تماشائی۔۔مرزا مدثر نواز

ایک مرد بزرگ کسی امیر کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ وہ اپنے غلام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے سزا دے رہا ہے ۔ بزرگ نے اس امیر کی اس حرکت پر اسے ٹوکا اور اسے منع کر دیا کہ وہ اس غلام پر اتنا ظلم و ستم نہ کرے۔ “اسے تو نے دس درہم کے عوض  خریدا ہے اپنی قدرت سے تو غلام نہیں بنایا نہ اللہ نے اسے غلام پیدا کیا۔ یاد رکھو اللہ حاکموں کا حاکم ہے اس کے قہر سے ڈر”۔ مرد بزرگ نے اپنی نصیحت کو جاری رکھتے ہوئے اس میر سے کہا”اے امیر شخص! یہ غلام جو تیری خدمت کرتا ہے ،تیرا تابع فرمان ہے ،اس پر حد سے بڑھ کر سختی کرنے اور جانوروں کی طرح اس سے کام لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔ قیامت کے روز سے ڈر کہ جس روز تیرا غلام آزاد کھڑا ہوگا اور تو جو یہاں اس کا آقا ہے اس روز زنجیروں میں جھکڑا ہو گا۔(حکایتِ سعدیؒ )”
مقصد حکایت یہ ہے کہ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کو دیکھ کر تماشائی نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کے دفع کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن و حدیث میں متعدد بار اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
(ترجمہ:) “تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران،۱۱۰)”
ایک مشہور حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو، اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتے تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ معاشرے میں رائج جاہلانہ رسم و رواج، ظلم و زیادتی، ناانصافی اور دوسری سماجی برائیوں کے خلاف کوشش جہادِ عظیم ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حق کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ داعی حق پر مشکلات کے پہاڑ نہ ٹوٹیں، اس کو ستم و آزار نہ سہنے پڑیں،مصیبتیں نہ جھیلنی پڑیں۔ دنیا میں ہی جنت کی بشارتیں اور اللہ کی رضا مفت میں نہیں ملتی۔مولانا مودودی ؒ نے اس طرح فرمایا “کہ کلمہ حق کہنے پر اگر آپ کو پتھر نہیں پڑتے تو آپ کو اپنے کلمے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔” پریشانی و تکلیف کا سوچ کر ہی ہم ظلم و زیادتی کے معاملے پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ فلاں کا اپنا مسئلہ ہے ہمیں خواہ مخواہ کی مصیبت مول لینے کی کیا ضرورت ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کل یہی آگ ہمارے گھر تک بھی پہہنچ سکتی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول مبارکہ ہے کہ ظلم کے معاملے پر غیر جانبداری ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
واقعہ افک میں جب منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیھما پر بہتان لگایا اور اس کے رد میں جب سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں تو اس میں مومن مردوں اور عورتوں کی خاموشی کے بارے میں بھی یہ کہا گیا کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اس طرح نہیں ہو سکتا؟  (ترجمہ: ) “اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔ (سورہ نور، ۱۲)”
پبلک ٹرانسپورٹ پر کالج جاتے ہوئے یہ عام مشاہدہ تھا کہ کچھ آوارہ لڑکے کالج جاتی ہوئی لڑکیوں کو حد سے زیادہ تنگ کرتے تھے اور انتہائی فحش کلمات بھی ان کی زبان سے جاری ہوتے تھے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کھچا کھچ بھری بس میں کسی کو یہ توفیق ہو کہ وہ انہیں ٹوکے کیونکہ ستائی جانے والی لڑکیاں ان کی اپنی بیٹیاں نہیں تھیں‘ پوری بس کے مسافر خاموش بیٹھ کر تماشائی کا کردار ادا کرتے تھے ۔ اگر کسی بھی پبلک مقام پر کوئی کسی خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرے تو قریب کھڑے خاموش لوگ تماشائی ہوتے ہیں‘ کسی کو حادثہ پیش آ جائے یا خدا نخواستہ گولی لگ جائے تو اس کے گرد دائرہ میں کھڑے لوگ تماشائی ہوتے ہیں‘پبلک مقامات پر سگریٹ پینے والوں کو نہ ٹوکنے والے تماشائی ہو تے ہیں، دو آدمی اگر ہاتھا پائی کر رہے ہوں تو ان کے گرد اکٹھا ہونے والا مجمع تماشائی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو آگے بڑھ کر بیچ بچاؤ کرواتے ہیں۔
شام میں ۲۰۱۱ سے جاری شورش میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس طویل جنگ کی وجہ سے لوگ گھاس اور کتے بلیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہیں۔ بچے غذائیت کی کمی کا شکا ر ہیں اور ان کے فاقہ زدہ جسموں کو دیکھا نہیں جا سکتا لیکن بادشاہت کسی صورت پسپا ہونے کو تیا ر نہیں۔ عالمی ،بشمول اسلامی دنیا کا ضمیر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے اور کسی کو بھی ان لوگوں کی تکالیف کا احساس نہیں۔ انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے اور تمام دنیا انہیں مارنے اور مرتا دیکھنے کے لیے تماشائی بنی ہوئی ہے۔شاید دوسروں کے مصائب کا احساس کرنے والا جذبہ ختم ہو رہا ہے اور سب سے پہلے اپنی جان کا نعرہ تقویت حاصل کر رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے جنگ میں شامل ہیں اور کوئی بھی خلوصِ دل سے اس جنگ کے خاتمے کا خواہاں نہیں۔ مغربی ممالک خوش ہیں کہ ان کا اسلحہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے اوران کی معیشت کی مضبوطی میں نجانے کتنے مظلوموں کے  لہو کا رزق شامل ہو رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اور اقوام متحدہ جیسا ادارہ قائم کر کے شاید انہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ جنگیں تو اب بھی ہوں گی لیکن پورپ کی سر زمین پر نہیں۔دوسری طرف اسلامی کانفرنس تنظیم ہے جو بالکل غیر فعال اور اسلامی ممالک کے تنازعات حل کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اگر دو مسلماں گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو باقی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے:
(ترجمہ: ) “اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادواور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورہ حجرات، ۹)”۔

 

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply