دو بوری گندم۔۔ماہ پارہ عظیم

‘اوۓ شہباز اوۓ۔ اوۓ باہر نکل آ!چنگا کالج ڈالا ہے تجھے ! “ابا جی کی آواز نیند کے سبھی پردے  چھیدتی ہوئی مجھ تک پہنچ رہی تھی۔
‘نکے چوہدری جی، نکے چوہدری جی اٹھو، اٹھو'” روز کی طرح صبح وہی خانہ خراب ملنگی سامنے پاۓ کے ساتھ لگا نظر آیا۔
‘اوہو کی ہو گیا؟’ میں نے غصے سے پلٹ کےجواب دیا۔ ‘اوۓ باہر نکال اسے جلدی، نوراں ولیاں دا ویلا سو کر گزارتاہے ، آدھا دن چڑھ آیا’ ۔ابا جی کی دھاڑ کان پڑی تو آنکھیں  اور حواس ایک جھٹکے سے بیدار ہو گئے ۔
“او تیری خیر’…. ابا جی عرف مائی باپ……. .. میں جلدی سے الٹے سلیپر اڑستا ڈیوڑھی میں بھاگا۔
“چودھری حاجی فضل الٰہی کا منڈا ہو کر کونسے کوئلوں کی دکان میں منہ دے کے سویا کہ فجر کے لیئے بھی اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ کیوں پرکھوں کی قبر میں نار پھینکواتا بد بختا- ابا جی نے میری شکل دیکھتے ہی لتاڑنے کا آغاز کیا ۔ وہ تو بھلا ہو اماں کا جو بروقت کمک لے کر پہنچی تھیں۔ “بس رہن دیو وڈےچوہدری جی ،کیوں صبح صبح اس نمانے کو نہارمنہ گھسیٹ  رہےہو ، وہ بھی نوکروں کے سامنے۔ وے ملنگی ! چل جااور شکوراں سے بول پراٹھے پہ مکھن ڈالے نکے چوہدری کیلیے”۔ ملنگی بھاگتے بھاگتے جی اچھا کہہ کر غائب ہو گیا۔
سزا کے طور پہ ناشتے کے بعد میں ابا جی کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھا رہا  جہاں سارا دن مزارعے باری باری جھک کے سلام کرتے اور اپنے مسائل بتاتےجاتے  تھے ۔ ابا جی ایک ہاتھ میں تسبیح پکڑے منہ میں کچھ پڑھتے دانے گراتے جاتے اور انکے ڈھور ڈنگر، پانی کی باریوں اور چوری ٹھگی کے معاملے نپٹاتے جاتے۔ کوئی گاؤں والا ہمارے ڈیرے کے ملازم کی بیٹی کا مستری اصغر کے ساتھ ٹانکے کا ڈھول پیٹ رہا تھا۔ میں شروع سے ایسے معاملوں سےکنی کتراتا تھا تبھی ابا میرے شہر کے کالج میں پڑھنے کے اور بھی خلاف ہوتے۔ ابا کو مصروف پا کر میں نظر بچاتے حسب عادت وہاں سے کھسکا اور اندر دالان میں جا رکا۔ سامنے اماں تخت پہ بیٹھی تھیں اور باتونی صفیہ کی مدھم مدھم سرگوشیوں کو سنتی ،وہ صفیہ کی بھن بھن پہ سر جھکاۓ، سوئی سے موتی پروتی سرہلارہی تھیں  ۔  “بس نہ پوچھو وڈی بی بی جی، اپنی باپ کی عمر کے مستری ساتھ اڑی پھرتی’ہے کمبخت ، دیدہ ہوائی ہے پوری” ۔میں تخت پہ بیٹھا سنتا رہا ۔ چاۓ کی ٹرے درمیان میں رکھتی ملازمہ کی وجہ سے صفیہ کچھ دیر رکی، اسکے جاتے اماں نے ہولے سے پوچھا” یہ اپنے حویلی والی لڑکی تو نہیں؟“۔’ نہیں وڈی بی بی! ایہہ تے لالی ہے اوایس تو نکی اے، نیلی۔ اِسکا تو دل ہی چڑی جتنا  ہے ۔اتھری تے او ہی اے”
میں نے بے چینی سے نام دہرایا “لالی'”!۔ پورے گاؤں میں ایک ہی تو لالی تھی، سبز آنکھوں والی ۔ جس کے ساتھ میں اور باقی ہمجولیوں نے مولوی نور دین کی بکائنوں تلے کبھی چوری کیۓ آلوچے کھاۓ تو کبھی گچک اور کبھی کنچے کھیلے تو کبھی ہاتھ پکڑ کر ‘چاچا جلال خاں’ ۔
آلوچے اور گچکیں یاد کرتے اماں سے نظر بچاتے میں نے اسے آتے جاتے کئی بار ٹٹولا ۔ دھوپ میں جلتا رنگ، نظر سیدھی ٹکاۓ، ڈیرے اور مردانے کے مہمانوں کیلیے ٹرے اٹھا کر قلانچیں بھرتی لالی، جو آگے کو جھکتی تو کانوں کی جھومر  بالیاں  ہلکورے لینے لگتیں۔
پتہ نہیں اسے وہ سب یاد بھی ہے کہ نہیں۔ پر اسکی ہری ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر لالی نام اور بےڈھنگا سا لگتا۔ کسی دن مہمان خانے میں رستہ کھوٹا کرکے پوچھوں گا کہ یہ لالی نام کیوں، کوئی بھنڈی، کیری یاآلوچہ کیوں نہیں۔ میں نے کپ میں ہنسی  چھپاتے سوچا۔
رات کو ڈیرے پہ بلاناغہ میرے چچا زاد اور بڑے بھائیوں کی محفل سجتی تھی ۔ ایک طرف دھڑادھڑ کوئلہ ہوتی لکڑیاں اور ان پہ سیخ ہوتے کبابوں کی مہک ،  بیچ میں شکار ، شراب اور شباب کے لچھے دار قصے اور سانجھے گونجتے قہقہے رات دیر تک بلند ہوتے تھے ۔ میں اناڑی ہونے کے سبب اس ٹولے میں بطفیل لالہ مراد ‘ باؤیا بگاچوزہ’ کے نام سے چھیڑا جاتا۔
آج بھی تکے کی سیخوں کا رخ میری طرف مڑا ۔ ”او جانی تو تے قسمے نام ڈبویا ای، نہ کوئی دیسی نہ ولایتی۔ نہ کڑی نہ دارو ! ہاہاہا”۔ لالہ مراد فرار کی راہ روکتے لاڈ سے بازو میں شکنجہ ڈالتے بولا” بول بگے چوزے! تیرے لیئے کسی بلبل کاشکار کھیلیں“۔’او نہ نہ لالہ’۔ واصف نے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ “ویسے تو ادھر بھی پٹولے کم نہیں'” ۔ میری تصور میں دو آنکھیں لہرائیں  ، ‘کہیں لالہ کو شک نہ پڑ گیا ہو'” میں نے پانی ہوتے ہاتھوں سے ماتھا پونچھا۔
لالہ سجاد نے داہنی آنکھ مارتے راۓ دی اور قہقہہ چھوٹا۔ وہ مونچھوں کو بل دیتے اپنی کسی رنگین داستان کو تڑکا لگا رہاتھا۔ کباب ہوتے بکرے کے بعد اب میری باری تھی۔
‘جانی سو باتوں کی ایک بات’۔۔ ایک ہاتھ ہوامیں لہراتے بولا “جو مزا مانجھے کی ڈور  کے ساتھ گڈی چڑھانے کا ہے نا ہاۓ ہاۓ !کیا بات ہے یار! بندے کے ہاتھ کاٹ ڈالتی ہے ظالم مگر پھر بھی’۔ اوۓ ہوۓ !”  سب پیچھے لوٹ پوٹ ہوتےنشستوں پہ گرے۔ میری آنکھوں کے آگے حاجی فضل الٰہی کا ہاتھ اور اس میں چمڑے کا کھسہ ایک ساتھ لہرایا، میں نے بوتل  منہ سے لگائی اور ہری آنکھوں کا تصور پینے لگا۔
ڈیرے میں حقہ دھرتے  کالے نظر پڑی تو میں نے چپکے سے اسے ٹٹولا ”ہور کالیا! گھر بار مال پسو سب ٹھیک ہے نا؟“۔’ جی چوہدری جی! وڈے مالک دی مہربانی نال سب ودھیا! پچھلی فصل پہ اپنی دو لڑکیاں بھی بیاہ دیں ہیں ، ایک ادھر حویلی میں ہی کام کرتی ہے جی'”!” اچھا اچھا ،کوئی دانے پانی کا مسئلہ ہو  تو بتانا'” میں نے کہا اور وہ سلام ہو،  خیرہودہراتا چلم بھرتا رہا۔
اس دن میں حسب معمول اماں کے تخت پہ چاۓ  کے بہانے آ دھمکا، ادھر ادھر کی ہانکتے ہوئے میں نے چاۓ رکھتی لالی کی نظر اٹھنے کا انتظار کیا۔ وہ پیالی رکھتی لرزی ” ہاہ !تیرا بیڑا ترجاۓ نی ساری چائے گرا دی’۔اماں چاۓ تخت پہ گرنے سے واویلا کرنے لگیں اور وہ  گھبرا کر اندر سے کپڑا لانے کو تیزی سے بھاگی۔ اسکی پشت پہ مونچھوں کو بل دیتے میری نظر اچانک چیل جیسے گھورتے واصف پہ پڑی جو فون کان پہ لگاۓ اچانک باھر آیا تھا اور شاید بات ختم ہو گئی تھی ۔
‘”لاتا ہوں اندر سے پتہ نہیں کدھر مر گئی ہے …… ‘توبہ اللہ” ۔
حویلی کے اندر سے آتی کوئی ملازمہ جلدی میں مجھ سے ٹکراکر نیچے فرش پہ جا پڑی اور میں گھبرا کر دروازے سے جا لگا۔”چھناک”اماں کے گلابی شربت والے سیٹ کا ڈھیر اور ہری چنری فرش پر تھیں ۔ وہ تھر تھر کانپتی دونوں ٹانگیں سمیٹتی مجھے اور اس کانچ کو دیکھتی رہی ۔ میں نے چنری اٹھا کر اسکے پاس جھکتے ہوۓ بڑھائی ۔ سرخ، سبز، عنابی پچی کاری والی کھڑکیوں سے آس پاس انار طرح چھوٹتی روشنی اور اسکی حیرت سے پوری کھلی کچی انگور آنکھیں۔!
میں نے تھوڑااور جھک کر پاس ہوتےان میں جھانکا۔ ‘وہ لالی تھی یا ست رنگی۔ سرخ ،گلابی، سبز آتشی، عنابی ، وہ ان حسین جڑاو ست رنگی کترنوں جیسی ہی تو تھی جس پہ لمحے کے ہزارویں حصے میں یہ تمام رنگ قطار باندھے اترے تھے ‘۔میں دم سادھے دیکھتا رھا، سات رنگوں کی روشنی سے بنی، ست رنگی ۔ اِدھر سانس لینا مشکل تھا اُدھر نظر ڈالنا محال ۔ وہ چنری پہ جھپٹتی تیزی سے دہلیز پار کر گئی اور میں جس نے رستہ کھوٹا کرنے کا سوچا تھا، واپسی کی راہ ٹٹولتا رہا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شام سے ہوئی بارش کی ہلکی ٹھنڈ تھی اور اب آندھی میں دوہرے ہوتے توت اور بکائینوں  کا شور پھیلا تھا ۔ سارا گاؤں سر پہ لرزتی بجلی میں دبکا پڑاتھا ۔ اس رات تِکے لگاتے سجاد لالہ کے چھیڑنے پہ میں نے تلملا کرٹھونک کر دیسی چڑھائی ۔ ”میں کہتا تھا نہ ایسے ہی تو اپنا باؤ.غٹ غٹ غٹ… نیچے کیاریوں میں منہ دے کے نہیں ہنستا، ہاہاہا”۔ایک نے کندھا دباتے کہا ‘”و بتا اب پنڈ والیوں کے بعد شہر کے بھی درشن ہو جائیں ؟اوۓ پنڈ والی؟ ایک چونکا ۔ ‘او بتا اوۓ واصف! …’ہاں وہ پنے کالے کی بیٹی لالی شالی !’ہریاں اکھاں والی’۔! ‘ اے لے اک ہور’ !” لالہ سجاد نے میرے منہ سے بوتل لگاتے کان میں کچھ کہا۔ زمین گھوم رہی تھی !مال برآمد، مہمان خانہ !میں نے گرتے پڑتے مہمان خانے میں پاؤں  رکھا وہاں اندھیرے میں  کوئی تھا اور  پیچھے دور کہیں قہقہے اور چٹختی لکڑیوں کی گونج تھی،۔ سامنے لالی ہاتھ پاؤں بندھی پڑی سسک رہی تھی۔ میں جھک کر اس کی رسیاں کھولنے لگا۔ ”چودھری جی مجھے بچا لو . وہ مجھے… یہاں… وہ جی …” میں نے اندھیرے میں پوروں سے چھو کر دیکھا ، وہ لالی ہی تھی۔ ‘ایک سانس میں چڑھا جا پیارے ‘ کوئی کان میں ہنسا تھااور میں ایک سانس میں ہرا  رس پینے لگا۔
دھپ دھپ دھپ….. کوٸی دروازہ پیٹ رہاتھا۔ تہجد تھی کہ فجر میں نے بند آنکھوں سے اندازہ لگاتے دروازہ کھولا ۔سامنے کالا تھا۔
‘وہ چوہدری جی !آج بارش کی وجہ سے دیر ہو گئی  لالی کو ! گندم لانے رک گئی تھی “۔۔۔۔ اندر سے چوکڑی بھر کے نکلتی لالی کالے کے پیچھے جا چھپی۔ ‘ہاں!لے جا کب سے انتظار کررہی تھی” میں تھوڑا جھینپا۔ “وہ جی آپ برا نہ مانیں تو”…. کالے نے میرے بازو کے پیچھے سے نظر آتے چنری کے سرے کی طرف اشارہ کیا۔ ”ہاں یہ بھی“….. میں نے گھبرا کر فیاضی دکھائی ۔ ” سلام ہو  جی”!باپ بیٹی دونوں جلدی سے بڑے دروازے کو لپکے تھے۔
اگلے چار دن میں ڈیوڑھی سے مہمان خانے، دالان سے ڈیرے اور واپس تخت سے ڈیوڑھی کے چکر کاٹتا بھنبیری بنا رہا پر نہ اس سل ہوتے دل نے سانس لینے دیا نہ لالی نظر آئی ۔  پانچویں دن بھی یونہی چکر کاٹتے میں مہمان خانے کی دہلیز پہ پڑی بالی اٹھاۓ ست رنگی کھڑکیوں کے آگے جا کھڑاہوا۔ آج روشنی ٹاویں ٹاویں سی تھی۔ “وہ ایک بار مل جاۓ، اسے بتانا تھا… میں اس دن اسے…. چھڑانے کو… بس ایک بار… مم میں لالہ جیسا نہیں… میں اسے ملنے کو…. ایک بار دکھ جاۓ بس وہ”۔ اسے آنکھوں سے لگاۓ میں ہچکیوں سے رو دیا۔ دو دن بعد جب صبر دامن چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا تو میں نے جیپ کا رخ کچے کی جانب  موڑ دیا۔ میں نے جیپ سڑک سے ذرا دور اصطبل کے پاس کھڑی کی تاکہ شک کی گنجاٸش نہ رہے۔
ادھ جڑے لکڑی اور ٹین کے دروازے کی کنڈی بجائی  تو کالا ‘سلام ہو چھوٹے مالک ،خیر ہو”کرتا باہر آگیا۔ ”چھوٹے مالک“ اندر کا چور بدکا۔ ‘اور سنا کالے سب ٹھیک ہے؟ گھروالے مال پسو’۔ ‘جی چھوٹے مالک! سب ودھیا!
“وہ اماں کہہ رہی تھی… مطلب کام کا حرج ہو رہا ہے حویلی میں ۔ وہ لالی کیسی…. ابھی تک”……
‘چھوٹے مالک ابھی تو وہ حال سے چنگی نہیں جی’ اس نے  دونوں ھاتھ جوڑتے  ہوئے کہا۔
“رات ہی تو وڈے مالک کے پاس سے آئی تھی جیپ میں اور ساتھ دو بوری گندم تھی جی۔ پر آپکو اعتراض نہ ہو تو جی میں نیلی کو”………..
مجھے لگا ست رنگی شیشوں کا سارا چورا کسی نے میری آنکھوں میں جھونک دیا۔ میں نے مٹھیوں سے آنکھیں بھینچ لیں اور کالے کو جواب دئیے بغیر میں جیپ کی جانب بھاگنے لگا۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دو بوری گندم۔۔ماہ پارہ عظیم

Leave a Reply to سعید ابراہیم Cancel reply