ریحام خان کی کتاب اہم مگر۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

کوئی سا بھی ٹی چینل کھول لیں، آپ کے سامنے وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوگا۔ ریحام خان کی نئی کتاب کے مندرجات کیا ہیں؟ جن ذرائع سے ان کو حاصل کیا گیا ہے وہ کیا ہیں؟ اس نے جو باتیں کی ہیں، اس کا ہمارے آنے والے الیکشن پر کیا اثر ہوگا؟ اس میں عمران خان کی ذاتی زندگی کو کس حد تک ڈسکس کیا گیا ہے؟ اور حیرت انگیز بات ہے کہ آپ کو کئی کلپس مل جائیں گے، جس میں ریحام خان ایک بلیک بیری کا ذکر کر رہی ہیں اور پھر یہ بلیک بیری ایک بریکنگ نیوز کے طور پر ہمارے سامنے بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ آپ ہمارے ذہن کا اندازہ لگائیں، اگر آپ کسی عوامی جگہ پر موجود ہیں اور ٹی وی ٹاک شو کا پرائم ٹائم چل رہا ہے اور اس وقت آپ کوئی ایسا چینل لگاتے ہیں، جس میں یہ موضوع نہ ہو تو وہاں بیٹھے لوگ چند منٹس میں آپ کو چینل تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں گے، یہ کیا ہے؟ ہم بڑی تیزی سے معاشرتی اور نفسیاتی طور پر ایک مریض سوسائٹی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں اقدار کا خون ہوتا ہے۔

ایک اور واقعہ کو دقت سے دیکھیں، پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ایک شخص اپنے ہی بچوں اور بیوی کو یرغمال بنا لیتا ہے، تھوڑی ہی دیر میں یہ واقعہ پورے پاکستانی چینلز پر سب سے بڑا ہاٹ ایشو بن چکا ہوتا ہے۔ میں اس وقت پاکستان سے باہر تھا، مجھے ایک دوست نے پاکستان  سے سپیشل فون کیا، کیا کچھ پتہ چلا یا بے خبر ہو؟ میں بڑا پریشان ہوا خدا خیر کرے، ہر روز وطن عزیز میں دھماکے ہو رہے تھے، میں سمجھا شائد کوئی دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا  کیا ہوا۔؟ انہوں نے بتایا غالباً کسی جاوید نامی بندے نے اپنی فیملی کو یرغمال بنا لیا ہے اور ہم اسے دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا یار یہ بھی کوئی خبر ہے؟ اس نے کہا عجیب آدمی ہو، یہاں سینکڑوں لوگ جمع ہیں، ہر چینل لائیو دکھا رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ میں نے اس دوست کا اس اہم خبر پر شکریہ ادا کیا اور دیار غیر میں کافی دیر سوچتا رہا کہ میرے وطن کے لوگ کب بڑے ہوں گے۔

اس وقت سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈ میں ریحام خان کا نام آ رہا ہے۔ ہم بطور سوسائٹی تربیت کے بحران کا شکار ہیں۔ جھوٹ، تہمت، غیبت اور بہتان بڑی آسانی سے لگا دیا جاتا ہے اور اسے سٹوری کا نام دیا جاتا ہے۔ جس بندے کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے، اس کی عمر بھر کی عزت لمحات میں برباد کر دی جاتی ہے اور اسے خبر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر بندہ طاقتور ہو تو چند دنوں بعد فرنٹ پیج پر چھپنے والے بہتان کی تردید نظر نہ آنے والے فونٹ میں کر دی جاتی ہے۔ مغربی تہذیب کا ایک المیہ ہے کہ اس میں عورت کو ایک کمرشل پروڈکٹ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس پورے معاملے میں بھی مشرقی اقدار کو پامال کیا گیا ہے۔ امام خمینیؒ نے کہا تھا کہ اہل مغرب نے عورت کو اشتہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بخدا انہوں نے درست فرمایا تھا۔ اس پوری کمپین میں عورت ایک اشتہار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط ہے؟ بعض اوقات دونوں ہی غلط ہوتے ہیں، کوئی تھوڑا اور کوئی زیادہ غلط ہوتا ہے۔

ہم بطور قوم اس وقت اس عجیب ایشو میں الجھے ہوئے ہیں، جب فلسطین میں آگ لگی ہے ہر روز ظلم و بربریت کی ایک داستان رقم ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوج انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے، نہتے فلسطینی اپنی قربانیوں کے ذریعے عَلم حریت کو بلند کر رہے ہیں۔ گھروں کو واپسی کی تحریک نے فلسطینی نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ کشمیر، ہاں وہی کشمیر جو ہماری شہ رگ حیات ہے، جس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے، جس کے لوگوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، انہیں گولیوں سے چھنی کیا جا رہا ہے، انہیں گاڑیوں کے نیچے کچلا جا رہا ہے اور بارود لگا کر اڑایا جا رہا ہے۔ ان کے فلک شگاف نعرے خوبصورت وادیوں کے سکون کو اضطراب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین جان کی پرواہ کئے بغیر پاکستان کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ، لے کر رہیں گے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی، کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ہم  خواب غفلت میں پڑے ہیں، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے۔ اقبال کا درد بھی یہی تھا، اسی لئے فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا

Advertisements
julia rana solicitors

جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال پر قبضہ کرکے بڑی تیزی سے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرف بڑھ رہی تھی تو مسلمان اسی طرح نان ایشوز میں الجھے ہوئے تھے، جیسے آج ہیں۔ دلی میں کبوتر بازی کے بڑی مقابلے چل رہے تھے، دن بھر منہ آسمان کی طرف اٹھائے لوگ دلی کی  بڑی حویلیوں کی چھتوں پر نظر آتے تھے۔ شہر کے بڑے بڑے سورما جنہوں نے قوم کی رکھوالی کرنی تھی، ان کے درمیان شہر کی طوائفوں سے تعلقات پر جھگڑے چل رہے تھے اور نتیجہ سب کے سامنے ایک سو سال کی بربادی مقدر ٹھہری، وہ تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پچھلی کئی صدیوں کی محنت سے رکھی گئی تھی، غارت ہوگئی اقتدار ایسا ہاتھ سے نکلا کہ ہاتھ ملتے رہ گئے، آج تک ہندوستان میں مسلم شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ عجیب بات ہے اب تو مسلم ممالک سے کوئی اچھی خبر  بھی نہیں آتی، یا سازشوں کا شکار ہیں یا سازشوں کا حصہ ہیں۔ اللہ بھلا کرے ارجنٹائن کا جس نے اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف بطور احتجاج اسرائیل سے دوستانہ میچ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اس جیسی خبروں سے دل کو حوصلہ ملتا ہے کہ انسانیت ابھی مری نہیں، دنیا کا ضمیر مفادات کی دھول میں دب ضرور گیا ہے، مگر موجود ہے۔ ایک دن ضرور آئے گا، جب فلسطینی اپنے گھروں کو جائیں گے اور اہل کشمیر آزادی پائیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply