’’خبرناک‘‘ کے میزبان ۔۔۔ایک تجزیہ

آفتاب اقبال کے ’’حسب حال‘‘ چھوڑنے کے بعد جنید سلیم کچھ انداز سے فٹ ہوئے کہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ پروگرام میں اینکرتبدیل ہوا ہے۔آفتاب اقبال کی نسبت سہیل احمد کی جنید سلیم کے ساتھ ’’دانشوری‘‘ کی صلاحیتیں کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آئیں اور محسوس ہوا کہ ’’عزیزی‘‘ اب آفتاب اقبال کی نسبت زیادہ’’ایزی‘‘ ہے۔اس کے برعکس اگست 2015 آفتاب اقبال کے ’’خبرناک‘‘ کو خیر آباد کہنے سے اب تک باوجود اس کے کہ آفتاب اقبال کی ٹیم کے اہم ارکان میر محمد علی،سلیم البیلا اور آغا ماجد پروگرام میں ہی موجود ہیں مگر بہتراینکر کے حصول کے لئے مختلف تجربات ہی کئے جا رہے ہیں۔فرحت عباس شاہ نے ’’ماسٹر جی‘‘ کے کردار سے ’’خبرناک ‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا وہ کچھ لوکل ٹی وی چینلز میں ان جیسے پروگرامز کا پہلے سے اچھا تجربہ رکھتے تھے لیکن ’’خبرناک ‘‘ میں انہیں اتنا زیادہ نہ ہی وقت دیا گیا اور نہ ہی انہیں بہتر انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ۔آفتاب اقبال کے ’’خبرناک ‘‘ چھوڑنے کے کچھ ہی عرصہ پہلے وہ اس پروگرام کو خیر باد کہہ چکے تھے ورنہ یہ بھی ممکنات میں تھا کہ وہ بھی آفتاب اقبال کی خالی جگہ پُر کرنے میں کام یاب ہو جاتے کیونکہ سابق صدر غلام اسحاق کی طرح کبھی کبھی بھاری ذمہ داری نازک کندھوں پر بھی آن پڑتی ہے ۔
میر محمد علی کو بطور اینکر استعمال کرنے سے نہ صرف ان پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے بلکہ اس سے ان کا اصل کام متاثر ہوتا تھا اس لئے انہیں زیادہ استعمال نہیں کیا گیا۔ نعیم بخاری بلاشبہ آفتاب اقبال کا نعم البدل تھے وہ بھی آفتاب اقبال کی طرح ایک ایسی سدا بہار شخصیت تھے جن کو گھنٹوں بور ہوئے بغیر سنا جا سکتا ہے مگر ان کی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات نے ’’خبرناک‘‘ کو ایک اچھے اینکر سے محروم کر دیا۔کو ہوسٹ سے مین ہوسٹ تک عائشہ جہان زیب نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، انہوں نے کمال مہارت سے کسی مصنوعی پن کا اظہار کئے بغیر کرداروں کے مابین خوبصورت ریلیشن شپ قائم کی چونکہ عائشہ جہان زیب پہلے ہی ان کرداروں کے ساتھ کام کر رہی تھی اور آفتاب اقبال کردارں کے ساتھ اس کی ہلکی پھلکی نوک جھونک کرواتے رہتے تھے اس لئے وہ ناظرین کے لئے ایک قابل قبول اینکر بن کر ابھری اور وہ ناظر جو نعیم بخاری کے پروگرام چھوڑنے کے بعدکم ہی ’’خبرناک ‘‘ کا رخ کرتے تھے عائشہ جہان زیب کی وجہ سے ان کی پروگرام میں دل چسپی دوبارہ بحال ہونا شروع ہو چکی تھی۔
جگنو محسن ایک دبنگ شخصیت کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہیں ان کا بطور دانشور ’’خبرناک ‘‘ میں شرکت کرنا ایک اچھا شگون سمجھا گیا۔ ان کی وجہ سے میر محمد علی پر کام کا بوجھ کم ہوا اور انہوں نے جگنو محسن کے ساتھ ہونے والے ان پروگرامز میں جن میں وہ بطور دانشور شریک ہوئیں بہت اچھی پر فارمنس دی مگر رواں ہفتے جو پروگرام آن ائیر ہوئے ان سے محسوس ہوا کہ ’’خبرناک ‘‘ جان بوجھ کرایک اور تکلیف دہ تجربے یعنی اینکر کی تبدیلی سے گزرنا چاہ رہا ہے ۔جگنو محسن اپنے پروگرام ’’ جگنو ‘‘ میں تو ضرور جچیں مگر انہیں نہ جانے ’’خبرناک ‘‘ کی اوکھلی میں کس نے سر دینے کا مشورہ دیا ہے۔آفتاب اقبال نے اپنے پروگرامز میں خود پر حد ادب جگت کروائی ضرور ہے مگر خود اس جگت کا پلٹ کر جواب نہ دینے کی بجائے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا ہے اور یہی پالیسی ’’سیاسی تھیٹر ‘‘ میں وصی شاہ نے اپنا رکھی ہے ۔وہ بھی کامیڈین سے جگت ضرور کروا لیتے ہیں مگر خود ان کی سطح پر جا کر جواب نہیں دیتے مگر ’’ خبرناک ‘‘ میں جگنو محسن کا کامیڈین کو ان کی جگتوں کے جواب میں’’لسوڑھے جیسا منہ ‘‘ جیسے سطحی سے جواب دینا اور کامیڈین کا بار بار انہیں جگنو جی کہہ کر جگتیہ لہجے میں مخاطب کرنا یہ نیا تجربہ ’ چوراہوں میں’خبرناک ‘‘ دیکھنے والے ناظرین کو اچھا محسوس نہیں ہوا ،کیونکہ چوراہوں کا فیڈ بیک کسی ادارے سے حاصل کردہ ریٹنگ کے رزلٹ سے سے زیادہ موثر ہے اور یہ تجربہ جگنو محسن جیسی شخصیت کے اثر میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کے موجودہ دانشوارانہ امیج کو متاثر کر سکتا ہے۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply