یتیموں کے حقوق۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

فقیروں کاملجا،ضعیفوں کاماویٰ یتیموں کاوالی،غلاموں کامولیٰ
حقوق جمع ہے حق کی جس کامطلب ہے لازمی اورضروری،حقوق کی دو اقسام ہیں۔

1۔حقوق اللہ

2۔حقوق العباد،

حقوق اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ،
حقوق العباد:عبادجمع ہے عبدکی جس سے مرادانسان یابندہ ہے۔اس طرح حقوق العبادکامطلب ہے بندوں کے حقوق،ان حقوق میں والدین،اولاد،بیوی،رشتہ دار،یتیم،مسکین،مسافر،اہل حاجت،ہمسایہ،سائل،قیدی کے حقوق اوراجتماعی ومعاشرتی حقوق کاوسیع تصورشامل ہے۔حقو ق اللہ اورحقوق العبادکا اداکرناجنتیوں کی صفت ہے۔قیامت کے روزحقوق اللہ اورحقوق العباددونوں کاحساب ہوگا۔ اللہ پاک اپنے حقوق تواپنی رحمت سے بخش دے گا۔ جن کے بارے میں میرارب فرماتاہے۔ فَیَغْفِرُلمن یَّشاءُ وَیُعذِّبُ من یَّشَاءُ ”تو جسے چاہے گابخشے گاجسے چاہے گاعذاب دے گا“۔پربندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہونگے جب تک وہ بندہ خودمعاف نہ کرے گا۔
یہ بات توروزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام انسانی حقوق کاسب سے بڑاعلمبردارہے۔انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کاتصور بنیادی طورپرنبی نوع انسان کے احترام،وقاراورمساوات پرمبنی ہے۔یتیم کے حقوق پراسلام نے بہت زوردیاہے جن کااندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن مجیدفرقان حمیدمیں 23مختلف مواقع پریتیم کاذکرکیاگیاہے۔جہاں پریتیم کے ساتھ حسن وسلوک اوران کے حق اداکرنے کاحکم دیاگیاہے وہاں پریتیم کے ساتھ زیادتی کرنیوالے،ان کے حقوق ومال غضب کرنیوالے پروعیدکی گئی ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔”بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔“۔(سورۃ النساء۰۱)

ارشادِباری تعالیٰ ہے۔”اورمت قریب جاؤیتیم کے مال کے مگراس طریقہ سے جوبہت اچھاہوجب تک وہ اپنی جوانی کوپہنچے“(سورۃ الانعام۳۵۱)

ارشادباری تعالیٰ ہے۔”اورپوچھتے ہیں آپ سے یتیموں کے بارے میں فرمائیے(ان سے الگ تھلگ رہنے سے) ان کی بھلائی کرنابہتر ہے اوراگر(کاروبارمیں)تم انہیں ساتھ ملالوتووہ تمہارے بھائی ہیں۔اوراللہ خوب جانتاہے بگاڑنے والے کوسنوارنے والے سے“(سورۃ البقرہ۰۲۲)

یتیم ہوناکوئی نقص نہیں بلکہ منشاء خداوندی ہے۔خالق کائنات،مالک ارض وسماوات جوچاہتاہے وہی کرتاہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب سرکاردوعالم نورمجسم،تاجدارختم نبوت،امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوحالت یتیمی میں پیدافرمایا۔امام الانبیاء،خاتم النبین صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے والدماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصال فرماچکے تھے۔ پھرچھ سال کی عمرمیں ہی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرماگئیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اس کیفیت کاذکرقرآن مجیدفرقان حمیدکے پارہ تیس میں یوں کیاہے۔”کیااس نے تمہیں یتیم نہ پایاپھرجگہ دی“۔(پارہ ۰۳،سورۃ الضحیٰ)

پھراس دُریتیم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے یتامٰی کی محبت،ان کے ساتھ حسن وسلوک اوران کے حقوق کی ادائیگی کی نہایت اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے یتامٰی کی اچھی کفالت کرنیوالے کوجنت کی خوشخبری  سنائی  اوران کے حقو ق پامال کرنے والے کودردناک عذاب کی وعیدسنائی۔امام عبدالرزاق الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے ”مصنف عبدالرزاق کتاب العلم“میں حضرت سیدناداؤدعلیہ السلام کے قول کے طورپراُسے نقل کیااورچندایک محدثین کرام نے اُسے آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی حدیث کے طورپربھی نقل کیاہے۔ ”کن للیتیم کآبِِ رحیم“یتیم پراس کے والدکی طرح شفقت فرمائیے۔یعنی جب کسی یتیم کودیکھوتواس یتیم کے لئے محبت کرنیوالے باپ بن جایاکروجس طرح اپنے بیٹے کوگودمیں اُٹھالیتے ہواسی طرح کوئی یتیم سامنے آئے تواُسے اُٹھالیاکرو۔جس طرح اپنی اولادکوسینے سے لگالیتے ہو۔اسی طرح کسی یتیم کوپاؤتواُسے بھی اپنے سینے سے لگالیاکروجس طرح اپنے بچوں کے لئے کھلونایاکھانے پینے کی چیزبازارسے خریدکرلاتے ہو۔اُسی طرح جوبھی تمہارے اردگرد،گلی،محلے،عزیزواقارب اوررشتہ داروں میں اگرکوئی یتیم بچہ ہوتواس کے لئے بھی وہ چیزلے کرآؤ۔یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاباعث بنتاہے۔اورجنت میں لیجانے والاکام ہے۔(المصنف،کتاب العلم،ج۰۱،۸۶۲)

یتیم کی اچھی پرورش کے فضائل!
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہیے  کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے، احادیث مبارکہ میں یتیم کی اچھی پرورش کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چندفضائل درجِ ذیل ہیں۔

حضرت سہل بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔پھراپنی شہادت والی اوردر میان والی انگلی سے اشارہ فرمایااورانہیں کشادہ کیا۔(بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”مسلمانوں میں سب سے اچھاگھروہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواوراسکے ساتھ اچھاسلوک کیاجاتاہو۔اورسب سے بُراگھروہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُراسلوک کیاجاتاہو۔(ابن ماجہ،مشکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”جس نے تین یتیموں کی پرورش کی تووہ ایساہی ہے۔جیسارات بھرعبادت کرتارہاہو،دن میں روزے رکھتارہاہو اورصبح وشام تلوارلیکرجہادکرتارہاہواوریادرکھومیں اوروہ شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔جیسے یہ دوانگلیاں پھرآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے درمیانی اورشہادت کی انگلی کوملاکردکھایا۔(ابن ماجہ)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاکہ”جس نے یتیم کے سرپرہاتھ پھیرااوراس کامقصداللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرناتھاتواُس کے لئے ہراس بال کے بدلے نیکیاں ہیں۔جس جس بال کواسکاہاتھ لگاتھا۔جس نے اپنی زیرکفالت کسی یتیم بچی یابچے کے ساتھ اچھاسلوک کیاتووہ اورمیں جنت میں اس طرح ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اوردرمیانی انگلی میں تھوڑافاصلہ رکھا“۔(مسنداحمدبن حنبل،طبرانی فی المعجم الکبیر،دُرِمنثور)

حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا کہ”جنت میں ایک گھرایساہے جس کانام دارالفرح(خوشی کاگھر)ہے۔اس گھرمیں وہی لوگ داخل ہوں گے۔جنہوں نے دنیامیں مسلمانوں کے یتیم بچوں کادل خوش کیاہوگا۔(کنزالعمال ج۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”یتیم کی پرورش کرنیوالااگرچہ وہ اس کارشتہ دارہویانہ ہو۔اورمیں جنت میں اسطرح ہوں گے راوی نے درمیان والی انگلی اورشہادت کی انگلی ملاکراشارہ کیا“۔(مسلم شریف، مسنداحمدبن حنبل)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاہے کہ جوشخص یتیم کوٹھکانا(گھر) دے کراس کے کھانے پینے کاانتظام کردے تواللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت واجب کردے گا۔ہاں!مگریہ کہ وہ کوئی ایساگناہ(شرک وکفر) کرے جومعافی کے لائق نہیں۔(تووہ جنت میں نہ جاسکے گا)۔(سنن الترمذی،مشکوٰۃ المصابیح)

یتیموں کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں!
ارشادباری تعالیٰ ہے۔”بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔“۔(سورۃ النساء۰۱)

ا س آیت کریمہ میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ”وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں“اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الایہ:۰۱،۵۰۶/۳)

احادیث مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں،ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں۔
۱۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم نورِمجسم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ  سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم! وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ”کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا”اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًاوَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا“ بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال)
۲۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اکر م صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ”میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے منہ میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھااے جبرائیل!علیہ السلام، یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی ”یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، مسند عبد اللہ بن عباس)
۳۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ”چارشخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے

1۔شراب کا عادی۔

2۔سود کھانے والا۔

3۔ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔

4۔والدین کا نافرمان۔

(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲/۸۳۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِمدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا۔سات مہلک (ہلاک کردینے والی)چیزوں سے بچو!صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!وہ سات چیزیں کیاہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”کسی کواللہ کاشریک ٹھہرانا،جادوکرنا،کسی ایسی جان کوقتل کرناجسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایاہوہاں شرعی حق کے ساتھ قتل کرنا(جائزہے)،سودکھانا،یتیم کامال کھانا،دشمن سے مقابلے کے وقت پیٹھ پھیرجانا،اورپاکدامن اورغافل مومن عورتوں پرتہمت لگانا۔(بخاری ومسلم)

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں ملوث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

یتیم کی پرورش کے لئے والدہ کانکاح نہ کرنا!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”میں وہ پہلاشخص ہوں جس کے لئے جنت کادروازہ کھولاجائے گا۔مگریہ کہ ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی میں اُس سے پوچھوں گا۔تمہاراکیامسئلہ ہے؟تم کون ہو؟
وہ عرض کرے گی۔میں وہ عورت ہوں جواپنے یتیم بچے کی پرورش کے لئے بیٹھی رہی۔(دوسرانکاح نہیں کیاتوآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اُسے جنت میں داخل فرمادیں گے)۔(مسندابویعلی،الدیلمی فی مسندالفردوس)

یتیم کے  سرپرہاتھ پھیرنا،دل کی سختی کودورکرنے کاباعث!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کاذکرکیا۔توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”اگرتم اپنے دل کونرم کرناچاہتے ہوتومسکین کوکھاناکھلاؤاوریتیم کے سرپرہاتھ رکھو۔ (مسنداحمدبن حنبل،البیھقی فی سنن الکبریٰ)

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضرہوااوردل کی سختی کی شکایت کررہاتھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاکہ”کیاتم پسندکرتے ہوکہ تمہارادل نرم پڑجائے اورتمہاری ضرورت پوری ہوجائے۔تویتیم پررحمت وشفقت کرواوراس کے سرپرہاتھ پھیرواوراپنے کھانے میں اسکوکھلاؤتوتمہارا دل نرم ہوجائے گا۔اورتمہاری ضرورت پوری ہوجائے گی“۔(الترغیب والترہیب)

یتیم پہ شفقت دفع شیطان کاباعث!
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”جن لوگوں کے ساتھ کوئی یتیم ان کے برتن میں کھانے کے لئے بیٹھے توشیطان ان کے برتن کے قریب نہیں آتا“۔(الترغیب وترہیب،کتاب البر)

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ ہمیں یتیم کے ساتھ حسن وسلوک سے پیش آنے اور اعمالِ صالحہ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply