میرے ساتھ اب جاگنا سیکھو۔۔۔عبدالرحمن وڑائچ

بے حیائی دیکھنے کے لئے اک جنسی گھٹن زدہ ذہنیت چاہیے ،ورنہ وہ بے حیائی لگے گی ہی نہیں ،
اک بزرگ امریکہ چلے گئے وہاں خوب گھومے پھرے
جب ملک واپس آئے تو بہت سے مہمان ان سے   ملنےآئے ، آنے والے  مہمانوں نے پوچھا جناب آپ نے یورپ میں کیا دیکھا
بزرگ نے کہا ، دیکھنا کیا ہے
عورتوں کی ننگی ٹانگیں!

بہت سی ادھر ادھر کی باتوں  کے بعد بات گھومتے پھرتے  وہیں  آ گئی، کہ  جناب پھر اور کیا کیا دیکھا۔۔
بزرگ نے کہا۔۔۔ساری ننگی ٹانگوں والی عورتیں!

اک صاحب جو کہ  فسادی طبیعت کے مالک تھے بولے۔۔مولانا صاحب آپ کو وہاں   لوگ قانون کا احترام کرتے نظر نہیں آئے ، وہاں کی صفائی دیکھ کرآپ کا ایمان مکمل نہیں ہوا ،وہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات نظر نہیں آئیں؟

برا مت منائیے گا۔۔جناب دیکھتی دراصل آنکھیں نہیں__ دماغ ہے
آپ نے جو دیکھنا چاہا وہی دیکھا ، اک جنسی گٹھن زدہ ذہن یہی دیکھ سکتا تھا

منٹو کہا کرتا تھا۔۔اگر عورت کو مرد کی نگاہوں سے دور رکھا گیا ، تو وہ اس کا عکس اپنے ہم جنسوں اور جانوروں میں تلاش کرنے لگے گا “۔پتا نہیں وہ ٹھیک کہتا تھا یا نہیں لیکن اپنے ملک میں قصور میں ہونے والی درندگی کو دیکھیے ، چھوٹے چھوٹے پھول جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔اپنے ملک کے اخباروں میں چوپایوں کے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی کی خبریں پڑھیے ، آپ کو اپنا اشرف الا محلوقات کا شرف مشکوک لگنے لگے گا!

حضور مدعا یہ ہے!!مرد اور عورت دونو ں انسان ہیں اور انسانوں نے انسانوں  کے ساتھ ہی معاملے کرنے ہیں ، اگر ان دونوں کے درمیان حد درجہ دوری بنا دی جائے ، تووہ اک دوسرے کے بارے مغالطوں کا شکار ہو جاتے ہیں  ، کبھی مرد عورت کو کم عقل سمجھ بیٹھتا ہے ،کبھی اسے اچھی ہمراز نہ ہونے کے طعنے دینے لگتا ہے ، تو کبھی اسے بہکا کر گناہ گار بنانے والی مخلوق مان لیتا ہے . حد درجہ کی بے ربطگی سے جنسی گھٹن جنم لیتی ہے اور مرد ، عورت کو بحیثیت انسان دیکھنے کے ، محض اک جسم کے طور پر دیکھتا ہے اور اسی حوالے سے تصورات گھڑ لیتا ہے۔

کچھ لوگ ہیں جو دعویٰ  کرتے ہیں  کہ  مرد اور عورت کے درمیان رشتہ محض  جنسی نوعیت کا ہی ممکن ہے ؟

امرتا پرتیم کہتی ہے”مرد نے آج تک عورت کے ساتھ سونا ہی سیکھا ہے جاگنا نہیں ، اس لئے وہ اسے جاگتے مل کر بہک جانے سے ڈرنے لگتا ہے”

اس کی وجہ شاید ارتقائی ہے پہلے زمانے کا انسان (مرد) صبح شکار  کے لئے باہر چلا جاتا تھا ، عورت کیوں کہ کھیتی کی بانی مانی جاتی ہے ، وہ دن بھر خاندان  کے لئے غلے کے  انتظام میں مصروف رہتی تھی ، اس کی ملاقات مرد سے صدیوں تک محض  رات کو ہی ہوتی رہی ہے ، اس لئے مرد نے اس  کے ساتھ محض سیکھی ہی ہم بستری ہے.

عصر حاضر کے تقاضے مختلف ہیں ،جدید دور میں ان دونوں کو اک مخلوط نظام میں رہنا ہے،ان کو اکٹھے پلنا بڑھنا ہے ، اکٹھے پڑھنا ہے ، اکٹھے  کام کرنا ہے ، اس لئے عورت کے ساتھ جاگنا سیکھنا اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے، اب وقت آگیا ہے اپنے  آپ پر بھروسہ کیا جائے۔نہیں تو پھر کوئی ساتھ کام کرتی بنت حوا کہے گی ۔۔۔اے ابن آدم ڈر کیوں رہے ہو؟مجھ پر بھروسہ نہیں یا اپنے بہک جانے کا ڈر ہے،میرے ساتھ جاگنا سیکھو!!

اب ہمیں اک دوسرے کے جسم کا احترام کرنا ہو گا ، یہاں تک کہ  عر یانی خود میں اک لباس بن جائے گی ،انسان کے جذبات جانوروں کی طرح آوارہ نہیں ہوتے ،جو شکار کو دیکھ کر بپھر جاتا اور خود پر قابو کھو بیٹھتا ہے۔یہاں بہت سے لوگ گلا ،یا یوں کہیے سوال کر تے ہیں ، تنگ جینز، کھلے بال  دیکھ کر کوئی کیونکر جذبات قابو میں رکھے ؟

پتا نہیں یہ کیونکر رکھے جاتے ہیں  ،مگر میں یہاں اس معاملے میں جنسی امتیاز کے خلاف ہوں۔۔۔آپ نفسیات کا مطالعہ کیجئے  آپ نیوروبائیولوجی پڑھیے آپ تجربے  کا سہارا لیجئے، اور جانیے کہ عورتیں بھی جب مردوں کو دیکھتی ہیں تو کیا ان کے ذہن میں بھی غلط غلط خیال آتے ہیں ؟ یا  نہیں ؟   کیا ایسا تو نہیں وہ ارادتاً ذکر نہیں کرتیں؟  یا  وہ بڑی تحمل والی ہے کہ جذبات کو عقل پر حاوی نہیں ہونے دیتی اگر ہاں، آتے ہیں۔۔۔۔تو ہم کیوں پھر کر ان کو ننگے بازوں، ننگی ٹانگیں دکھا کر خود بے حیا بنتے ہیں  ، کھلے عام کبڈی، پہلوانی کھیلنے لگتے ہیں  ، یہ یا تو ہماری کم علمی ہے یا پھر بے حیائی ، ہم مردوں کو بھی جلد از جلد پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اگرآپ عورتوں کو بے حیائی کے ڈر سے گھر بند کر دینا چاہتے ہیں  ، تو پھر آپ مردوں کی گھومنے پھرنے کی آزادی کی مخالفت کیوں نہیں کرتے ،کیوں کہ  بے حیائی میں عورتوں  کے ساتھ ہمیشہ مرد ہوتے ہیں ۔.

“” Do not ask your Daughters not to go out, ask your Sons to behave “”

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ بے حیائی درحقیقت ہے ہی یہ ، کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا ، اور یہ ہراساں کرنا کسی کو شہوت بھری نگاہوں سے دیکھنا بھی ہو سکتا ہے ، بیہودہ جملے کسنا بھی اور بلااجازت چھو نا بھی ، یہی بےحیائی دراصل قابل مذمت بے حیائی ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرے ساتھ اب جاگنا سیکھو۔۔۔عبدالرحمن وڑائچ

Leave a Reply to Naveed Majeed Cancel reply