عمران، ابنِ صفی اور مظہر کلیم۔۔۔ معوذ سید

کچھ دنوں قبل ایک مقبول کہانی نویس جناب مظہر کلیم صاحب وفات پا گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، آمین‎۔

ان کی وفات کے بعد سے ایک مخصوص جذباتی فضاء کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش جاری ہے کہ “عمران مر گیا” یا “ابن صفی کے حقیقی وارث کی وفات ہو گئی”۔ کچھ لوگوں کا متبادل بیانیہ یہ بهی ہے کہ “نئی نسل کو عمران سے متعارف کروانے والے تو مظہر کلیم ہی ہیں۔”

‎یہ واقعی عجیب بات ہے کہ ابن صفی کے تخلیق کردہ کرداروں پر دسیوں کہانی نویس طبع آزمائی فرما چکے، تاہم اس سے کہیں زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے کہانی نویسوں کے مداح اپنی پوری قوت صرف کر کے اپنے ممدوح کو ابن صفی کے برابر یا کم از کم ابن صفی کے قریب لا کر کهڑا کر دینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز اور نامعقول بات نہیں ہے کہ ادب میں اپنی کہکشاں خود پیدا کرنے والے ابن صفی کا حقیقی وارث ایسے کہانی نویس کو قرار دیا جائے جن کے ہاں طبع زاد مرکزی کردار کا بهی قحط پڑا ہو؟ اردو نثر اور اردو فکشن کے عہدساز محسن سے ایسے قلمکار کا موازنہ کیا جائے جو زبان و بیان اور ناول کی تکنیک میں کوئی قابل ذکر مقام نہ رکھتا ہو، یا جس نے خود فخریہ طور پر بیان کیا ہو کہ “میری کہانی کا پلاٹ اور انجام مجھے خود نہیں پتہ ہوتا، بس کہانی لکھنے کے دوران کہانی بنتی جاتی ہے”۔ اس قبیل کے کہانی نگار کو ایک ایسے ناولسٹ کا پیرو قرار کیونکر دیا جائے جس کے پورے جہانِ طلسم میں تکرار کا موجود ہونا تقریباً محال ہو؟ کہاں چراغ کہاں مہرِ نیمروزِ ادب!

ابن صفی ہندوستان میں آج بھی نہ صرف بہت بڑے پیمانے پر پڑهے جاتے ہیں بلکہ ان کے فن اور ان کی ادبی عظمت پر بڑا تحقیقی کام بهی ہو رہا ہے، جبکہ ہندوستان میں مظہر کلیم کا کوئی نام لیوا موجود نہیں ہے۔ اگر مجھ جیسے کچھ لوگ ان کے نام سے واقف ہیں بھی تو انہیں ایک نقل نویس کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ دعوی تو ہمارے ہاں کسی صورت قابل قبول نہیں ہے کہ نئی نسل سے عمران کا تعارف مظہر کلیم یا کسی اور ادیب نے کرایا ہے۔ عمران کے ہندوستانی شیدائی اسے ابن صفی کی نسبت سے ہی جانتے ہیں۔ گذشتہ برس ہمارے ہی شہر میں قومی اردو کتاب میلہ منعقد تها۔ اس کتابی میلے میں ابن صفی کی ایسی دهوم تهی کہ تقریبا کوئی بڑا اسٹال ان کی کتابوں سے خالی نہیں تها، ہمارے شہر میں سڑک کے کنارے لگے کتابوں کے ٹهیلے والے اپنی مقبولیت کیلئے ابن صفی کی کتابوں کو نمایاں رکھتے ہیں۔ فرید بک ڈپو برسہا برس سے مسلسل ابن صفی کی جاسوسی دنیا و عمران سیریز شائع کر رہا ہے اور قارئین اسے خرید رہے ہیں۔ خود میں نے قارئین کو دونوں سلسلے مکمل ایک ساتھ خریدتے ہوئے دیکها ہے۔ یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابن صفی کی ادبی عظمت اور ان کا طلسمی قلم کسی عامیانہ کہانی نویس کا محتاج نہیں ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو ہر دور اور علاقے میں خود سر چڑھ کر بولا ہے اور بولتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزید برآں، ہندی میں ابن صفی کے ناولوں کی جس مقدار میں اور انگریزی میں جس معیار کے ترجمے ہوئے ہیں وہ مذکورہ کہانی نویس صاحب کے عوامی اور ادبی سٹیٹس سے بہت اونچی چیز ہے۔
‎ عمران کے کردار کو ابن صفی کے سوا کسی بهی کہانی کار سے کسی بهی درجے میں منسوب کرنا ناانصافی ہے۔ ابن صفی کا عمران محض فکشن کا کردار نہیں ہے، عالمی کشاکش کے بیچ تیسری دنیا کی نفسیات میں گندها ہوا ایک نہایت منفرد اور اچهوتا کردار ہے۔ اس کی عوامی مقبولیت سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا غلط ہے کہ وہ ایک عامیانہ کردار ہے۔ اسی غلط فہمی کی بنا پر بہتوں کے ہاتھوں اس بے نظیر کردار کی مٹی پلید کر دی گئی۔ ویسے تو عمران جیسے کردار دلوں میں زندہ رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مظہر کلیم مرحوم کے ساتھ عمران بهی مر گیا، تو اس غلط فہمی کو رفع کر لیجیے۔ ایکس ٹو کی بهرائی ہوئی آواز اور عمران کی ہوشربا حماقتیں 26 جولائی 1980 کو ابن صفی کی روح کے ساتھ فطرت کی بیکراں فضاؤں میں مدغم اور امر ہو چکی ہیں۔ اب نہ کسی کے آنے سے کوئی نیا عمران پیدا ہو گا اور نہ کسی کے جانے سے ابن صفی کا عمران مر پائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”عمران، ابنِ صفی اور مظہر کلیم۔۔۔ معوذ سید

Leave a Reply to Umar Cancel reply