے ماہ مبارک کی  باقی دو تین راتوں میں بھی یہ لوگ کسی نہ کسی مسلک کے بارے میں اختلافی مسئلہ چھیڑیں گے اور اس کے نتیجے میں ہر جگہ ان کا نام رہے گا، ریٹنگ بڑھتی رہے گی۔

یہ ریٹنگ عجیب چیز ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں، تیس سے زیادہ چینلز سحری افطاری کی ٹرانسبیشنز کر رہے ہیں، مگر ہم فقط اسی کو ڈسکس کر رہے ہیں، جس نے لڑائی کرانے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک طرح سے چیز کو ذہن پر سوار کر دیتے ہیں، انسان نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنے پر مجبور ہر جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں میڈیا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہ پروپیگنڈے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جو بات معاشرے میں پھیلانے کے لئے ہزاروں ورکرز لگا کر، بہت زیادہ مٹریل پرنٹ کرکے اور کافی وقت لگا کر ممکن ہوتی تھی، اب وہ منٹس کا کام ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیچنے کے لئے اس میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کے لئے وہ جعلی ڈیمانڈ بناتی ہیں۔ آج ہم فقط اپنے افطاری کے وقت دسترخوان کو ملاحظہ کریں تو  پتہ چلے گا کہ آج سے تیس سال پہلے جب ٹی وی گھر کا جزو لاینفک نہیں بنا تھا، اس وقت دسترخوان پر ان چیزوں کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ عید میلاد النبی کے موقع پر جس طرح آج لباس پہنے جاتے ہیں، پہلے ایسے بالکل نہیں تھا، اب تو محرم کی آمد سے پہلے بازار جائیں تو دکانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ محرم کی ورائٹی آگئی ہے۔ رمضان کی نشریات نے ماہ رمضان کے برکات پر کاری ضرب لگائی ہے اور محرم و ربیع الاول کی پربرکت محفلیں اب رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی نظر آرہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکہ اور یورپ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے امام ہیں، ہر چیز کو سرمایہ دارانہ آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، حد یہ ہے کہ حج جیسی عظیم عبادت کو بھی اسی آنکھ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس نظام نے عبادات کو نیا رنگ دیا ہے، سرمایہ درانہ رنگ۔ ٹی وی کے مذہبی پروگراموں کی بنیاد جب اچھی ریٹنگ سے مہنگے اشتہار ہوں گے تو ان میں ہونے والی گفتگو بھی اسی کی عکاس ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نطام اس لئے جنگ کراتا ہے کہ اس کا اسلحہ بکے تو یہ فکر مذہبی چینلز پر بیٹھے سادہ لوح علماء، تنخواہ کے طلب گار اینکرز اور اشتہارات کے بھوکے مالکان کو بھی متاثر کرتی ہے اور مسالک و مذاہب کو دست و گریباں کرکے یہ سمجھتی ہے کہ ہم نے اپنا منافع لے لیا، کوئی مرے یا جیئے، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔ اس وقت مشرق و مغرب میں بسنے والا انسان اس طاغوتی نظام کے شکنجے میں ہے، اس سے نکلنے کے لئے اجتماعی انسانی جدوجہد کی ضرورت ہے اور ایک عادلانہ نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے، جب تک ایسا نہیں ہوتا، ٹی وی چینلز پر یونہی اکھاڑے لگتے رہیں گے اور ہم یونہی باہم دست و گریباں رہیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply