• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عارضی نکاح: “پرانی شراب اور وہ بھی پرانی بوتل میں ہی!”…..محمد مشتاق

عارضی نکاح: “پرانی شراب اور وہ بھی پرانی بوتل میں ہی!”…..محمد مشتاق

برادر محترم جناب عمار خان ناصر صاحب نے عارضی نکاح کے مسئلے پر مسلسل کئی پوسٹس لکھی ہیں۔ کئی احباب اس پر میری راے چاہتے ہیں۔ مختصراً عرض یہ ہے کہ انھوں نے کوئی نیا کٹا نہیں کھولا۔ وہ بحث جو چودہ صدیوں سے چلی آرہی ہے، اسی میں سے ایک راے چن کر آپ کے سامنے رکھی ہے۔ نہ ہی اس میں کوئی نئی دلیل ہے، نہ ہی کوئی نیا دعوی۔ اس میں کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جس کے جواب میں تفصیلی تردید نہ کی گئی ہو۔ پھر اس تفصیلی تردید میں بھی کوئی ایسی بات نہیں جس کے جواب میں اس موقف کے قائلین نے اپنی جانب سے جواب دینے کی کوشش نہ کی ہو۔ اس بحث کے ہر فریق کی ہر دلیل پر دوسری جانب سے کوئی تردیدیا تاویل موجود ہے۔ اس سارے مواد کا جائزہ لے چکنے کے بعد ہر فریق نے اپنے اپنے اصولی نظام کے مطابق جس موقف کو صحیح سمجھا ہے اسے اختیار کیا ہے اور دوسرے موقف/مواقف کے دلائل کی تردید یا تاویل کی ہے۔ عمار صاحب کی تحاریر میں کوئی ایک بھی دلیل مجھے ایسی نہیں مل سکی جو نئی ہو ۔ اس لیے مجھے اس مخصوص مسئلے پر ان کے موقف کے بجاے ان کے “تجدید” کے پروجیکٹ کی فکر پڑ گئی ہے۔ اگر تجدید اسی کا نام ہے کہ پرانی بوتل میں پرانی ہی شراب پیش کی جائے تو صرف جدید لیبل لگانے سے اسے جدید کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
ہمارے استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کا کہنا ہے کہ فقہاے کرام نے نصوص کی تعبیر (جسے اصول فقہ کی اصطلاح میں “بیان” کہا جاتا ہے) میں جو مواقف اختیار کیے ہیں، ان میں کوئی نیا موقف اختیار کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے؛ بالعموم آپ کو پہلے سے موجود مواقف میں ہی کوئی موقف اختیار کرنا پڑتا ہے اور پھر اس موقف کے بظاہر خلاف جانے والے دلائل کی تاویل یا تردید کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ، اور یہ سارا کچھ پہلے ہی بارہا ہوا ہے۔ اسی طرح نصوص میں مذکور احکام کو “قیاس” کے ذریعے نئے مسائل تک وسعت دینے کا کام بھی فقہاے کرام نے اس تفصیل اور مہارت سے کیا ہے کہ پہلے ہی سے موجود مواقف میں کوئی ایک موقف اختیار کرنے کے سوا گنجائش بہت ہی کم رہتی ہے۔ نیازی صاحب کا موقف ہے کہ بیان اور قیاس کے بعد کا جو مرحلہ ہے، یعنی شریعت کے قواعدِ عامہ کے ذریعے نئے مسائل کا حکم تلاش کرنا ، یہی کرنے کا اصل کام ہے لیکن ہمارے دور میں تجدیداور اجتہاد کے نام پر اٹھایا جانے والا سارا غلغلہ صرف نصوص کی “تعبیرِ نو” تک ہی محدود رہ گیا ہے اور اس وجہ سے ساری کاوش محض ایک futile exercise بن کے رہ گئی ہے۔
یہی مسئلہ ہم “تجدید” ، “تجدد” ، “اجتہاد” اور “ریفارمیشن” کے قائلین کے سامنے اکثر رکھتے رہتے ہیں۔ ایک واقعے کا ذکر غالباً نامناسب نہیں ہوگا۔
2013ء میں نیازی صاحب نے مجھے کہا کہ ایک صاحب کی خواہش ہے کہ پاکستان میں دینی مسائل پر جو مباحثہ ہورہا ہے اسے فقہی مباحثے کے بجاے اصولی مباحثے کی صورت دی جائے اور اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جو اہم اصولی مناہج پائے جاتے ہیں ان کے علم برداروں کے درمیان ایک مکالمہ کرایا جائے۔ چنانچہ انھوں نے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ اہلِ علم کے علاوہ غامدی صاحب کے حلقے سے اور نیازی صاحب کے شاگردوں میں سے کسی کو چننے کا ارادہ کیا۔ یہ محفل دسمبر 2013ء میں مریدکے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ریسٹ ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ غامدی صاحب کے حلقے سے جناب ساجد حمید صاحب نے شرکت کی اور جناب آصف افتخار صاحب نے بیرون ملک موجودگی کی وجہ سے سکائپ پر شرکت کی ۔ نیازی صاحب کے شاگردوں میں سے راقم، احمد خالد حاتم اور پیر خضر حیات نے شرکت کی ۔ دیگر اہلِ علم میں مفتی محمد زاہد صاحب، مفتی ابراہیم قادری ، مفتی فیصل جاپان والا وغیرہ شامل تھے۔ ممتاز اہلِ علم جناب ڈاکٹر خالد مسعود صاحب اور ڈاکٹر محسن نقوی صاحب کو پروگرام موڈریٹ کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ (دوستوں سے از راہِ تفنن میں کہا کرتا تھا کہ خالد مسعود صاحب کو سنیوں کے محسن نقوی اور محسن نقوی صاحب کو شیعوں کے خالد مسعود سمجھ لیجیے۔)
خالد مسعود صاحب اور محسن نقوی صاحب اس راے کے قائل تھے کہ نئے اصول فقہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ غامدی صاحب کا حلقہ بھی اسی کا قائل تھا۔ نیازی صاحب کے مکتبِ فکر کی راے یہ تھی کہ نئے اصول فقہ کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ پہلے سے موجود اصولوں پر نئے مسائل کی تخریج کرکے نہ صرف بہترین حل پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ حل پہلے سے موجود قانونی نظام کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ سے بہ آسانی قابلِ تنفیذ بھی ہوگا۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ کوئی نیا اصول بنانے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہوگا کہ وہ پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ ہم آہنگی (compatibility) کا ٹسٹ پاس کرسکے۔ مزید یہ کہا کہ کوئی نیا مکتبِ فکر بنانے (یعنی اجتہادِ مطلق) سے بھی ہم کسی کو نہیں روکتے لیکن مولانا مودودی کے الفاظ میں یہ دعوے کا نہیں کردکھانے کا کام ہے۔ اس لیے ادھر ادھر سے اصول اور جزئیات اکٹھی کرکے اور کہیں دیگر نظام ہاے قوانین سے تصورات اٹھا کر اکٹھا کرنے سے اچار تو بن سکتا ہے لیکن اسے قانونی نظام یا فقہی مذہب نہیں کہا جاسکتا۔ یہ بھی ہم نے واضح کیا کہ نئے فقہی مذہب یا مکتبِ فکر کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں ؛ قطرے کے گہر بننے تک یا زلف کے سر ہونے تک کئی مراحل ہوتے ہیں جو نہایت صبر آزما ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہم نے اس طرف توجہ دلائی کہ صرف اتمامِ حجت کے اصول کو ہی دیکھیے کہ مولانا فراہی سے مولانا اصلاحی، مولانا اصلاحی سے جناب غامدی اور پھر جناب غامدی سے چوتھی نسل تک جاتے جاتے اس کی کیا صورت بن گئی ہے!
ایک دن کے مباحثے کے بعد معلوم ہوا کہ کوئی تیسرا موقف نہیں بلکہ مباحثے کے شرکا انھی دو میں سے کسی ایک موقف کو اختیار کررہے ہیں۔ بلکہ زیادہ صراحت سے کہنے دیں تو سواے مفتی ابراہیم قادری صاحب کے، باقی سارے لوگ بھی لائن کراس کرکے دوسری طرف ہوگئے تھے اور اس مباحثے نے Us versus Them کی صورت اختیار کرلی تھی۔
پروگرام کے اختتام پر میں نے عرض کیا کہ اگر اس مباحثے کو اگلے مرحلے تک لے جانے کا ارادہ ہے تو بجاے اس کے کہ ہم ان مسائل پر گفتگو کریں جو نصوص میں مذکور ہیں اور پھر نصوص کی “تعبیرِ نو” کی ضرورت یا عدم ضرورت پر مباحثۃ کریں، مناسب یہ ہوگا کہ کسی ایسے موضوع کا انتخاب کیا جائے جو نصوص میں مذکور نہ ہو، جو ان امور میں ہو جہاں غامدی صاحب کے الفاظ میں “شریعت خاموش ہو”، اور پھر دکھایا جائے کہ ہمارے منہج پر اس مسئلے کا حل کیا نکلتا ہے اور “نئے اصولوں” کے علم برداروں کے منہج پر کیا موقف سامنے آتا ہے؟
چند مہینوں کے بعد اس مباحثے کے شرکا میں سے چیدہ لوگوں کو (اور کچھ نئے لوگوں کو جن میں عمار صاحب بھی تھے) اسلام آباد میں دوسری نشست کےلیے بلایا گیا ۔ ایک دن کے مباحثے کے اختتام پر میں نے کہا پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو وہی باتیں ہیں جن پر ہم پچھلی دفعہ تفصیل سے اپنا اپنا موقف بیان کرچکے ہیں۔ اس لیے دائرے میں سفر کے بجاے بہتر یہ ہوگا کہ ہم اپنے اپنے منہج پر ہی چلتے رہیں۔ پروگرام کے منتظمین نے بہت کوشش کی کہ تیسرے مرحلے میں بھی میں شرکت کرسکوں لیکن میں نے معذرت کرلی ۔
تو ، دوستو، عارضی نکاح کے بجاے اس سے کہیں بڑے مسئلے پر توجہ کیجیے: “نئے اصول فقہ کی تشکیل” ، “نئے فقہی مذہب کی تشکیل” ۔ پرانی بوتل میں پرانی شراب ہی دینے سے کیا فائدہ؟ لیبل تبدیل کرنے سے وہ نئی تو نہیں ہوجائے گی۔ مولانا مودودی کے الفاظ یاد کیجیے: تجدید دعوے کا نہیں، کردکھانے کا کام ہے۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply