بھارت کی ممکنہ جارحیت بارے امریکی رپورٹ

بھارت کی ممکنہ جارحیت بارے امریکی رپورٹ
طاہر یاسین طاہر
پاکستان اور بھارت دو ایسے پڑوسی ہیں جو ہمہ وقت حالت ِجنگ میں ہی رہتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوئی ہو۔یہ کشیدگی کبھی لفظوں کی صورت قائم رہتی ہے تو کبھی ایل او سی پر بھارتی در اندازی کی صورت میں۔بالخصوص جب سے بھارت میں انتہا پسند نریندر مودی کی جماعت کی حکومت آئی ہے، بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح عالمی برادری کے سامنے یوں پیش کرے کہ پاکستان دہشت گردوں کا پشت بان ہے اور یہ کہ سر حد پار سے بھارت میں در اندازی کرنے والوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے بھارت گاہے گاہے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری بھی کرتا رہتا ہے۔ابھی گذشتہ سے پیوستہ روز لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے مبصرین کی گاڑی پر بھی بھارتی فورسز نے فائرنگ کر دی تھی،حالانکہ گاڑی پر اقوام متحدہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔یہ واقعات بھارت کی بد دماغی اور ہیجان کو ظاہر کرتے ہیں۔
دراصل بھارت ،یہ سب مقبوضہ کشمیر میں ،مظلوم کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی کرتا ہے۔تا کہ عالمی برادری کی توجہ کشمیریوں کے بجائے لائن آف کنٹرول پہ رہے۔ گذشتہ روز کے واقعہ کے بعد پاک فضائیہ نے تمام فارورڈ ایئر بیس آپریشنل کر دیں، اور جنگی مشقیں بھی کیں، جبکہ پاک فضائیہ کے سربراہ نے بڑا واضح پیغام دیا کہ اگر بھارت باز نہ آیا تو ہمارا جواب دشمن کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔
دریں اثنا بی بی سی نے شائع کیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے کانگریس کو خبردار کیا ہے کہ انڈیا ’سرحد پار سے ہونے والے حملوں‘ کو روکنے کے بہانے پاکستان میں جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے اور ایل او سی پر موجودہ شیلنگ اور فائرنگ کا تبادلہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان براہِ راست جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے یہ بات سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران منگل کو کی تھی۔امریکہ میں دفاع سے متعلق خفیہ ادارے (یو ایس ڈیفینس انٹیلی جنس ایجنسی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ونسینٹ سٹوئرٹ نے کہا کہ گذشتہ برس مبینہ طور پر پاکستان سے انڈیا میں داخل ہونے والے شدت پسندوں کی طرف سے دو دہشت گرد حملوں کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔
ان کے بقول تعلقات رواں برس مزید خراب ہو سکتے ہیں، خاص طور پر انڈیا میں کسی بڑے دہشت گرد حملے کی صورت میں، جس کے متعلق نئی دلی کا موقف ہے کہ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوتی ہے یا وہاں سے انھیں اس کے لیے مدد ملتی ہے۔نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیئل آر کوٹز کا کہنا تھا کہ ،لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ، بشمول توپ خانے اور مارٹر گولوں کا استعمال دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان غیر ارادی طور پر لڑائی میں شدت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سرحد پار سے حملوں میں کمی ہو جائے اور پٹھان کوٹ حملے کی تفتیش میں پیش رفت ہو گی تو اسی برس دونوں میں بات چیت کا آغاز ہو سکتا ہے اور اس سے دونوں کے درمیان موجودہ کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ونسینٹ سٹوئرٹ کا کہنا تھا، انڈیا نے کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کر سکے، اور وہ ایسے کسی متبادل پر غور کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ مبینہ طور سرحد پار سے دہشت گردی کی مدد کرنے کے لیے اسلام آباد کو قیمت چکانے پر مجبور کر سکے۔ یاد رہے کہیہ دونوں افسر سینیٹ میں انٹیلی جنس کمیونٹی کو 2017 اور 18 سے متعلق بریفنگ دے رہے تھے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان پر الزام تراشیاں کرتا آ رہا ہے۔ بھارت میں پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو بنا کسی ثبوت کے بھارتی حکومت اور ادارے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں،اور یہ کسی بھی طور قابل برداشت رویہ نہیں جو بھارت نے اپنایا ہوا ہے۔بھارت ایک طرف تو مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت بانی کا الزام لگا دیتا ہے تو دوسری طرف اب اس کے لیے سی پیک بھی ناقابل برداشت بن چکا ہے اور دشمن کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان معاشی طور پر ترقی کرے۔بھارت کی کوشش ہو گی کہ وہ پاکستان کو مشرقی اور افغانستان کے ذریعے مغربی بارڈر پر مصروف کر کے اسے سینڈوچ کرے۔
لیکن بھارت یاد رکھے کہ جنگ شروع تو اپنی مرضی سے کی جا سکتی ہے مگر اس کے نہ تو نتائج اپنی مرضی کے حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اسے اپنی مرضی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔خدانخواستہ اگر بھارت جارحیت پر اترآتا ہے تو ہر پاکستانی اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑا ہو گا۔لیکن بھارت کو کسی بھی شر انگیزی سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں اور قریباً ڈیڑھ ارب سے زائد انسان دونوں ممالک میں بستے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری اور خطے کے ذمہ دار و فیصلہ ساز ممالک کو امریکی رپورٹ اور بھارتی رویوں کی روشنی میں ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply