کیا نگران حکومت بس نمائشی ہے؟۔۔۔ سید شاہد عباس

وفاق و صوبوں میں نگران حکومت کا نظام قائم ہو چکا ہے۔ نگران وزیراعظم کے نام پہ جس خوش اَسلوبی سے اِتفاق رائے پیدا ہوا، حیران کن طو رپہ وہ اتفاق رائے صوبائی سطح پہ نہیں ہو سکا۔ خیبر پختونخواہ میں منظور کی منظوری نہیں ہو پائی، باوجود اس کے کہ وہ مبارکبادیں بھی وصول کرنا شروع ہو گئے تھے۔ ایسا ہی کچھ ناصر کھوسہ صاحب کے ساتھ ہوا۔ اب یہ تحریک انصاف سے حقیقی معنوں میں غلطی ہوئی یا پھر اُسے غلطی کا احساس دلوایا گیا کہ آپ نے ایک ایسا اُمیدوار فائنل کردیا ہے جو آنے والے انتخابات میں ایک پارٹی کی حمایت میں اقدامات کر سکتا ہے کہ انہوں نے ناصر کھوسہ کی نامزدگی واپس لے لی۔ سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے بھی غیر یقینی صورتحال رہی اور کیوں نہ ہو کہ پاکستان میں معاملات جب تک متنازعہ نہ ہوں تب تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہی نہیں۔ بہرحال اختلاف جمہوریت کا حصہ ہے ۔ ہم بھی مان لیتے ہیں کہ نگران سیٹ اپ پہ کنفیوژن ، غیر منطقی بیانات، اور عجلت کا مظاہرہ بھی جمہوریت کے لیے مضبوط ہی ہو گا۔

بیسویں آئینی ترمیم کے بعد صدرِ پاکستان کے اختیارات محدود ہوئے اور نگران وزیر اعظم و وزراء اعلی کی نامزدگی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے باہمی مشورے سے منسلک ہو گئی ہے(آرٹیکل224)۔اس میں بھی مزید طے ہوا کہ اگر دونوں متفق نہ ہوں تو پارلیمانی کمیٹی نامزد گی کا اختیار رکھتی ہے (آرٹیکل 224-A)۔ اس اصول کے تحت پہلی نامزدگی میر ہزار خان کھوسو کی ہوئی۔اب یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نگران حکومت کے اختیارات ایک منتخب حکومت سے قدرے کم ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت نگران حکومت کا کام مجموعی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد اور حکومتی امور رکنے نہ دینا ہے۔ نگران حکومت کسی قسم کا بڑا انتظامی فیصلہ یا تعیناتی نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو نگران حکومت ایک نمائشی حکومت بھی نہیں ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے غیر جانبدار رہتے ہوئے پورے ملک میں انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرنا بذات خود ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس پہ آئندہ حکومت کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ نگران حکومت ہی بنیادی طور پر جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ شفاف الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کی مدد نگران حکومت کا ہی ذمہ ہے  اور پوری انتظامی مشینری کو متحرک کرنا بھی نگران حکومت کی ہی ذمے ہے۔ مستقل تعیناتیوں پہ قدغن ہے مگر ساتھ ہی مختصر مدتی تعیناتیوں کا اختیار بھی دیا ہے کہ جتنی حکومت کی مدت پہ اس مدت میں تمام حکومتی اختیارات بہرحال موجود ہیں۔اور ضرورت پڑنے پہ نگران حکومت ہر طرح کے ضروری اقدامات لے سکتی ہے ۔ نئی آنے والی حکومت پھر ان ضروری اقدامات کی ضرورت محسوس نہ کرئے تو ختم کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن انتخابات اور نئی حکومت آنے تک کے درمیانی عرصے میں حکومتی مشینری کام کرتی رہے گی۔ لہذا ایک لاحاُُُضل بحث کہ نگران حکومت کا کردار بس نمائشی ہے خام خیالی ہی کہا جا سکتا ہے۔

 فرض کیجیے نگران حکومت کے دورانیے میں ہی ملک کسی داخلی و خارجی محاذ پہ نازک صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے تو کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ نگران حکومت کوئی بروقت فیصلہ نہیں کرئے گی؟ الیکشن ایکٹ 2017 میں نگرانی کرنے کے اصول و ضوابط بھی وضح کر دیے گئے ہیں۔ سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ الیکشن کی شفافیت کا سارا دارومدار ہی نگران حکومت کے خلوص اور غیر جانبداری پہ ہے۔ تو در اصل نگران حکومت کا کردار تو ایک منتخب حکومت سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں بھی درپیش ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد لگنے والے الزامات کی جڑ ہی نگران سیٹ اپ تھا جس پہ الزام تھا کہ اس نے ن لیگ کو مدد فراہم کی۔

ا

لہذا نگران حکومت ممنون تو ہے منتخب کرنے والوں کی مگر اتنی بھی ممنون نہیں۔ نگرانی سے بڑھ کے بھلا کیا اہم ہو سکتا ہے۔ جمہوریت کی گاڑی اس وقت نگران حکومت پہ ہی تو انحصار کر رہی ہے۔ یہ حکومت تو عارضی ہے مگر اندرونی اختیارات کے حوالے سے اس کو کسی بھی طرح سے نمائشی نہیں کہا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کو سرمائے کی فراہمی، انتخابات میں ذرائع نقل و حمل کی فراوانی، یہ یقین کرنا کہ انتخابات میں جرائم پیشہ عناصر تو شامل نہیں ہو رہے، پورے ملک میں انتخابی عمل میں کسی بھی رکاوٹ کا قلع قمع، اس حوالے سے فیصلے، فیصلوں پہ عمل در آمد، یہ تمام اقدامات نگران حکومت کی نگرانی کے چند نکات ہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نگرانوں سے بھی بس اتنی سی التجا ہے کہ نگران ٹھیک ہو تو ہی امتحان دینے والے کے دل میں بھی کچھ خوف پیدا ہوتا ہے کہ وہ نقل نہ کرئے ۔ آپ اپنی نگرانی کو نمائشی نہ سمجھیں۔ ایک سخت گیر نگران بن کے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے میں عوام کا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ساتھ دیجیے تا کہ جو لوگ نگران حکومت کو نمائشی کا درجہ دے رہے ہیں وہ بھی اس کے حقیقی کردار کو جان سکیں۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply