• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • وکلا تنظیموں کا وزیر اعظم سے ایک بار پھر استعفے کا مطالبہ

وکلا تنظیموں کا وزیر اعظم سے ایک بار پھر استعفے کا مطالبہ

وکلا تنظیموں کا وزیر اعظم سے ایک بار پھر استعفے کا مطالبہ
طاہر یاسین طاہر
پاناما کیس پر سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے کے فوری بعد ہائیکورٹ بار اور وکلا کی دیگر تنظیموں نے وزیر اعظم پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تھا ۔ اس مطالبے کو پاکستان بار کونسل کی حمایت حاصل نہ تھی۔البتہ میڈیا نے ان خبروں کو یوں رپورٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم کے استعفے پر وکلا تنظیمیں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہیں۔لیکن اس اختلاف کے باوجود ملک کے ہر شہری کا اس امر پر اتفا ق ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو۔یقیناً وکلا تنظیموں نے بھی مذکورہ مسئلے پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے دلائل اور استدلال کا سہارا لے کر گذشتہ روز ایک بار پھر لاہور میں ہنگامی اجلاس کیا ۔ جس کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزیراعظم نواز شریف سے ایک ہفتے میں (27 مئی تک) مستعفی ہو کر پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونے کا مطالبہ کردیا۔وکلاء کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سات روز میں استعفیٰ دیں ورنہ ملک گیر تحریک چلائی جائے گی ۔لاہور ہائی کورٹ میں منعقدہ آل پاکستان وکلاء کنونشن میں دونوں بار کونسلز کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کرپشن کے خاتمے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔
اعلامیے سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز ہر جمعرات کرپشن کے خلاف دن منائیں گی۔وکلاء نے مزید مطالبہ کیا کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کو بھی فوری طور پر ان کے عہدوں سے برطرف کیا جائے کیونکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دریں اثنا لیگی وکلاء کی جانب سے ہائی کورٹ بار کے کنونشن پر حملے کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی سربراہی میں وکلاء کی نیشنل ایکشن کمیٹی (این اے سی) تشکیل دی گئی ہے جو رمضان المبارک کے بعد وکلاء تحریک کے اثرات کا جائزہ لے گی۔اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ بار میں منعقدہ آل پاکستان وکلاء کنونشن میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مخالف اور حامی وکلاء آمنے سامنے آگئے۔مسلم لیگ لائرز ونگ کے وکلاء نے آل پاکستان وکلاء کنونشن کے لیے آنے والے وکلاء کو روکنے کی کوشش کی اور انھیں اسٹیج تک پہنچنے نہ دیا۔حکومت کے حمایتی وکلاء جن میں مسلم لیگ لائرز ونگ کے وکلاء سمیت ماتحت عدالتوں کے لاء افسران بھی شامل تھے، نے سپریم کورٹ بار کے صدر رشید اے رضوی کو لائبریری میں بند کردیا جنہیں بعد ازاں تالے توڑ کر باہر نکالا گیا۔حکومت کے حمایتی وکلاء کی جانب سے مزاحمت پر رشید اے رضوی، سیکریٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ اور لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر ذوالفقار چوہدری کا کہنا تھا کہ آل پاکستان وکلاء کنونشن کا انعقاد لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کیا گیا ہے جو کسی کے ماتحت نہیں اور خودمختار ہے۔دوسری جانب حکومت کے حامی وکلاء کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور وکلاء کی جانب سے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے پر حکومت کے حامی وکلا کا وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے والے وکلا کو روکنا، انھیں سٹیج سے دور رکھنے کی کوشش کرنا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو لائبریری میں بند کرنا،دلیل اور مکالمہ کے بجائے طاقت پر یقین کی علامت ہے جو کہ قابل افسوس امر ہے۔ حکومتی وکلا کو چاہیے کہ وہ حکومت مخالف وکلا کو دلائل سے قائل کریں اور انھیں سمجھائیں کہ معاملہ عدالت میں ہے،اور وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنا درست نہیں جیسا کہ حکومت کے حامی وکلا سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا کو بھی حکومت کے حامی وکلا کو اس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ وزیر اعظم اپنے موجودہ عہدے کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے،یا یہ کہ وہ جے آئی ٹی پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوں گے جو کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہے۔مگر دونوں جانب سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ عید کے بعد ممکن ہے وکلا تحریک شروع ہو جائے،جس کا ہدف وزیر اعظم سے استعفیٰ لینا ہو گا۔
یاد رہے کہ قبل ازیں بھی ملک بھی وکلا نے تحریکیں چلائی ہیں اور ان تحریکوں نے پاکستانی سیاست و سماج پر گہرے اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ہم البتہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اخلاقی طور پر وزیر اعظم صاحب کو تو بہت پہلے ہی مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ان کی نظریں مگر موٹر وے والی تر قی پر رہتی ہیں اور طبیعت وزیر اعظم ہاوس میں۔ یوں اس رویے کے ساتھ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کہ وزیر اعظم صاحب وکلا کے دباو میں آکر استعفی دے دیں گے۔ البتہ وکلا تحریک ملک میں سیاسی حرکیات اور گرما گرمی میں اضافے کا سبب ضرور بنے گی اور کرپشن کے معاملے پر عام آدمی کی نہ صرف آگاہی میں اضافہ ہو گا بلکہ شخصیت پرستی کی سیاسی روایات کو بھی کسی حد تک نقصان ضرور پہنچے گا۔ اور اگر کم از کم یہ ہدف ہی وکلا تحریک حاصل کر لیتی ہے تو یہ ہمارے سماج کے لیے خوش آئند بات ہو گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply