بھوک کا سال: جب سعودی عوام آدم خوری کا سوچنے لگے

سعودی عرب میں 1909ء ایک ایسا سال گزرا ہے جس میں سعودی عوام کو بھوک کی وجہ سے جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس سخت ترین قحط سالی کی وجہ سے 1909ء کو ‘بھوک کا سال’ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سال لوگوں نے گوشت صرف بڑی عید کے موقع پر کھایا ۔

گزشتہ دنوں اسی سال کی مناسبت سے ہونے والی ایک تقریب میں سعودی عرب کے ایک 80 سالہ مقامی ریٹائرڈ فوجی نے ان دنوں کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ چار افراد پر مشتمل ان کا خاندان روزانہ گندم کی روٹی، کھجور اور پانی پہ گزارا کرتا رہا اور ان کے پاس بہت تھوڑی مقدار میں بھیڑ کا دودھ موجود تھا۔ اس دور میں گھی اور چائے امارت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

ایک مبلغ خمیس الزہرانی نے تقریباً ایک صدی قبل کے چار دوستوں کی کہانی بیان کی۔

اُن دوستوں نے طے کیا تھا وہ خوراک کی تلاش میں نکلیں گے چاہے انہیں اس سفر میں اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ ایک خاتون نے انہیں دیکھا تو اپنے 12 سالہ بیٹے کو بھی منت کر کے ان دوستوں میں سے ایک کے حوالے کر دیا۔

تاکہ بچہ اُن کے ساتھ خوراک تلاش کر کے کھالے۔ عورت نے وعدہ کیا کہ اگر اس دوران اس کا بیٹا مر بھی گیا تو وہ انہیں معاف کر دے گی۔ رحمدل آدمی اس بات پر مان گیا۔ تاہم جب وہ چاروں افراد تین دن تک خوراک تلاش کرنے میں ناکام رہے تو ان میں سے ایک نے اس لڑکے کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تا کہ وہ اس کا گوشت کھا کر اپنی زندگیاں بچا سکیں۔ لیکن جس شخص پر اعتماد کر کے لڑکے کو اس کے حوالے کیا گیا تھا،وہ ان کے مجبور کرنے پر بھی اس عمل کے لیے راضی نہ ہوا یہاں تک کہ انہوں نے ایک کتیا کو اس کے چھ بچوں کے ہمراہ آتے دیکھا تو وہ لڑکے کو بھول کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے ساتوں جانوروں کو ذبح کر کے آگ جلائی، انہیں پکایا اور کھا کر اپنے سفر کا مقصد حاصل کیا۔

الزہرانی نے ایک خاتون کا قصہ بھی سنایا جو ایک شخص سے محض کھانے کی خاطر شادی کرنے کو تیار تھی اورمہر میں صرف روزانہ اپنا پیٹ بھرنے لائق خوراک کا حصول چاہتی تھی۔

ان تمام واقعات کے پیش نظر اطعام فوڈ بنک نے کنگ عبد العزیز سینٹر میں ‘بھوک کے سال’ پر باہمی گفت و شنید کے لیے قومی مکالمہ کا اہتمام کیا تاکہ لوگوں کو خوراک کی اہمیت اور خوراک کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی دی جا سکے۔

ریاض کے ڈپٹی گورنر محمد بن عبد الرحمن نے اس تقریب کو ‘سو سال کا سفر، بھوک سے اسراف تک’ کا نام دیا۔

اس تقریب میں وزیر محنت و سماجی ترقی عبدالرحمن المطائری اور بہت سے اہم اداروں نے شرکت کی۔ تقریب کے دوران اطعام کے انتظامی سربراہ عامر بن عبد الرحمن البرجاس نے سو سال پہلے کے دردناک واقعات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان دنوں امیر غریب سب اس بھوک اور قحط سے یکساں طور پر متاثر ہوئے تھے اور لوگ بھوک کی وجہ سے سڑکوں پر مردہ پائے جاتے تھے۔

البرجاس نے حالیہ مطالعے سے نتائج اخذ کرتے ہوئے واضح کیا کہ سعودی عرب سب سے زیادہ خوراک ضائع کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں لاکھوں ٹن خوراک کچرے کے ڈبے میں پھینک دی جاتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

البرجاس نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ‘بھوک کے سال’ سے سبق حاصل کریں نیز اضافی خوراک سے فائدہ اٹھانے کے مثبت طریقے بھی متعارف کرائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ عرب نیوز

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply