• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ایسے ہی کسی دن۔۔گیبریل گارسیا مارکیز / لاطینی امریکی کہانی۔۔ترجمہ عامر صدیقی

ایسے ہی کسی دن۔۔گیبریل گارسیا مارکیز / لاطینی امریکی کہانی۔۔ترجمہ عامر صدیقی

اس پیر کی صبح، گرم اور بنا بارش کے نمودار ہوئی۔ صبح سویرے جاگنے والے او لیور ایسکوار نے، جو دانتوں کا ایک بغیر ڈگری والا ڈاکٹر تھا، اپنا کلینک چھ بجے ہی کھول دیا۔ اس نے شیشے کی الماری سے نقلی دانت نکالے، جو اب بھی بھربھری مٹی کے سانچے میں جڑے ہوئے تھے، اورپھر مٹھی بھر اوزاروں کو، ان کے سائز کے حساب سے میز پر یوں سجا کے رکھا، جیسے ان کی نمائش کی جا رہی ہو۔ اس نے بغیر کالر والی ایک دھاری دار قمیض پہن رکھی تھی، جس کے بند گلے پر سنہری بٹن تھا اور اس کی پتلون گیل لس سے بندھی ہوئی تھی۔ وہ دبلا پتلا سا انسان تھا، جس کی نگاہ کبھی کبھار ہی حالات کے مطابق ہو پاتی تھی، جیسا کہ بہرے لوگوں کی نگاہوں کے معاملے میں ہوتا ہے۔
اوزاروں کو میز پر ترتیب دینے کے بعد، وہ ڈرل کو کرسی کے پاس کھینچ لایا اور نقلی دانتوں کو چمکانے بیٹھ گیا۔ وہ اپنے کام کے بارے میں دھیان دیتا، دکھائی نہیں دے رہا تھا، بلکہ ڈرل کو اپنے پاؤں کی مدد سے چلاتے ہوئے، وہ مسلسل اسے چلائے جا رہا تھا،اس وقت بھی جبکہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

آٹھ بجے کے بعد کھڑکی سے آسمان کو دیکھنے کے ارادے سے، وہ تھوڑی دیر کے لئے رکا اور اس نے دیکھا کہ دو وچار بے فکرے ،پاس کے مکان کے شہتیر پر دھوپ سینک رہے تھے۔ وہ اس خیال کے ساتھ دوبارہ کام میں لگ گیا کہ دوپہر کے کھانے سے پہلے دوبارہ بارش ہوگی۔پھر اچانک اپنے گیارہ سالہ بیٹے کی تیز آواز سے اس کادھیان بھٹکا۔
”پاپا۔”
”کیا ہے؟”
”میئر پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ ان کا دانت نکال دیں گے۔”
”اسکو بتا دو کہ میں یہاں نہیں ہوں۔”
وہ ایک سونے کا دانت چمکا رہا تھا۔ ہاتھ بھر کی دوری پر لے جاکر اس نے آنکھیں بھینچ کر دانت کوپرکھا۔ مختصرسے ویٹنگ روم سے پھر اس کا بیٹا چلایا۔
”وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ یہیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ آپ کی آواز سن سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے دانت کی جانچ پڑتال جاری رکھی۔ پھراس دانت کو میز پر چمکائے جا چکے باقی دانتوں کے ساتھ رکھنے کے بعد ہی وہ بولا ”اچھا ہے،سننے دو اسے۔”

وہ پھر سے ڈرل چلانے لگا۔ اس نے گتے کے ڈبے سے، جس میں وہ ایسی چیزیں رکھتا تھا ،جن پر کام کرنا ابھی باقی ہوتاتھا، کچھ مزید دانت نکالے اور اسکے سونے کو چمکانے میں لگ گیا۔
”پاپا۔”
”کیا ہے؟”
اس نے اب بھی اپنا انداز نہیں بدلا تھا۔
”وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ ان کا دانت نہیں نکالیں گے، تو وہ آپ کو گولی مار دیں گے۔”
بغیر کسی گھبراہٹ کے ، بہت ہی مستحکم رفتار سے اس نے ڈرل کو پیڈل مارنا بند کیا، اسے کرسی سے پرے دھکیلا اور میز کی نچلی دراز کو کھینچ کراسے پورا باہر نکالا۔ اس میں ایک ریوالور پڑا تھا۔
”ٹھیک ہے” اس نے کہا۔
”اس سے کہو کہ آکر مجھے گولی مار دے۔”
اس نے کرسی گھما کر دروازے کے سامنے کر لی، اس کا ہاتھ دراز کے سرے پر ٹکا ہوا تھا۔ میئر دروازے پر نظر آیا۔ اس نے اپنے چہرے کے بائیں طرف تو شیو بنائی ہوئی تھی، لیکن دوسری طرف، سوجن اور درد کی وجہ سے پانچ دن کی بڑھی ہوئی شیو موجود تھی۔ ڈاکٹر نے اس کی مایوس آنکھوں میں کئی راتوں کی ناامیدی دیکھی۔ اس نے اپنی انگلی کے پوروں سے دراز کو بند کرکے آہستہ سے کہا۔
”بیٹھ جاؤ۔”
”گڈ مارننگ” میئر نے کہا۔
”مارننگ ” اس نے جواب دیا۔
جس دوران اوزار ابل رہے تھے، میئر نے اپنا سر کرسی کے سرہانے پر ٹکا دیا اور کچھ بہتر سا محسوس کرنے لگا۔ اس کی سانسیں سرد تھیں۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا کلینک تھا۔ ایک پرانی لکڑی کی کرسی، پاؤں سے چلنے والی ایک ڈرل، مٹی کی شیشیوں سے بھری ایک شیشے کی الماری۔ کرسی کے سامنے ایک کھڑکی تھی جس پر کندھوں کی اونچائی تک کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ جب اس نے دانتوں کے ڈاکٹرکو آتا ہوا محسوس کیا، تو اس نے اپنی ایڑی کو زمین میں گڑا کر اپنے منہ کو کھول دیا۔
او لیور ایسکوار نے اپنا سر روشنی کی سمت میں گھما لیا۔ متاثرہ دانت کے معائنے کے بعد اس نے نرم انگلیوں کے دباؤ سے میئر کا جبڑا بند کر دیا۔
”یہ کام بنا دیر کئے بغیر ہی کرنا پڑے گا” اس نے کہا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ اندر ایک زخم ہے۔”
میئر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ”ٹھیک ہے” اس نے کہا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر جواب میں نہیں مسکرایا۔

اب بھی بغیر کسی عجلت کے وہ  اس عمل میں درکار بنیادی اوزاروں کو  کام کرنے کی میز تک لے آیا اور ان کو ایک ٹھنڈی چمٹی کی مدد سے پانی سے باہر نکالا۔ پھر اس نے پیکدان کو جوتے کی نوک سے دھکیلا اور واش بیسن میں ہاتھ دھونے کے لئے گیا۔ یہ سب اس نے میئر کی طرف دیکھے بغیر ہی کیا۔ لیکن میئر نے اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹائیں۔

زخم عقل داڑھ کے نچلے حصے میں تھا۔ ڈاکٹر نے اپنے پاؤں پھیلا کر گرم پلاس سے دانت کو پکڑ لیا۔ میئر نے کرسی کے ہتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا، اپنی پوری طاقت سے پیروں کو سخت کر لیا اور اپنے گردوں میں ایک برفیلا خالی پن محسوس کیا ،مگر کوئی آواز نہیں نکالی۔ڈاکٹر نے صرف اپنی کلائی کو حرکت دی۔ بغیر کسی سمجھوتے کے، بلکہ ایک تلخ نرمی کے ساتھ، اس نے کہا۔
”اب تم ہمارے بیس مارے گئے لوگوں کی قیمت ادا کرو گے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

میئر نے اپنے جبڑے میں ہڈیوں کی چرمراہٹ محسوس کی، اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ لیکن اس نے اس وقت تک سانس نہیں لی، جب تک کہ اسے دانت نکلنے کا احساس نہ ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے آنسوؤں کے درمیان سے اسے دیکھا۔ اس کے درد کی وجہ سے وہ اتنا پرایا نظر آ رہا تھا کہ وہ اپنی پچھلی پانچ راتوں کا تشدد سمجھنے میں ناکام رہا۔
پیکدان پر جھکے، پسینے سے تر، ہانپتے ہوئے اس نے اپنی جیکٹ کے بٹن کھولے اور پتلون کی جیب سے رومال نکا لنا چاہا۔ ڈاکٹر نے اسے ایک صاف کپڑا دیا۔
”اپنے آنسو پونچھ لو” اس نے کہا۔
میئر نے ایسا ہی کیا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ جب ڈاکٹراپنے ہاتھ دھو رہا تھا، اس نے ٹوٹی پھوٹی چھت اور دھول سے اٹے، مکڑی کے انڈوں اور مردہ کیڑے مکوڑوں سے بھرے مکڑی کے جالوں کی طرف دیکھا۔ اپنے ہاتھ پونچھتے ہوئے ڈاکٹر واپس لوٹا۔
”جاکر سو جاؤ” اس نے کہا ”اور نمک کے پانی سے غرارہ کر لینا۔”
میئر اٹھ کھڑا ہوا اور ایک غیر رسمی فوجی سلامی کے ساتھ رخصت لے کر، جیکٹ کے  بٹن بند کئے بغیر ہی، اپنے پاؤں پھیلاتے، دروازے کی طرف بڑھ چلا۔
”بل بھیج دینا” اس نے کہا۔
” تمہیں یا شہر کے نام؟”
میئر نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پیچھے سے کہا۔
”ایک ہی بات ہے۔”

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ایسے ہی کسی دن۔۔گیبریل گارسیا مارکیز / لاطینی امریکی کہانی۔۔ترجمہ عامر صدیقی

Leave a Reply to rubina faisal Cancel reply