سوشل میڈیا سے خائف اشرافیہ۔۔۔ فرنود عالم

باقی دنیا کے لیے سوشل میڈیا رابطے کا کوئی اضافی ذریعہ ہوگا مگر پاکستان جیسے ملک میں یہ اظہار رائے کا ایک غیر معمولی ذریعہ ہے۔ جس سرزمین پر اظہار رائے جیسا بنیادی حق یرغمال ہو وہاں سوشل میڈیا کا کردار وہی ہوجاتا ہے جو تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے اوائل میں لگنے والے پرنٹنگ پریس کا تھا۔علم اور سچائی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلتے ہیں۔ فریب کاریوں پر اٹھائے گئے معاشروں میں ان کا یوں سر عام ساتھ چلنا فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔علم اور سچائی پر عام آدمی کی نظر پڑ جائے یہ مذہبی اشرافیہ کے ہاں غیرشرعی اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں غیر قانونی ہوتا ہے۔ پرنٹنگ پریس نے علم اور سچائی کو بے پردگی کا پہلا موقع دیا ۔یورپ میں پہلا چھاپہ خانہ لگا تو ایوان اقتداراورکلیسا میں پھیلنے والی تشویش کی لہر کی شدت یکساں ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ ہوئی تھی۔ علم جوکہ صرف مذہبی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں یرغمال تھا، عام آدمی تک اس کی رسائی کا امکان پیدا ہوا۔ اثر ورسوخ سے محروم مگر ذہانت سے بھرپور آدمی کے لیے امکانات روشن ہوئے کہ وہ اپنے نئے خیالات کولکھ کر چھپواسکے۔پڑھنے والوں کے لیے ممکن ہوا کہ وہ نئے خیالات دینے والی کتابیں خرید سکیں ، کرائے پر لے سکیں ، کتب خانوں میں جاکر پڑھ سکیں یا پھرجن صاحبِ استعداد لوگوں نے کتاب خرید کرپڑھ لی ہے ان سے اس کتاب کا مرکزی خیال جان سکیں۔ نئے خیالات کو شیخ وشاہ نے ہمیشہ ریاست اور مذہب کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔چنانچہ یورپ کے چھاپے خانوں کے خلاف کلیسا نے فتوے صادر کیے اور ایوان اقتدار نے ان پر عمل درامد کیا۔
شیخ وشاہ کے باہمی دلچسپی کے اسی اتفاق کے تحت دو صدی سے زائد کے عرصے تک پبلشروں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔ مارے جانے والے تمام پبلشر ز کو دو ٹائٹل ملے۔ غدارِ وطن اور گستاخ ِ مذہب۔ جان ٹوائن تو اس حوالے سے استعارہ ہیں۔ استعارہ اس لیے کہ پیسے کمانا ان کا ترجیحی مقصد نہیں تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک سوچنے والے آدمی تھے۔ سوچنے والا ذہن اپنے نتائج فکر کا اظہار کیے بغیر سکون نہیں پاسکتا۔جان ٹوائن کا ترجیحی مقصد اس فکر کی ترویج تھا جسے وہ نئی نسل کے لیے بہتر سمجھتے تھے۔ ٹوائن نے اسی مقصد کے تحت ایک قابلِ دست اندازیِ پولیس کتاب شائع کر دی۔ مصنف کا نام چھپا دیا۔ اس کتاب نے شیخ کی حرم اور شاہ کی بزم میں بیک وقت فکری ارتعاش پیدا کردیا۔ کیونکہ کتاب کا متن اقتدار میں عوام کی براہ راست شراکت پر اصرار کرتا تھا۔جب اشرافیہ کی سیہ کاریاں اشرافیہ کے ہی گھڑے ہوئے مفروضوں اور الوہی تصورات کے دم قدم سے آباد ہوں تو سچ کہنے سے ریاست اور مذہب دونوں خطرے میں پڑجاتے ہیں ۔ٹوائن سے مصنف کا نام پوچھا گیا، نہیں بتایا۔شیخ نے قتل کا فتوی دیا قاضی نے قتل کا فیصلہ دیا۔ کتاب شائع کرنے اور نام چھپانے کے جرم میں اسے پھانسی دے دی گئی۔ پبلشر، قاضی ، مفتی ،حاکم اور ان کے حامی دانشور وںمیں سے آج کوئی نہیں ہے۔پرنٹنگ پریس اور اس سے شائع ہونے والا سچ موجود ہے۔ یعنی ٹائن موجود ہے۔
سلطنت عثمانیہ میں پہلا پرنٹنگ پریس پندرھویں صدی کے پہلے نصف میں ابراہیم رعدنے لگایاتھا۔ اس پرنٹنگ پریس کے خلاف پہلے جمعے کے خطبات میں اشتعا ل انگیز تقاریر ہوئیں بعد ازاں معاملہ شیخ الاسلام کے حضور میں پہنچا۔ معاملے کا بغور جائزہ لینے کے بعد شیخ الاسلام نے تفصیلی فتوی جاری کیا۔فرمایا،” پرنٹنگ پریس کی مشینوں پر قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث مبارکہ کا کوئی ٹکڑا شائع کرنا براہ راست اسلام کی توہین ہے۔اور ایسے الفاظ جو قرآن وحدیث کا حصہ تو نہیں ہیں مگر مقدس تصور کیے جاتے ہیں ان کی اشاعت باالواسطہ اسلام کی توہین ہے۔ پریس کی مشینوں پر کتابوں کی اشاعت یہود ونصاری کی مشابہت ہے اور ازروئے حدیث جو کفار کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا۔ جو لوگ اشاعت کا یہ جرم کررہے ہیں وہ توبہ کریں۔ جو اشاعت کا سلسلہ جاری رکھیں وہ ازروئے شرع توہینِ اسلام کی سزا کے مستحق ہیں”۔ اس فتوے کے بین السطور میں چھپے منشاکو غیرت مند مسلمانوں نے سمجھ لیا۔ منشا کے عین مطابق وہ اشتعال میں آگئے اور تکبیر کی صداوں میں ابراہیم رعد کے چھاپے خانے کونذر آتش کردیا۔ابراہیم رعد جان بچا کر دائیں بائیں ہوگیا۔ رات کی تاریکی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ استنبول چھوڑ کر اسکندریہ کے ایک دور افتادہ گاوں میں روپوش ہوگیا۔ اسلام کو پرنٹنگ پریس سے لاحق خطرات کے حوالے سے جب ہر طرف اطمینان کے سائے پھیل گئے تو پندرھویں صدی کے دوسرے نصف میں ایک عبقری عالم سعید آفندی نے پرنٹنگ پریس لگادیا۔ مذہبی حلقوں میں پھر سےا شتعال پھیل گیا۔ سعید آفندی کو حاکم وقت سلطان احمد سوئم کی خاموش تائید حاصل تھی ۔(اس نے سوچاہوگاکہ اس سے پہلے یوٹیوب پر پابندی لگا کر ہم نے کون سا فائدہ حاصل کرلیا تھاجو اب فیس بک پر بھی پابندی عائد کردی جائے)۔راسخ العقیدہ طبقے میں اشتعال تو تھا مگر حاکم وقت کی اس خاموش تائید ہی کے سبب فتوی سازکارخانوں کی چمنیاں غیر متوقع طور پر کچھ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھیں۔ مگر تابکہ؟ نکڑوں اور حجروں میں بیٹھے اینکر صاحبان نے اشتعال کی آنچ کوشام کے آٹھ پانچ پہ رکھا ہوا تھا۔ اشتعال بڑھا تو شیخ الاسلام نے نیا فتوی جاری کیا ۔چونکہ اس فتوے نے وزارت داخلہ کی پالیسی بھی بننا تھا اس لیے پہلے والے فتوے کی نسبت یہ نیم سیاسی فتوی تھا۔ فرمایا، پرنٹنگ پریس لگانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قرآن وحدیث کی اشاعت ان مشینوں پر نہ ہو، آئین ان دو قسم کی اشاعتوں کو گستاخی تصور کرتا ہے۔ یہود ونصاری کا لٹریچر ان مشینوں پر چھاپنے کی البتہ اجازت ہے، اس سے کسی بھی طرح کا وقار مجروح نہیں ہوتا”۔
اظہار پر جب بندشیں عائد ہوجائیں تو سعید آفندی اور جان ٹوائن جیسے دانشوروں کے لیے محدود اجازت بھی کھلی فضا کی مانند ہوتی ہے۔ یوں بھی صاحبِ ادراک کو پاوں رکھنے کی جگہ درکار ہوتی ہے۔ در آنے کی سبیل وہ خود کرلیتا ہے۔ چٹان کے سینے پرمسلسل ٹپکنے والے پانی کے قطرے کی طرح۔ سعید آفندی نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر”نفرت انگیز” لٹریچر نکالا، شائع کیا۔ پیسے دو پیسے بھی مل جاتے اور سچائی کی ترویج کا مقصد بھی حاصل ہوجاتا۔ ایک جگر آزما صبر کے بعد سعیدآفندی نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی دیا جس کا ارتکاب انگلستان کے پبلشر نے کیا تھا۔ سعید نے ایک ناقابلِ اشاعت کتاب شائع کرکے بیچ کتب خانےلاکر رکھ دی۔ آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو نہایت بے ضرر سی کتاب ہے، مگر اپنے وقت کے حساب سے یہ شیخ و شاہ کو آدابِ امامت وقیادت سکھانے کی ایک ناپاک جسارت تھی۔ یوں کہیے کہ طے شدہ امور کو چھیڑنے کی ایک ناقابل معافی جرات تھی۔ سلطان احمد سوئم کو ذاتی طور پر یر تو یہ کتاب زیادہ ناگوار نہیں گزری مگر مذہبی اشرافیہ،سیاسی اشرافیہ اور وزارت داخلہ ایک پیج پر پائی جاتی تھی۔
شیخ الاسلام کو اشرافیہ نے دارالحکومت کی ایک مسجد میں خود پال رکھا تھا۔ وہ کچھ بھی کہنے کے مجاز تھے۔چاہیں تو بیچ شہر میں آگ لگادیں چاہیں تو برقعہ اوڑھ کر امان میں آجائیں۔ان کے کہے اور وزیر داخلہ کے کہے میں شق اور آرٹیکل جتنا ہی فرق ہوتا تھا۔ ایف آئی اے کے افسران ان کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔شیخ الاسلام مشکبو زنان خانے سے نکل کردیوانی چھت پر آئے۔ پرانا فتوی پھر سے دوہرایا اور ایک اشتعال انگیز تقریر کرڈالی۔ اس تقریر کی ایک ایک سطر سے اسٹبلشمنٹ کوخاموش اتفاق تھا۔ مشتعل مسلمان منہ میں آگ لیے نکل پڑے۔فسادات پھوٹ پڑے۔ ابراہیم رعد کی طرح سعید آفندی کا پرنٹنگ پریس بھی دیکھتے ہی دیکھتے دھواں ہوگیا۔ سعید آفندی ضعیف العمر والد کو لے کر قبرص کی طرف بھاگا ۔چھوٹے پبلشر بھی چاپے خانوں کو تالے لگا کر چھاوں میں بیٹھ گئے۔ کوئی سوال کرتا تو اہام الطبع دانشور کہتے، جب عدالتیں اپنا کام نہیں کریں گیں تو پھر ایسا تو ہوگا۔معاملات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ سلطان احمد سوئم کو اقتدار سے اور ان کے وزیراعظم کو جان سے ہاتھ دھونے پڑگئے۔ فتوی دینے والے اور فتوی سہنے والے ، دونوں زمین کی پاتال میں اترگئے۔ پرنٹنگ پریس اور شائع ہونے والا سچ مگر زمین کے اوپرآج بھی موجود ہے۔یعنی سعید آفندی موجود ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا نے مکالمے کی روایت کو استحکام بخشا ہے۔ جو سوالات مسندوں کے نیچے اور قلمدانوں کے پیچھے چھپادیے جاتے تھے وہ پوچھے جانے لگے ہیں۔ تنقید کی جس ثقافت پر بندشیں عائد ہوتی تھیں ، وہ اپنا منہ آپ چڑا رہی ہیں۔ جبرکے جھوٹ کو صبر کا سچ شکست دے رہا ہے۔ ایسے میں اگر دو ہی اشرافیہ کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے تو یہ دنیا کی معلوم تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ طاقت کے تمام غیر جمہوری مراکز ایک صفحے کی ایک سطر پر کھڑے ہیں۔ شیخ کا فتوی ، قاضی کا فیصلہ اور شاہ کا حکم پہلو بہ پہلو سامنے ہیں۔ مختلف سیاسی نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے احتساب کاحربہ موجود ہے۔ یہ حربہ عدالت تک پہنچنے کی مہلت ضرور دیدیتا ہے۔ مختلف فکری نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے توہین مذہب کا حربہ بروئے کار ہے۔ یہ حربہ عدالت تک پہنچنے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔ انسان ہے تو موقع پر سنگسار کردیتا ہے۔ ادارہ ہے تو کھڑے کھڑے جلاکر خاکستر کردیتا ہے۔
کل کے تقریبا تمام ہی روزناموں میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔بہت اہم کام درپیش نہ ہو تو ضرور پڑھیے۔ اپنے مضمون میں وہ فکرمند پائے گئے ہیں کہ عالمی طاقتیں پاکستانی نوجوانوں کی فکر میں خرابی پیدا کررہی ہیں۔ مرزا صاحب کو تشویش ہے اس بات پر کہ نوجوان اب مذہبی عقیدے اور سیاسی نقطہ نظر میں فرق روا رکھتے ہیں۔انہیں فکر لاحق ہے کہ پہلے کی طرح آج کا پاکستانی افغانستان کو برادر اسلامی ملک کہنے کی بجائے صرف پڑوسی ملک کیوں کہتا ہے۔ مرزا صاحب کو یقین ہے کہ جب تک عالمی قوتیں نہ چاہیں تب تک کسی انسان کی فکر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔اپنے مضمون کے آخر میں وہ مشال خان کے قتل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ بتاتے ہیں کہ آگے پاکستان کس طرح کے خطرات سے دوچار ہونے والا ہے۔ مرزا صاحب کی یہ پریشانی آزادیِ افکار و اظہار کے پرستاروں کے لیے توبہت خوش آئند ہے۔ البتہ مرزا صاحب جس چمن کی شاخ پُربہارپر بیٹھ کر نغمہ سرا ہیں ، اس چمن کے باغبانوں کے لیے یہ وقت لمحہ فکریہ ہونا چاہییے۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ ارتقا کا پہیہ سست روی کا شکار تو کیا جاسکتا ہے، روکا نہیں جاسکتا۔ امتدادِ زمانہ نےتو مصر کے سینے پر صدیوں سے ایستادہ ابوالہول کے خد وخال کو نہیں بخشا، اس سوچ کو کیسے بخش دے جس کی نمو ہی رواں دواں بہاو میں ہوتی ہے۔ جیسے پانی کو بہنا ہوتا ہے، سوچ کو بڑھناہوتا ہے۔ ہاتھ پیر باندھ کر اسے 80 کی دہائی میں اکڑوں نہیں بٹھایا جاسکتا۔ سوچ سماجی کارکن نہیں ہوتا کہ لاپتہ کردیا جائے۔ سوچ این جی او بھی نہیں ہوتی کہ فنڈ پر چلا کرے۔ لوگ سولی چڑھ کر تہہِ خاک اتر جاتے ہیں۔ پرنٹنگ پریس شکلیں بدلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اورفکر رائج ہوجاتی ہے۔ قافلہ تو گزر کر ہی رہے گا۔ رستہ دیجیے، قافلہ دل وجاں سلامت گزرنا چاہتا ہے۔ نہیں، تو پھرجو مزاج ِ یار میں آئے۔ سو بسم اللہ!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply