ہم جیسے ابلیس نواز اور گنہگار لوگوں کے ذہن میں رمضان کا سنتے ہی جو چیز پہلے ذہن میں آتی ہے وہ افطاری ہے۔ اور افطاری کے دستر خان پر جو پکوان سب سے پہلے دوڑ کے آتا ہے, ہم اسے پکوڑے کہتے ہیں۔ اگر آپ رمضان کو رامادھان کہتے ہیں تو پکوڑوں کو بکوڑے بھی کہہ سکتے ہیں۔
ویسے تو یہ آخری عشرہ ہے مگر اس پکوان کی قدر میں رتی برابر کمی نہیں آئی۔ جس طرح رامادھان کہنے سے اس بابرکت مہینے کے رحمت اور برکت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اس طرح پکوڑوں کے ذائقے یا افطاری میں دستر خوان پر ان کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو رمضان کا برانڈ ایمبیسڈر پکوان ہے اور کسی نے اس کے لیے ہی کہا تھا، “اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، پکوڑے نہیں۔”
مگر ہم کنواروں کے درد کو بھلا کوئی کیا سمجھے گا ؟کیونکہ ہم ٹھنڈے پکوڑے کھا کھا کر تنگ آ چکے ہیں۔ اب تو ہماری پکوڑوں کے لیے چاہت بھی کم ہوتی نظر آتی ہے۔ کب تک ٹھنڈے اور کنوارے پکوڑے ہمارے نصیب میں رہیں گے۔ آخر کو ہمارے بھی جذبات ہیں ۔ پکوڑے ہمارے بھی ہیں۔ “ہمارے پکوڑے، ہماری مرضی” بھی ہو سکتی ہے۔اور ہاں ہم پکوڑے ٹھنڈے بھی نہیں کھائیں گے اور خود گرم بھی نہیں کریں گے۔ اب تو ہمیں پکوڑوں کے ساتھ پکوڑے بنانے والی بھی چاہئیے جو بات بات پر یہ نہ کہے کہ “اپنے پکوڑے خود گرم کر لو۔” وہ پکوڑے بنائے تو ایسے ہوں جیسے کوئی خالق کسی وجود کو تخلیق کرتا ہے۔
کیا آپ نے افطاری کے امام الپکوان کو کلام کرتے دیکھا ہے۔؟ جی میں نے دیکھا ہے۔ اگر وہ اس طریقے سے بنائے جائیں جو میری چاہت ہے کہ کوئی ایسے پکوڑے میرے لئے بنائے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہوں۔ ویسے میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے مگر آپ اس کنوارے انسان کی سن لیں جسکی گھر میں کوئی نہیں سنتا۔ مجھے اپنی مرضی کی ریسیپی پسند ہے۔ میں صنف نازک نہ سہی مگر مزاج تو نازک رکھ سکتا ہوں۔ میں بھی ایک نعرہ مستانہ بلند کر سکتا ہوں۔ “کنواروں کے پکوڑے، کنواروں کی مرضی۔”
کوئی تو ایسی ترتیب دے کہ محبت کے پیدا شدہ ابال سے تیل میں حدت پیدا کرے۔ بیسن کو ایسے گوندھے کہ جس طرح ٹیکسلہ کے عجائب گھر میں بدھا کے مجسمے کی بولتی آنکھیں گوندھ کر بنائی گئی ہیں۔ کوئی ہری مرچیں اس طرح سے کاٹ کے ڈالے جس طرح میرے کنوارے ارمان کسی دو شیزہ کے ساتھ پیار بھری باتیں کرتے کسی ہٹے کٹے انسان کو دیکھ کر کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
اور آلو، جی ہاں آلو جو کہ ہم غریبوں کے سالن میں اس طرح سے براجمان ہوتے ہیں جس طرح ہماری جمہوریت میں ڈکٹیٹر شپ۔ اگر کسی دن وہ سالن میں نہ ڈالے جائیں تو وہ خود ہی بھاگ کر آجاتے ہیں اور اپنے گن گنوانے لگتے ہیں۔اور کچھ منہ چڑھے آلو تو پوچھ بیٹھتے ہیں کہ”سوہینئوِ کوئی ناراضگی تے نئیں؟”
وہی آلو اس طرح سے تراش کر ڈالیں جائیں کہ جس طرح سے کسی نازنیں کی پیشانی پرترتیب سے تراشی پہرہ دیتی زلفیں جن کا سایہ رخساروں پر موجود رہے۔ جس طرح سے ہماری ناکام حسرتیں دل میں خیمہ زن ہیں۔ نمک کی مقدار اتنی متوازن ہو کہ وہ اس میں موجود بھی ہو مگر احساس نہ ہو جیسے خاموشی کی زباں ویسے نمک کی مقدار۔ اور بیکنگ سوڈا ڈال کر پکوڑوں کو اس قدر خستہ کر دیا جائے کہ اسکا ابھار ایک خاص زاویہ پر موجود رہے۔ ابلتے تیل میں نرم ونازک ہاتھ کھنکتی چوڑیوں کے شور میں آمیزے کو ڈالیں تو ایک ایسی خوشبو کا گماں ہو جیسے کوئی بستر عروسی پر حنا اور پھولوں کی خوشبو کو یک جان کر دے۔
تیل اور آمیزے کے ملاپ سے اٹھنے والی آواز ایسے جیسے دو دھڑکتے دل، جن کی آواز سانسوں کی آواز میں دب کے رہ جائے۔ پکوڑوں کا رنگ ایسا ہو جیسے شب عروسی کے بعد کسی دو شیزہ کے شرماتے چہرے کا رنگ اور کوئی نازنیں نینوں سے نین ملاتے اس طرح گرم پکوڑے ہمارے ہاتھوں پر دھر دے کہ آنکھوں کی حدت پکوڑوں کی تپش پرغالب آجائے اور جنت کا ذائقہ ہم اپنی زبان پر محسوس کرتے اپنے آپ میں فنا ہو جائیں۔ مگر پھر وہی بات ہماری کوئی کہاں سنتا ہے۔ ہم ٹھہرے صنف کرخت ہم کیا ہماری مرضی کیا اس لئے ہم حقیقی دنیا میں واپس آ کراپنے ٹھنڈے ارمانوں کی طرح ٹھنڈے پکوڑے خود گرم کر لیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں