شام کا بحران، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

شام کا بحران، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی
دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ انتشار اور عدم استحکام کا شکار کوئی علاقہ ہے تو یقینی طور پر وہ مشرق وسطٰی ہے اور مشرق وسطٰی میں انتشار اور عدم استحکام کا محور و مرکز اس وقت شام بنا ہوا ہے کہ جس میں دنیا اور خطے کی تمام چھوٹی بڑی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف چومکھی لڑائی میں مصروف عمل ہیں اور تقریباً سبھی قوتیں اس بات کی بھی دعویدار ہیں کہ وہ داعش کے خلاف مصروف جنگ ہیں اور انہی میں سے بعض داعش اور بشارالاسد حکومت دونوں کے خاتمے کی خواہش کا شدید اظہار کر رہی ہیں، البتہ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ان قوتوں کی اولین ترجیح ہے۔ مشرق وسطٰی کے اس جاری قضیئے میں سبھی قوتیں (امریکہ، اسرائیل، ترکی، مغرب، روس، ایران اور چین و دیگر) اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ اس قضیئے میں کون کس کا حریف اور کس کا کون حلیف ہے، کون انتشار کو فروغ اور کون امن و استحکام کا آرزو مند ہے اور اس قضیئے سے سب سے زیادہ کون مستفید ہو رہا ہے۔ اس پر بات کرنے سے قبل اس قضیئے کے پس منظر اور خطے سے متعلق امریکی عزائم کو سمجھنالازم ہے۔ یوں تو مشرق وسطٰی سے متعلق امریکی اہداف کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے، تاہم خطے سے متعلق امریکہ کے تین بنیادی اہداف رہے ہیں۔
اول۔ تیل (امریکی تیل کمپنیاں 1920ء یعنی عالمی جنگوں کے دوران ہی مشرق وسطٰی میں متحرک ہوچکی تھیں)
دوئم۔ اسرائیل کا تحفظ (جسکا قیام 1948ء میں عمل میں آیا اور اس کی مدد و تحفظ امریکی پالیسی کا خاصہ ہیں)۔
سوئم۔ پورے خطے کا سٹریٹجک کنٹرول (خطے پہ سٹریٹجک کنٹرول کی پالیسی دوسری جنگ عظیم کے بعد ترتیب پائی۔ جسکا مقصد کسی بھی بڑی قوت کو خطے میں اثر قائم کرنے سے روکنا اور کسی بھی مقامی قوت کو نہ ابھرنے دینا)
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ جب عالمی طاقت کے طور پر ابھر کے سامنے آیا اور اگست 1944ء میں اینگلو امریکن پٹرولیم معاہدے پر دستخط ہوئے تو اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ نے برطانوی سفیر سے کہا کہ فارس کا تیل تمہارا، عراق اور کویت کا تیل ہم آپس میں بانٹیں گے جبکہ سعودی عرب کا تیل ہمارا ہوگا۔ اس وقت امریکہ نے باقاعدہ طور پر سعودی عرب میں اپنے قدم جمائے اور اسے اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنا مفادات کے تحفظ کا زینہ بنایا۔ امریکہ نے مشرق وسطٰی میں اپنا اثرورسوخ سعودی عرب کے ذریعے ہی قائم کیا۔ 1947ء میں اقوام متحدہ نے جب فلسطین کی تقسیم اور اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا تو امریکہ پہلا ملک تھا کہ جس نے اسے تسلیم کیا اور دفاعی و معاشی مدد سے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ بلاشبہ اسرائیل مشرق وسطٰی میں امریکی مورچہ تھا، جس کے خلاف اس وقت شام، ایران، عراق، مصر اور یمن نے آواز اٹھائی۔ اسی طرح 1951ء ایران میں جب ڈاکٹر مصدق نے اینگلو ایران آئل کمپنی کو قومی تصرف میں لیا تو امریکہ نے مداخلت کرکے ڈاکٹر مصدق کو ہٹا کر رضا شاہ پہلو ی کو بحال کیا، یوں رضا شاہ پہلوی کی صورت میں امریکہ کو خطے میں مفادات کا محافظ میسر آیا۔
1979ء خطے سمیت پوری دنیا کے لئے اس حوالے سے اہم ثابت ہوا، کیونکہ انقلاب کے نتیجے میں امریکہ کے اہم ترین اتحادی رضا شاہ پہلوی کو رخصت ہونا پڑا اور خطے میں اعلٰی پیمانے پر تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا۔ ایران کے انقلاب کو ختم کرنے کیلئے اگلے نو سال صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی گئی، امریکہ اس جنگ میں بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں سے لڑاکا افراد فاٹا اور افغانستان میں داخل کئے جا رہے تھے۔ ان غیر ریاستی عناصر کو سعودی عرب، پاکستان اور امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان تینوں ممالک اور ان کے اتحادیوں کی کوششوں سے سوویت یونین بالآخر ٹوٹ گیا۔فغانستان سے سوویت انخلاء کے بعد یہ غیر ریاستی عناصر طاقتور ہوئے۔ نائن الیون کا واقعہ جو آج بھی اپنے دامن میں کئی طرح کے سوالات سموئے ہوئے ہے، برپا ہوا تو امریکہ نے افغانستان کو تہس نہس کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا۔
دوسری جانب ایران کے خلاف ناکامی کے بعد امریکہ نے 1991ء میں عراق پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور نو فلائی زون قائم کرکے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دیں اور وقفے وقفے سے بمباری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 2003ء میں عراق کی بربادی کے ساتھ ہی صدام حکومت کا خاتمہ ہوا، مگر اس حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی غیر متوقع طور پر وہ شیعہ اکثریت برسر اقتدار آئی، جسے صدام نے بزور طاقت قابو کیا ہوا تھا۔ عراق میں اس تبدیلی کے ساتھ ہی ایران سے لبنان تک شام و عراق کے ذریعے ایسی قوس بنتی چلی گئی جو کہ اسرائیل مخالف تھی۔ نتیجے میں حزب اللہ کی صورت میں اسرائیل کو اپنی ہی سرحد پر ہمہ وقت خطرے سے دوچار بھی ہونا پڑا اور حزب اللہ اسرائیل ٹکراو میں اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ یعنی امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کیلئے جو جنگ شروع کی، اس کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی بلاک کی مضبوطی کی صورت میں برآمد ہوا۔ دوسری جانب طالبان کے خاتمے کا نعرہ لیکر امریکہ افغانستان میں آیا جبکہ طالبان آج بھی افغانستان میں ایک مسلمہ حقیقت ہیں اور افغانستان کے ایک بڑے حصے پر ان کی عملداری ہے۔
2006ء میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈو لیزا رائس اور اسرائیلی وزیراعظم اولمرٹ نے پریس کانفرنس میں نیو مڈل ایسٹ پراجیکٹ کا اعلان کیا، جس میں لبنان پر اسرائیل کے فضائی حملوں کو درست قرار دیا گیا۔ اسی پریس کانفرنس میں کونڈولیزا رائس نے کہا کہ ’’ہم عدم استحکام اور بدامنی کی لہر تخلیق کریں گے، جو لبنان اور فلسطین سے شروع ہوکر شام عراق، خلیج فارس، ایران پاکستان سے افغانستان تک ہوگی۔‘‘ جون 2006ء میں کرنل رالف پیٹر نے مشرق وسطٰی کا نیا نقشہ بھی جاری کیا، جو مستقبل میں مشرق وسطٰی میں امریکی عزائم کا پتہ دیتا تھا۔ عراق اور افغان جنگوں نے بڑے معاشی بحران کو جنم دیا، جو کہ 2007ء میں امریکہ سے شروع ہوا اور 2008ء میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیکر دیگر خطوں تک پھیلتا گیا۔ معاشی دباؤ اور سیاسی عدم استحکام نے عرب دنیا کے نوجوانوں کو اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھایا۔ جس میں سوشل میڈیا کا اہم کردار تھا۔ عرب بہار کے نام پر تیونس سے جو لہر شروع ہوئی، اس نے متعدد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ عرب بہار میں نیو لبرلز نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوشنما نعرے سے مسلح افرادی مداخلت کا اصول اپنایا اور خطے میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ نتیجے میں صومالیہ، یمن، لیبیا، مصر، عراق اور شام کی موجودہ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ میں غیر ریاستی عناصر کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کا تجربہ تیونس ،لیبیا وغیرہ میں تو کامیاب رہا ما سوائے شام کے،جہاں اب کئی دہشت گرد گروہ، خطے کے ممالک اور بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف مصروف جنگ ہیں۔
شام کا بعین وہی قصہ ہے جو کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ القاعدہ کس نے بنائی۔ کس نے دنیا کے 43 ممالک کے جنگجوؤں کو فاٹا اور افغانستان میں اکٹھا کیا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعد میں انہی غیر ریاستی عناصر کو کس نے دہشت گرد قرار دیا اور انہیں مختلف ملکوں میں برآمد کیا۔ افغانستان کی طرح شام کی حکومت کے خلاف بھی دنیا بھر سے جنگجوؤں کو اکٹھا کرکے شام و عراق میں داخل کیا گیا۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ عراق تخلیق کی، جس میں صدام فوج کے بکھرے ہوئے سپاہیوں اور جرنیلوں کو اکٹھا کیا گیا۔ القاعدہ عراق کو بعد ازاں دو حصوں میں تقسیم کرکے القاعدہ عراق اور النصرہ میں دو گروہ تخلیق کئے۔ یہ سوال اپنی جگہ حقیقت ہیں کہ کس نے یہ تخلیق کی، کون ان دونوں گروہوں کو مدد فراہم کرتا رہا۔؟ اسی النصرہ کو شام میں داخل کیا گیا، جہاں اس کے فعال ہونے کے بعد شام کی حکومت نے اس پر پابندی عائد کی۔
بشار الاسد حکومت کے خلاف جو جدوجہد سب سے مقبول ترین قرار پائی، درحقیقت وہ النصرہ اور القاعدہ عراق کی شامی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں تھیں، وگرنہ عوامی سطح پر لاکھوں تو کجا ہزاروں شامی عوام کا ایک بھی ایسا احتجاجی مظاہرہ سامنے نہیں آیا جو کہ بشارد الاسد حکومت کے خلاف ہو۔ بشارد الاسد اور اس سے پہلے حافظ الاسد نے تمام قبائل کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اقتدار میں شراکت داری کی بنیاد پر ایک مضبوط سیاسی نظام ترتیب دیا ہوا تھا، جس کے باعث شام میں یہ صرف علوی اقلیت حکومت نہیں تھی، لہذا بشارد الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ پہلے امریکہ نے چند غیر ریاستی مسلح گروہوں (القاعدہ، النصرہ) کو تخلیق کیا، پھر قطر اور سعودی عرب پہ ان کی مالی سرپرستی کا بوجھ ڈال کر مسلکی بنیاد پر ان میں وہابی سلفی فکر کو داخل کیا۔ مقصد یہی تھا کہ اگر سیاسی بنیادوں پر قیام امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو بھی جائے تو مسلکی بنیاد پر جنگی ماحول برقرار رہے۔

شام کا قضیہ جب اپنے عروج پر تھا اور لاکھوں شامی افراد ہجرت کرکے تارک الوطن ہوئے تو ان لوگوں نے بھی اپنی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے بجائے ان قوتوں کو اس قضیئے کا ذمہ دار قرار دیا کہ جن کی مداخلت کے باعث خطہ جنگی زون میں تبدیل ہوا۔ القاعدہ عراق کو 2008ء میں پہلے (ISIL) پھر 2013ء میں (ISIS) یعنی داعش میں تبدیل کیا۔ صاحب علم آگاہ ہیں کہ القاعدہ کس نے تخلیق کی اور اسی کے بطن سے داعش کا جنم کس نے کرایا۔ ایران سے لبنان تک حزب اللہ کی سپلائی لائن توڑنے اور اسرائیل کیلئے خطرہ بننے والی قوت کو توڑنے کا سب سے زیادہ خواہش مند کون ہے۔ کونڈلیزا رائس کے یہ جملے بھی ریکارڈ پر ہیں کہ لبنان و فلسطین سے افغانستان تک بدامنی، عدم استحکام کی لہر کون تخلیق کرے گا۔ داعش کے قیام اور فعال ہونے کے بعد امریکہ نے طے یہ کیا کہ اب براہ راست فوجی مداخلت، جس کی روس اور چین نے شدید مخالفت کی تھی، اب اس کی ضرورت نہیں رہی، چنانچہ مختلف متحارب گروہوں کو علاقائی طاقتوں سے نتھی کر دیا۔ نتیجے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوئے، مگر ایران اور ترکی اور سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہوئے۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ سرخ خطرہ ختم ہوا، اب گرین (اسلام) باقی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس کے بعد وہ تمام ملک و شہر تباہی و بربادی سے دوچار ہوئے، جو ماضی میں مسلمانوں کی جاہ و حشمت کے مراکز تھے۔ بغداد تباہ ہوا، دمشق تباہ ہوا، انقرہ پہ اثر قائم کیا جبکہ اسلامی دنیا کے مرکز (مکہ و مدینہ) پہ تسلط کا یہ عالم ہے کہ امریکی مہم جوئیوں کے خطیر اخراجات کا بڑا حصہ سعودی عرب ادا کرنے پہ مجبور ہے۔ ریاض میں امریکہ عرب اسلامک کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی اور اس دوران اربوں ڈالر دفاعی ساز و سامان کے معاہدات بھی ہوئے۔
یہ امر بھی خطرے سے خالی نہیں کہ جس داعش کے ذریعے خلافت کے قیام کا نعرہ لگایا گیا، اس داعش کے ہدف بھی بغداد و دمشق ہیں اور یہاں خدانخواستہ کامیابی کی صورت میں اگلا ہدف مکہ و مدینہ۔ امریکہ دعویدار ہے کہ اس نے داعش کے خلاف 65 ملکی اتحاد تشکیل دیا ہے۔عودی عرب اسی مقصد کیلئے 39 ملکی اتحاد کی تشکیل کا دعویدار ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر داعش کا معاون و مددگار کون ہے۔ روس، ایران اور چین جو کہ بشارد الاسد حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، پہلے سے ہی داعش کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ روس جب اسی داعش پر بمباری کرتا ہے کہ جس کے خلاف 65 ملکی اور 39 ملکی اتحاد تشکیل دیئے گئے ہیں تو مغرب امریکہ اور ان کے وہ اتحادی جو ان اتحادوں کا حصہ ہیں، وہ بھی احتجاج کرتے ہیں۔ اگر حقیقی معنوں میں داعش کا خاتمہ ہی مقصود ہے تو روس، ایران، چین کی شمولیت سے ان اتحادوں میں شامل ممالک کی تعداد بڑھائی جا سکتی تھی،مگر قرآئن بتاتے ہیں کہ ہدف داعش یا دہشتگردوں کا خاتمہ اور امن و استحکام کا قیام نہیں بلکہ اسرائیل کے تحفظ، تیل پر تسلط اور من چاہی شرائط پر اتحادیوں کو تیل کی ترسیل اور سٹریٹجک کنٹرول رکھنے کیلئے طویل مدت تک خطے کو بدامنی اور سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار رکھنا ہے۔
ترکی جو کہ شام کے قضیئے میں پوری طرح شامل ہے، طیب اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت سے پہلے ایران اور روس کے خلاف تھا۔ فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی پالیسی میں تبدیلی واقع ہوئی اور حال ہی میں روس، ایران اور ترکی کے مابین شام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تینوں ممالک امریکی قیادت میں لڑنے والی نیٹو افواج کے جنگی طیاروں کو شام کے محفوظ علاقوں (Safe Zones) میں پرواز کرنے سے روکیں گے۔ تینوں ملک یہ اقدام شام کے پناہ گزینوں کو گھر واپس لانے اور ان تک امدادی سامان پہنچانے کی غرض سے اٹھا رہے ہیں، کیونکہ محفوظ علاقوں میں نیٹو کے جنگی طیاروں کی پرواز اس میں مخل ہوتی ہے اور بمباری سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ شام اور افغانستان دونوں جگہوں پہ روس اور چین ملکر امن و استحکام کیلئے کوشاں ہیں، جبکہ امریکی انڈسٹریل ملٹری کمپلیکس اپنے اتحادیوں سے ملکر موجودہ حالات کو طول دینے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔

کئی مسلم ممالک اس حوالے سے امریکہ و اسرائیل کو مضبوط جبکہ چند ان کے خلاف قیام کئے ہوئے ہیں۔ بڑے اسلامی ممالک کا امریکہ و اسرائیل سے جاری تعاون اور اس تعاون کے نتیجے میں اندرونی استحکام کی خواہش، افغانستان کی طرز پر عراق و شام میں افرادی مداخلت اور اپنی توقعات کے مطابق نتائج کی تمنا یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے ماضی سے یہی سیکھا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرق وسطٰی ہے یا ایشیاء، علاقائی ممالک آگے بڑھیں اور لے دے کی بنیاد پر قیام امن کی راہ ہموار کریں اور بیرونی جارح قوتوں کی مداخلت کی حوصلہ شکنی کریں۔ چین روس، ایران اور ترکی ملکر اس خطے کو پرامن اور مستحکم کرسکتے ہیں اور پاکستان کو اس ابھرتی ہوئی نئی قوت کے ساتھ ملکر امن کی کوششوں کا حصہ بننا چاہئے۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ پورا مشرق وسطٰی جہادی نعروں کی گونج میں آتش و آہن سے تباہ ہو رہا ہے اور اس پورے خطے میں داخلی و سیاسی حوالے سے مستحکم اسرائیل انتہائی پرامن و پرسکون ہے، جس کی چوکھٹ پہ آگ لگی ہو اس کا یہ اطمینان ناقابل فہم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:(مضمون نگار وزارت خارجہ پاکستان کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں اور متعدد پالیسی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہیں)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply