طاہر یاسین طاہر
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکی سیاسی تاریخ کا بڑا سیٹ اپ ہے۔اس سیاسی اپ سیٹ نے دنیا کو حیرت زدہ بھی کیا اور ٹرمپ کی جیت کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں کئی ایک تبدیلیاں فوری نظر بھی آئیں۔ گہمی گہما اور تجزیوں کے غلط ثابت ہونے پر ایک افسردہ اگرچہ میڈیا اور تجزیہ کاروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہیلری کلنٹن کی ہار اور ٹرمپ کی جیت کے بعد جہاں ٹرمپ کے حامیوں نے جشن اور ہیلری کے حامیوں نے رو کر سوگ منایا وہیں امریکہ سے کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی امیگریشن سائٹس پر رش بڑھ گیا، کینیدا کی تو امیگریشن سائٹ ہی کریش کر گئی جبکہ نیوزی لینڈ کی امیگریشن سائٹ پہ ٹریفک 2500فی صد بڑھ گئی۔صرف یہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر امریکہ سمیت دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں گر گئیںاور سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔سونے اور خام تیل کی قیمتوں میںایک بھونچال سا آگیا۔جبکہ عالمی سطح پر ٹرمپ کی کامیابی پہ مودی اور روسی صدر پوتن خوش اور جرمنی کا صدمہ ہوا نیز فرانس نے ٹرمپ کی جیت پر تشویش کا اظہار کیا۔فرانس کے صدر ما قبل بھی ٹرمپ کے بارے سخت بیانات دے چکے ہیں۔ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈانلڈ ٹرمپ نے اگرچہ کہا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے،انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اتحاد کا وقت ہے مگر ان کی تازہ باتوں سے پرانے زخم بھرنے سے رہے۔
امریکی ووٹروں اور دنیا کو ٹرمپ کے جارحانہ بیانات یاد ہیں نیز ٹرمپ کی طبیعت اور مزاج کو دیکھتے ہوئے ان سے کسی بھی جارحانہ غلطی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ٹرمپ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تو عراق،شام،لیبیا،افغانستان کی ابتر صورتحال ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ شام میں داعش کے مقابل کسے سپورٹ کرے؟ اوباما انتظامیہ تو داعش کے مقابل ایسے جنگجو گروپوں کو سپورٹ کر رہی ہے جو اس کی نظر میں داعش سے کم ظالم ہیں۔القاعدہ،داعش،بوکو حرام،طالبان اور اس کے مختلف دھڑے،الغرض انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑے چیلنجز ہیں، مگر مسلم مملک اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے امتیازی سلوک امریکہ مخالف جذبات کو مزید بھڑکا کر نجی جہاد کے نئے رستے بھی کھول دے گا۔یہی نہیں ٹرمپ کو یورپ کے ساتھ تعلقات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ فرانس اور جرمنی کو ٹرمپ کی صدارت پر تشویش ہے۔یہ تشویش دراصل ٹرمپ کے ان جارحانہ بیانات کے باعث ہے جو انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں مختلف اوقات میں دیے۔اسی طرح ٹرمپ کو اندرونی محاذ پر بھی مشکلات ضرور در پیش ہوں گی۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے متعدد شہروں میں ہزاروں افراد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد مظاہرے کیے ہیں۔ان مظاہروں میں شریک افراد، ‘یہ میرا صدر نہیںکے نعرے لگا رہے تھے اور انھوں نے ٹرمپ کے پتلے بھی نذرِ آتش کیے۔جمعرات کو ان کی صدر اوباما سے ملاقات ایک مشکل ملاقات ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ نے نہ صرف اوباما کی امریکی شہریت پر سوال اٹھایا تھا بلکہ وہ ان کی کئی اہم پالیسیوں کو ختم کرنے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔صدر اوباما نے بھی ٹرمپ کے خلاف انتہائی سخت انتخابی مہم چلائی تھی اور انھیں صدارتی منصب کے لیے ناموزوں قرار دیا تھا تاہم اب انھوں نے تمام امریکیوں پر انتخابی نتائج تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔
اوباما نے کہا: ‘اب ہم سبھی ان کے امریکہ کو متحد رکھنے اور اس کی قیادت سنبھالنے کی کامیابی کے متمنّی ہیں” ۔ اوباما نے لوگوں کو متحد رہنے کی بات کہی ہے جبکہ ہلیری کلنٹن نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ ٹرمپ کو قیادت سنبھالنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ تاہم ان بیانات اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے خلاف امریکہ کی کئی ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔نیویارک میں ہزاروں افراد نے ٹرمپ ٹاور کی جانب مارچ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن، ہم جنس پرستی اور اسقاطِ حمل کے بارے میں پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔پولیس نے پہلے ہی اس عمارت کے آس پاس سکیورٹی سخت کر دی تھی اور روکاٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس احتجاج میں شریک 15 افراد کو پولیس نے حراست میں بھی لیا ہے۔یوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کے ساتھ معاملات کرنے میں دشواریوں کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے دشواری امریکہ کے داخلی حالات بھی ہیں۔اس بات کا تکرار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع،جارحانہ اور متعصبانہ بیانات نے انتخابی مہم تو سنسنی خیز بنا دی تھی مگر اس کی شخصیت کے منفی پہلو ان کی ساری صلاحیتوں کو زنگ آلود کر گئے ہیں اور دنیا کو اسی بات پہ تشویش ہے۔البتہ ہم امید کرتے ہیں کہ کانگرس،ریپبلکن پارٹی کے سینئیر سیاستدان،امریکی اسٹیبلشمنٹ،وائٹ ہاوس کے مشیر اور امریکی پالیسی ساز دنیا میں کوئی منفی اور تباہ کن سرگرمی نہیں ہونے دیں گے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں