ہیکٹر کا خدا۔۔۔۔مجاہدافضل

شام کے ساڑھے نو بجے تھے اور موسم کی خنکی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا، یہ جون کے دوسرے ہفتے کے دن تھے، کوپن ہیگن ڈنمارک میں مجھے رہتے ہوئے یہ دوسرا سال تھا،ڈنمارک ایک ناڑڈک ملک ہے،جو شمالی یورپ میں واقع ہے،ڈنمارک کے جنوب میں جرمنی جبکہ  آپ یہ سمجھ لیں سمندر کے اندر خشکی کا چھوٹا سا ٹکڑا  ہے،مجھے اس ملک کے لوگوں سے ملنے کا، ان کے ساتھ کام کرنے اور رہنے کا کافی اتفاق ہوا ہے ادھر کے لوگوں کے آباؤاجداد کا مذہب عیسائیت تھا، مگر آج کل کی نوجوان نسل کسی بھی مذہب کی پیروکار نہیں ،اپنے آپ کو وہ لوگ ملحد کہتے ہیں۔ میں ادھر ایک کمپنی کے اندر کام کرتاتھا اور اس کمپنی کے مینجر کا نام ہیکٹر تھا میرا بہت اچھا دوست بھی تھا،اپنے کام کے حوالے سے وہ 28،29سالہ نوجوان ایکسپرٹ مانا جاتا تھا.

میرے خیال میں یہ کوئی دسواں روزہ تھا اور میری افطارکاوقت بہت قریب آ چکا تھا اس کمپنی کا ایک شیف جس کا نام جووون تھا، میرے لئے بلاناغہ افطاری بناتا اور افطار سے کوئی پندرہ منٹ پہلے میرے ٹیبل پربھجوا دیتا تھا جبکہ یہ سب اس کی ذمہ داری میں شامل نہیں تھا،اس جگہ پر  میں ایک اکیلا مسلمان اور پاکستانی کام کرتا تھا، اپنی پلیٹ لے کے باہر بالکنی میں آ گیا اور   ادھر لگے سٹاف میز پر رکھ کر کھانا شروع کر دیا اندر سے ہیکٹر اپنی سگریٹ کی بریک کرنے بھی ادھر پہنچ چکا تھا ،وہ اکثر میرے ساتھ گپ شپ کرنے میں مشغول ہو جاتا تھا۔۔

اس شام اس نے مجھے دیکھا اور چلا اٹھا۔۔ میرے دوست یہ تمہارا پارٹی کا وقت ہے، افطار کا وقت ہوچکا تھا اور میں اپنے دھیان سے کھانا کھانے لگا،ہیکٹر کی ماں ڈینس جبکہ اس کا باپ ایک آسٹریلین گورہ تھا مجھ سے اس نے سگریٹ کا کش لگانے کے بعد ہوا میں اوپر منہ کرکے دھواں باہر نکالتے ہوئے  کہا۔۔ تم ایک صوفی ہو، اس کی اس بات پر میری ہنسی نکل گئی میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ اس نے کہا تم نہ  تو شراب پیتے ہو،نہ تم سگریٹ پیتے ہو،نہ تم پورک کھاتے ہو اور تم اس دنیا کے باقی سارے انسانوں جیسے تو بالکل بھی نہیں ہو،اور یہ سب تم ایک خدا کے لئے کرتے ہو ،میں زندگی میں کبھی ایسے انسان سے نہیں ملا!

میں نے بلا توقف کیے اس سے سوال پوچھا،تم کس مذہب کو مانتے ہو ، ہیکٹر بولا میں کسی مذہب کے ماننے والا نہیں ہوں۔
مذہب مجھے کچھ نہیں دے سکتا،مجھے پہلے سے پتا ہے میں نے کیا کرنا ہے ، کیا کھانا ہے اور اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے اس ساری گفتگو کے دوران میں نے اس سے پوچھا تم اللہ کو تو مانتے ہو گے ؟ہیکٹر بے فکری سےاپنا سر نہیں میں ہلانا شروع ہوگیا،اس کا جواب سن کر میں نے اسے مختلف قسم کی مثالیں دیں اور کہا الله کو کو ماننا چاہیے، مگر اس نے میرے سارے کے سارے دلائل کو سائنس اورمنطق کی بنیاد پر ماننے سے انکار کر دیا .

میں نے اس سے کہا فرض کرو تم   ایک سمندر کے اندر بحری جہاز میں سفر کر رہے ہو اور اس بحری جہاز کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، اس طرح سارے کے سارے مسافر مر جاتے ہیں، اس بحری جہاز کے اندر تم اکیلے رہ جاتے ہو اس وقت تم کسی کو تو آواز دو گے پھر وہ کون سی ہستی ہوگی ؟

میرے سوال پر اس کے چہرے کا رنگ اترنا شروع ہوگیا ۔۔۔وہ بولا میرے دوست ہاں میں کسی کو یاد کروں گا تو  وہ جیسس ہوگا،ہوسکتا ہے وہ کوئی خدا ہو۔۔۔مگر اس کے باوجود یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ کوئی خدا اس دنیا اور کائنات میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بارش کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا اور میں بھی اپنی افطار ختم کرکے ہیکٹر کے ساتھ واپس اندر چلا آیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply