پارس جیسے لوگ۔۔۔شکور پٹھان

” یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ اب ہم آپ کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی لئے چلتے ہیں جہاں پاکستان اور دولت مشترکہ کی ٹیموں کے درمیان پہلا غیرسرکاری ٹسٹ میچ کھیلا جارہا ہے۔ ہمارے کمینٹیٹرز ہیں عمر قریشی اور جمشید مارکر”

جمشید مارکر، یا عمر قریشی کے جمی ، یہ وہ نام تھا جو بچپن سے کان میں پڑا اور ہمیشہ اپنا سا لگا۔ ان دنوں ہم سلیم رضا ، آئرین پروین اور ایس بی جون کے گیت سنتے، نیلو، شبنم اور روزینہ اور سبھاش گپتا کی فلمیں دیکھتے، روبن گھوش، سبل داس اور دیبو بھٹا چار یہ کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔ والس میتھائس اور انٹاؤ ڈی سوزا کو کرکٹ کھیلتے دیکھتے اور کبھی یہ سوال ذہن میں نہیں آتا کہ یہ کون ہیں، کون سے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم سلیم رضا کی ” شاہ مدینہ، یثرب کے والی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی ، یا پھر جان بہاراں رشک چمن کو سنتے ، اس کے فن کی داد دیتے، ہم “آئے موسم رنگیلے سہانے ” والی نیلو کے رقص دیکھتے اور کبھی نہ سوچتے کہ اس کا نام مارگریٹ ہے۔ ٹیلیویژن پر اس باوقار خاتون ” سنتوش رسل ” کو دیکھتے اور کبھی خیال نہ کرتے کہ یہ یہودی النسل ہے۔ “آرٹس کونسل ” یا فلیٹ کلب یا میٹروپول ہوٹل میں ایمی منوالا، تارا اور نیلما گھنشیام کے رقص کا لطف اٹھاتے ہوئے کبھی نہیں سوچتے کہ ان کا دین دھرم کیا ہے۔ ہم لوگوں کو صرف ان کے کام، ان کے ہنر اور ان کے فن کی وجہ سے یاد رکھتے تھے اور سراہتے تھے۔

یہ دوسرا پیریڈ ہے اور میں کلاس سے باہر ہوں کہ آج اسائمنٹ کر کے نہیں آیا ہوں۔ کامن روم کارخ کرتا ہوں جہاں کوئی نہیں ہے۔ واپسی کا ارادہ کرتا ہوں تو سہیل حیات اندر داخل ہوتا ہے۔ سہیل قومی ٹیبل ٹینس چیمپئن ہے۔
” کیا خیال ہے ، ایک دو گیم کھیل لیں” وہ میرے ہاتھ میں ریکٹ دیکھ کر پوچھتا ہے۔
اور میں جسے معمولی سا کھیلنا آتا ہے،گویا اسی موقع کی تلاش میں تھا۔ سہیل حیات ہمارے کالج میں نیا نیا آیا ہے۔ وہ عام طور پر کالج میں نہیں کھیلتا۔ دوسری طرف مجھے ہمیشہ اچھے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا شوق رہتا تھا۔ میں ان سے کبھی جیت تو نہیں پاتا تھا لیکن سیکھنے  کو بہت کچھ ملتا تھا۔ میرا کھیل بھی کچھ ایسا تھا کہ مقابل کبھی بور نہیں ہوتا تھا۔ میں اچھے کھلاڑیوں کے ساتھ انہی کے انداز میں کھیلنے کی کوشش کرتا۔
” let’s make rallies”
سہیل کہتا ہے، اور ہم بجائے گیم کھیلنے کے اپنی توجہ ریلی پر مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ قریب ہی بنچ پر پاؤں رکھے اور گٹھنے پر ٹھوڑی جمائے، کوئی ہمیں بہت محویت سے دیکھ رہا ہے۔
” Good”ریلی ٹوٹتی ہے اور مجھے آواز آتی ہے .
یہ سائرس ہے جو ہمیں ستائشی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
” nice racket” سائرس میرے بلے کی تعریف کرتا ہے جو میرے چچا بحرین سے میرے لئے لانے تھے۔
” تم کھیلو گے” میں پوچھتا ہوں۔
” نہیں ، تم لوگ کھیلو۔۔اچھا کھیل ہورہا ہے”
میں سیاہ گھنگریالے بالوں اور چمکدار آنکھوں والے اس گورے چٹےلڑکے کو نہیں جانتا، صرف اس کا نام معلوم ہے۔ یہ بہت اچھی ٹیبل ٹینس کھیلتا ہے۔
” لو تم کھیلو” میں ریکٹ اس کے حوالے کرتا ہوں ۔
زوردار شاٹس اور گھومتی ہوئی سروس کے کمالات کے درمیان سائرس رک کر پوچھتا ہے کہ تم لوگ کوئی ڈرنک لوگے۔ میں ” کوک ” لینے جارہا ہوں۔
کامن روم کے دوسرے حصے میں کینٹین ہے۔ وہ ایک ہاتھ میں کو کا کولا کی بوتل لئے نمودار ہوتا ہے۔
“Would you like to share ?, Take a sip”
وہ بوتل میری طرف بڑھاتا ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود بوتل میرے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ میں ایک گھونٹ لے کر بوتل واپس دیتا ہوں جسے وہ سہیل کی طرف بڑھا دیتا ہے۔ وہ شکریہ کے ساتھ ایک دو گھونٹ لیتا ہے۔
مجھے نہیں علم کہ غیرمسلموں کے ساتھ کھانے پینے کے کیا احکامات ہیں۔ ان کے لئے کس طرح کے برتن ہونے چاہئیں۔ یہ تو تب سوچتا جب مجھے معلوم ہوتا کہ سائرس میرے مذہب کا نہیں ہے۔ یہ باتیں کبھی ذہن میں آتی ہی نہیں تھیں۔

اور یہ کیا تماشہ ہورہا ہے۔
یہ ایک طویل القامت اور صحتمند لڑکا، ہاتھ میں بڑی سی ٹرافی لئے ہوئے ہر طالبعلم کے پاس جارہا ہے اور ٹرافی منہ کے آگے کرکے کہتا ہے کہ ایک گھونٹ لو۔
ٹرافی میں کوکا کولا بھری ہوئی ہے۔
We won All Pakistan Inter Collegiate Swimming Championship.
وہ مجھے بتاتا ہے۔ اس کا نام ” روسی ” ہے۔ اس پارسی طالبعلم نے اکیلے یہ ٹرافی جیتی ہے لیکن سب کو بتارہا ہے کہ “we won” .
اور ٹرافی سے گھونٹ لینے والے لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی ہیں۔ ان میں ثمینہ بٹ بھی ہے جو شادی کے بعد ثمینہ پیرزادہ بننے والی ہے۔ اس میں میرا دوست اور کوئز ٹیم کا ساتھی لوئیس بھی ہے۔ اس میں افریقی اور عرب لڑکے بھی ہیں جو کراچی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
ایک ہی ٹرافی سے منہ لگا کر پینے سے بیماری ہوگی، غیر مذہب کے منہ لگنے سے ٹرافی ناپاک ہوگئی یا اس طرح کی باتوں کا کسی کو ہوش ہی نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے کالج کی کامیابی کی خوشی منا رہے ہیں۔

ہمارا کالج کئی لحاظ سے منفرد تھا۔ یہ کراچی کا سب سے بہترین کامرس کالج تھا ۔ اس میں عموماً میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لانے والے طلبا کو ہی داخلہ ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں جب کامرس کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کا تناسب بہت ہی کم ہوتا تھا، ہمارے کالج کا نتیجہ سو فیصد ہوتا۔ اکثر پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن بھی ہمارے ہی کالج کی ہوتی۔
کاروباری طبقے کے لوگ اپنے نونہالوں کو یہاں داخلہ دلوانے کی کوشش کرتے اور یہاں متمول گھرانوں کے طلبہ کی اکثریت تھی لیکن ہم جیسے غریب اور درمیانے طبقے کے وہ طلبہ بھی ہوتے جنہوں نے سڑک کی روشنی میں امتحان کی تیاری کی ہوتی تھی۔ امیر غریب کے فرق کو مٹانے کے لئے ہمارے کالج میں یونیفارم پہننا لازمی تھا اور یہ شاید واحد کالج تھا جہاں کے لڑکے باقاعدہ یونیفارم پہنتے اور اس معاملے میں ڈسپلن بہت سخت تھا۔
اور اس کالج میں چند ایک برادریاں بڑی نمایاں تھیں۔ چونکہ یہ کامرس کالج تھا چنانچہ اکثر سرمایہ داراور صنعتکار اور تجارت سے وابستہ گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں نظر آتے جن میں اکثریت میمن برادری کی تھی۔ دوسرے نمبر پر چنیوٹی اور دہلی پنجابی سوداگر ان کے گھرانوں کے طلبہ ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور نمایاں اور منفرد ” پارسی” گھرانوں کے چشم وچراغ تھے۔

سائرس اور روسی کے علاوہ مجھے کسی اور پارسی لڑکے کا تو یاد نہیں لیکن لڑکیاں بہت ساری تھیں۔ اور ان میں بھی ” نرگس بومن ابادان” تو گویا کالج کے ما تھے کا جھومر تھی۔
دبلی پتلی، چھوٹے سے قد کی نرگس ، یونیفارم کی سفید شلوار قمیص میں اسکول کی طالبہ لگتی، لیکن اسی نرگس نے انٹرمیڈیٹ اور بی کام کے امتحانوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی ۔ نرگس اور میں ایک ہی کلاس میں تھے لیکن ہمارے سیکشن الگ تھے۔ ایک باراس کی کلاس کے پاس سے گذرتے ہوئے اس پر نظر پڑی، قریب کی مسجد سے ظہر کی اذان ہورہی تھی۔ سر اور چہرے کو گھیرے ہوئے سفید دوپٹّے میں اس کا چہرہ کسی نہایت پاکیزہ حور کا سا لگ رہا تھا۔

اس کے ساتھ ” روشنی منو چہر” ہوتی تھی جو ایک بار ایک کوئز پروگرام میں ہماری ٹیم میں شامل تھی۔ اور تیسری جو تھی وہ بڑی عجیب وغریب چیز تھی۔ یہ تھی ” فیروزی دستور” ۔ اس کا سرخ و سفید چہرہ اور اسکی نرم سی جلد دیکھ کر لگتا کہ کسی زچہ خانے سے نرس ، تولیے میں لپٹے نومولود بچی کو اس کے باپ کے حوالے کررہی ہے۔ میں جب بھی اسے دیکھتا مجھے ایک یا دودن کا بچہ یاد آتا۔ جی چاہتا کہ اس کے چہرے کو چھو کر دیکھوں کہ کیا واقعی نوتولد بچوں جیسی ریشمی نرمی ہے یا صرف میری نظر کا دھوکہ ہے۔
تعلیم ختم ہونے کے ایک سال بعد میں بحرین چلا گیا۔ میں نے اس کے علاوہ پاکستان میں کبھی پارسیوں پر غور نہیں کیا۔ گوکہ وہ اور گو انیز عیسائی اکثر فریر ہال اور کلفٹن وغیرہ کے آس پاس، وکٹوریہ میں ہوا خوری کرتے نظر آتے، لیکن یہ سب کراچی کے پرسکون، پرامن اور رنگ برنگے لینڈ اسکیپ کا حصہ نظر آتے اور کبھی، عیسائی، پارسی، گجراتی، مکرانی، پٹھان یا پنجابی کی تفریق ذہن میں نہ آتی اور یہ سب کچھ گویا معمول کا حصہ تھا۔

اور اب ذرا بحرین کا یہ قصہ سنئیے۔
یہ رمضان کے دن ہیں۔ آج میری چھٹی ہے اور میں اپنے دوست یوسف کے گھر پر ہوں جو تین اور “چھڑوں’ کے ساتھ رہتا ہے۔ یوسف اور اسکے دو ساتھی عصر کے بعد اپنی نیند پوری کررہے ہیں۔ کچن سے کھٹ پٹ کی آواز سن کر میں وہاں چلا جاتا ہوں۔
یہاں ایک دبلا پتلا سا گورا سا لڑکا، چولہے کے سامنے مونڈھے پر بیٹھا ایک کڑاہی میں چانپیں تل رہا ہے جنہیں ‘ میش” کئے ہوئے آلوؤں میں لپیٹا ہوا ہے۔باورچی خانہ اس ” تلہن” کی خوشبو سے مہکا ہوا ہے۔

کچھ دیر بعد یوسف اور اس کے ساتھی بھی یکے بعد دیگرے اٹھ کر آرہے ہیں، ان میں سے یہ صاحب جو عمر میں سب سے بڑے ہیں اور کچھ “شوقین مزاج” ہیں اور شاید روزے سے بھی نہیں ہیں، ستائشی نظروں سے چانپیں دیکھتے ہیں۔
” اس کا مزہ تو وہسکی کے ساتھ آئے گا”
میں، یوسف اور تیسرے دوست بد مزہ تو ہوتے ہیں لیکن ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ نہیں کہتے۔
” سالا کچھ شرم کر۔۔روز ے کے دن ہیں ” یہ پرسی ہے، وہ چھوٹا سا لڑکا جو چانپیں تل رہا ہے۔ یہ کوئی پارسی پکوان ہے۔
پرسی خود بھی پیتا ہے لیکن رمضان میں بوتل کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ اور اپنے ساتھیوں کے لئے افطار بناتا ہے۔ پرسی بھی کراچی کا پارسی ہے۔

اور یہ ہلٹن ہوٹل بحرین ہے جہاں میں کام کرتا ہوں۔ میں ایک ساتھی کو جھاڑ پلا رہا ہوں جس سے کام میں کوئی غلطی ہوگئی ہے۔
” اچھا ٹھیک ہے! ابھی جانے دے، نیکسٹ ٹائم کھیال رکھوں گا” یہ سام ہے ۔ سام دارو والا۔

میں نے بحرین کی ملازمت چھوڑ دی ہے اور داہران ، سعودی عرب آگیا ہوں ۔ یہ ایک نیا ہوٹل ہے، ابھی تقریباً خالی ہے، اسٹاف کے لوگ بھرتی ہورہے ہیں، زیادہ تر بحرین سے ہی آرہے ہیں جو کہ داہران سے قریب ہے۔
” Wow!!! You are also here”
یہ سام ہے جو آج ہی یہاں پہنچا ہے۔ مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔
ہماری رہائش ہوٹل کے عقب میں ہی ہے۔ ہر کمرے میں حسب مراتب چار، تین ، یا دو لڑکے رہتے ہیں۔ زیادہ سینئر ملازمین کی رہائش فی الحال ہوٹل ہی کے کمروں میں ہے۔
میں اپنے کمرے میں تنہا ہوں لیکن مجھے کسی کو اپنے کمرے میں رکھنا ہوگا جو میرا ہی ہم مرتبہ ہو۔ سام کو تین لوگوں کے کمرے میں رہنا ہے۔
” یار میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ تم مجھے اپنے ساتھ رکھ لو۔”
میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہوٹل والے میری بات نہیں ٹالتے۔ میں سام کو اپنے کمرے میں لے آتا ہوں۔
سام دارو والا، بھی پارسی ہے اور بڑی مزیدار چیز ہے۔ لیکن اس کے قصے اس وقت میرا موضوع نہیں۔ بس ایک کہانی سنانی ہے جو ذرا طویل ہے لیکن سنانی ضروری ہے۔

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔۔۔

علامہ نے تو یہ کسی اور تناظر میں کہا ہوگا۔ میرے ساتھ واقعہ یہ ہوا کہ صنم خانے والوں نے مجھے کعبہ پہنچایا،
ہوا یوں کہ سعودی عرب پہنچنے کے دو ماہ بعد ہی حج کا مہینہ تھا۔ شدید خواہش تھی کی یہ سعادت اسی سال حاصل کی جائے کہ آئندہ کا کیا بھروسہ۔ لیکن میرا کام کچھ ایسا تھا کہ میرا کوئی متبادل نہیں تھا جو میری جگہ کام سنبھال سکے۔ یہ ہوٹل نیا بنا تھا اور کمپنی کا نائب صدر مالیات Vice President Finance میرے ساتھ مل کر وہاں کے مطلوبہ نظام کی تنصیب کررہا تھا۔ ان گوروں کا کام کرنے کا انداز ہمارے دیسی صاحب بہادروں سے ذرا مختلف ہے، ہم دونوں مل کر ساتھ کام کرتے۔ مختلف چیزوں کو ٹیسٹ کرتے، اسٹاف کی ٹریننگ کرتے۔ وقت کی کوئی پابندی نہ تھی۔ چونکہ کام جلد ختم کرنا تھا اس لئے ہر وقت ڈیوٹی پر رہتے۔ جب تھک جاتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کیا خیال ہے کچھ آرام کرلیا جائے۔ یہ نائب صدر نیدر لینڈ کا ایک نوجوان اور خوش مزاج شخص تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد پھر کام پر پہنچ جاتے اور دن رات کام چلتا رہتا۔ یہ کام ابھی ادھورا تھا،( بدقسمتی سے اس وقت مجھے اپنے محسن کا نام یاد نہیں آرہا)حج پر جانے کے دن قریب آئے تو میرا باس کسی کام سے شہر سے باہر چلا گیا۔ میری حج کی چھٹی کی درخواست نامنظور کردی گئی، نامنظور کرنے والا پرسنل مینیجر ایک مصری مسلمان تھا۔ بہر حال وہ اجازت نہ دینے میں حق بجانب تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ ابھی میرا بلاوا نہیں آیا، صبر کرلیا اور جو کچھ پیسے سفر حج کے لئے رکھے تھے وہ گھر بھیج دئیے کہ بقر عید آنے والی تھی اور وہاں ضرورت تھی۔

آخری دو دن تھے کہ میرا باس واپس آگیا۔ اسے بتایا گیا کہ شکور حج پر جانا چاہتا تھا لیکن اسے منع کرنا پڑا۔ باس اس پر ناراض ہوا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ کسی مسلمان کو حج سے کیسے روک سکتے ہو۔ اسے جانے دو، میں اس کی جگہ کام کروں گا۔

خدا کے  دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال۔۔۔

اللہ نے اس حقیر سے بندے ، ایک معمولی سے اہل کار کے لئے ایک کافر، اور اتنے بڑے عہدے پر فائز شخص کے دل میں نیکی ڈالی۔ اور میں نے حج کی تیاری شروع کردی۔
ایک دن میں حج کی بھلا کیا تیاری ہوتی، اور تیاری کرنے کےلئے پیسے کس کے پاس تھے۔ تین اور ساتھیوں نے رینٹ اے کار سے گاڑی لی تھی جس کی ادائیگی واپسی کے بعد کرنی تھی، انہیں چوتھے ساتھی کی تلاش تھی جو میری شکل میں مل گیا۔ سفر خرچ کا مسئلہ تو آصل ہوا۔ میں نے احرام ، چپل، احرام پر باندھنے کی پیٹی، اور چند ڈبہ بند کھانے کے ٹن خریدے۔ ایک چھوٹا قرآن، ایک جا نماز ایک بیگ میں رکھے۔ ہاں ایک پلاسٹک کا لوٹا رکھنا نہ بھولا۔ اور یہ لوٹا آگے چل کر سب سے زیادہ کارآمد شے ثابت ہوا۔
میں یہ خریداری کرکے لوٹا تو ” سام” کمرے میں موجود تھا۔ یہاں ہم سب کا حال ایک دوسرے پر آشکارا رہتا تھا۔ ہم ساتھ ہی دمام یا الخُبر جا کر گھر کے لئے ڈرا فٹ بناتے تھے۔ سب کو ایک دوسرے کی جیب کی خبر رہتی تھی۔
سام نے اپنے بٹوے سے سارے پیسے نکال کر میری جیب میں ٹھونس دیئے۔
یہ کیا ہے؟ میں نے پوچھا۔
” مجھے پتہ ہے تیرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ راستے میں ضرورت پڑے گی۔ ”
” نہیں سام ہم قرض لے کر حج نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی میرا گذارہ ہوجائے گا”
سام اصرار کرتا رہا لیکن میں نے اس کے پیسے واپس کردیئے۔ لیکن میرا یہ فتوی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا۔
ہم دوسرے دن فجر کے بعد حج کے سفر پر روانہ ہونے کے لئے کار میں سوار ہورہے تھے۔ ہمارے، مسلم، غیر مسلم ساتھی گلے مل کر ہمیں رخصت کررہے تھے۔ اچانک کسی کو یاد آیا کہ وہاں قربانی بھی کرنی ہے۔
” تمہارے پاس پیسے ہیں’
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں تھا اور سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ کچھ سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
سوچا وہاں چل کر کسی ساتھی سے پوچھ لوں گا اور واپس آکر دیدیں گا۔ لیکن ان کے پاس بھی کوئی بہت زیادہ پیسے نہیں تھے۔ میری طرح انہیں بھی یہاں دوسرا مہینہ ہی ہوا تھا اور ان کی تنخواہ تو مجھ سے بھی کم تھی۔
‘ تم مجھ سے لے لو ، واپس آکر دے دینا’ یہ وپن کمار تھا، وپن پنجابی ہندو تھا،
‘ نہیں یار۔ قرض کے پیسوں سے حج نہیں ہوتا’ مجھے یاد آیا۔
” یہ ادھار نہیں میرا تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔ بغیر پیسوں کے اتنے لمبے سفر پر جانا ٹھیک نہیں’
دوسرے ساتھیوں نے بھی وپن کی تائید کی اور میں نے اس سے پیسے لے لئے۔
اللہ کے کام اللہ ہی جانے۔ میرا ولندیزی، عیسائی باس مجھے حج پر بھیج کر میری جگہ کام کرتا ہے، پارسی ، سام میری جیب میں پیسے ڈالنا چاہتا ہے، اور ہندو ‘وپن ‘ مجھے زاد راہ کے لئے پیسے دیتا ہے ( جو میں نے واپسی پر پہلی تنخواہ ملتے ہی واپس کردئیے لیکن اس کا اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے) ۔ اللہ جانے ان کافروں کی مدد سے کیا ہوا حج قبول ہوا یا نہیں۔

بات ذرا لمبی ہوگئی۔ بات ہورہی تھی پارسیوں کی۔ سام دارو والا کچھ دنوں میں بمبئی واپس چلا گیا، میرے کمرے میں ایک سری لنکن بدھسٹ آگیا۔ لیکن یہاں دو اور پارسی دوست بن گئے، ایک عادل واڈیا دوسرا عادل پالکی والا ۔ خوش شکل، سادہ دل پالکی والا آج بھی فیس بک پر میرا دوست ہے۔

۱۹۸۳ میں، میں دوبئی آگیا۔ یہاں جہاں میں کام کرتا تھا صرف تیس پینتیس لوگ تھے۔ لیکن تقریباً تمام اہم مذاہب کے لوگ میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ مسلمان، ہندو، مسیحی، تو تھے ہی، ایک، سکھ، ایک بدھسٹ اور ایک پارسی بھی ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ ایک یہودی النسل جرمن بھی کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہا۔
فریڈی وریاوا ہمارا پارسی ساتھی انتہائی قابل اور ذہین تھا۔ دوسال بعد وہ ایک بنک میں بہت اعلی پوزیشن پر ملازم ہوگیا۔
ان پارسیوں کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہیں۔ یہ اپنی برادری سے باہر شادی نہیں کرتے، چنانچہ کہتے ہیں کہ ان کی اولاد یا تو بہت زیادہ ذہین ہوتی ہے، یا انتہائی غبی۔ فریڈی بہت پڑھا لکھا اور اپنے کام کا ماہر تھا، لیکن دماغی طور پر میری طرح کا پٹھان تھا۔ فریڈی کے ساتھ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے لیکن آپ ابھی ابھی ایک طویل قصہ جھیل چکے ہیں۔ دوسرا آپ کی برداشت سے باہر ہوگا۔ ہاں مختصرا ً یہ بتا دوں کے اس کہانی کے چار کرداروں میں میرے علاوہ ایک سردار، ایک بدھسٹ اور ایک فریڈی شامل تھے۔ ایک جھگڑے میں سکھ کے مقابلے میں، بدھسٹ سکریٹری خاتون کے کہنے پر فریڈی، جو دراصل فریدون تھا، نے میرا ساتھ دیا تھا۔
پرسی، سام دارو والا، عادل واڈیا، عادل پالکی والا اور فریڈی کی صحبت سے مجھے اس برادری کی کچھ جھلکیاں دیکھنے ملیں جسے میں برصغیر کی سب سے بہترین اور انسان دوست قوم سمجھتا ہوں۔ ُ

اپنے کام سے کام رکھنے والے پارسی، جہاں بھی ، جس خطے میں رہتے ہیں، وہاں کے مکمل وفادار شہری ہوتے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتیں وہاں کی تعمیر و ترقی کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ یہ انتہائی پرامن لیکن سچے اور کھرے لوگ ہیں۔ دل کی بات زبان پر لانے میں انہیں ذرا بھی وقت نہیں لگتا اور منافقت کس چیز کا نام ہے اس سے یہ واقف نہیں۔
سادگی ان کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہے اس لئے ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ یہ بڑے بذلہ سنج ہوتے ہیں اور ان کی حس مزاح مشہور ہے۔ اور یہ دوسرے کا مذاق نہیں اڑاتے، اپنے آپ پر دل کھول کر ہنستے ہیں۔
باہر آنے کے بعد میں نے کبھی ان کے لئے لفظ ” پارسی” استعمال نہیں کیا۔ ہم انہیں ” باوا لوگ’ کہتے ہیں، یہ وہ نام ہے جو بمبئی میں ان کی پہچان ہے۔

خیراتی اور فلاحی کاموں میں ہندوستان اور پاکستان کی کوئی قوم ان کا پاسنگ بھی نہیں۔ اپنے کراچی میں ہی پھیلے ہوئے ان کے فلاحی ادارے دیکھ لیں۔ ایڈولجی ڈنشا ڈسپنسری، انکلسریا ہاسپٹل، این ای ڈی انجینئرنگ کالج (اور اب یونیورسٹی) ماما پارسی اسکول، این جے وی ہائی اسکول، جہانگیر کوٹھاری پریڈ، جہانگیر ہیلتھ سنٹر اور نہ جانے کیا کچھ ان کی خدمت گذاری کے نشان میرے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جمشید نسروانجی بارہ سال میرے شہر کا مئیر رہا اور خدمت کی ایک طویل داستان رقم کی۔

خیراتی اور فلاحی کام ، پارسی قوم کی پہچان ہیں۔ اپنے گھروں میں سادگی سے رہنے والے یہ سادہ دل لوگ، اپنی ضرورت سے زائد ہر چیز اپنی برادری کے لئے وقف کردیتے ہیں۔ ان باوا لوگوں کے خیرات کے تین اصول ہیں۔
ضرورتمندوں کو بن مانگے دو، ( آپ کو سام یاد آیا؟)
کسی کے مانگنے پر فورا ً دو
اگر کسی سے مدد کا وعدہ کیا ہے تووقت پر دو ( تاکہ یاددہانی کرا کر سائل کی عزت نفس مجروح نہ ہو)
دولت جسے عام طور پر تمام برائیوں کی جڑ قراد یا جاتا ہے، اور ہندوؤں کے ہاں تو ‘ مایا جال” بدنام ہے، ان پارسیوں کے ہاں ایک مثبت چیز ہے۔ وہ چونکہ اسے مثبت طور پر استعمال کرتے ہیں تو اس کا پھل بھی مثبت ملتا ہے۔ وہ جو اللہ کی کتاب میں ہے کہ وہ نمازی جو اپنی نمازوں پر قائم رہتے ہیں، اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والوں اور محروموں کا۔ اس کی حقیقی تعبیر دیکھنی ہو تو ان پارسیوں کو دیکھیں۔
یہ سمجھتے ہیں کہ تمام سماجی برائیاں، جہالت، بیماریاں، بھوک، احتیاجات، غربت کے بطن سے جنم لیتی ہیں، چنانچہ نہ خود غریب رہو، نہ کسی اور کو غریب رہنے دو۔

ہمارے ملک میں ایک نعرہ، اور فلموں کا ایک لازمی مکالمہ ” غیرت ‘ کی رکھوالی ہے، اور یہی ” غیرتاں دے راکھے” سوطریقوں سے مانگتے نظر آئیں گے۔ لیکن دنیا کے کسی بھی حصے میں آپ ایک بھی پارسی کو ہاتھ پھیلائے ہوئے نہیں دیکھیں گے، البتہ ہاتھ بڑھائے ضرور دیکھیں گے اور وہ جو ہمارے نبی نے کہا ہے کہ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، یہی دینےبوالےہاتھ جہاں بھی بستے ہیں عزت کی زندگی گذارتے ہیں۔
سادہ لوحی، لیکن ایمانداری اور اپنے کام سے لگن ان کا شعار ہے۔ جس شعبے میں بھی یہ نظر آئیں گے کمال کے درجے پر نظر آئیں گے۔ ان کا نصب العین ہے، اچھی بات، اچھے خیالات اور اچھے کام۔ اور ہر پارسی اس نصب العین پر کاربند نظر آئے گا۔
اپنی صلاحیتوں کو کیسے معاشرے کے کام لایا جائے، اس کا مظاہرہ پارسی قوم سے بہتر کہیں دیکھنے میں نہ آئے گا۔

میں نے جمشید مارکر سے بات شروع کی تھی۔ جمی مارکر دنیا میں سب سے زیادہ ملکوں میں ذمہ داریاں سرانجام دینے والا واحد سفارتکار ہے، ہمارے سفارتکار جو عام طور پر خوشحال ممالک میں اپنے کاروبار جمانے اور اپنے اہل وعیال کو وہاں بسانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ جمشید مارکر وہ ڈپلومیٹ تھا جو اپنی جیب سے خرچ کرکے پاکستان کے لئیے lobbying کرتا تھا۔
جسٹس دوراب پٹیل جیسا عادل اور باضمیر جج پاکستان کی عدالتی تاریخ میں خال ہی ملے گا جس نے ڈکٹیٹر کے دباؤ کو نظر انداز کرکے بھٹو کی پھانسی کیس میں اختلافی فیصلہ دیا تھا۔
آر دیشر کا وس جی جیسا کھرا اور صاف صحافی آپ کو آٹے میں نمک کے برابر نظر آئے گا۔
اور ذرا اپنے پڑوس میں نظر دوڑائیں۔
جے آر ڈی ٹاٹا، جسے جدید بھارت کا معمار مانا جاتا ہے، جسے پنڈت نہرو نے one man planning commission قرار دیا تھا، ٹاٹا گروپ کی نشانیاں ہندوستان کے طول وعریض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جمشید پور ٹاٹا جیسا شہر ، بھارت کے لئے ایک صنعتکار کا تحفہ ہے۔
بھارت کے اٹامک کمیشن کا پہلا چیئرمین کوئی اور نہیں بلکہ ہومی جہانگیر بھابھا، ایک پارسی تھا جس کے نام پر وہاں کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ کا نام ہے۔
اور برصغیر کا واحد ” اصلی” فیلڈ مارشل جس کا نام ہمارے سینوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، لیکن دنیا میں فیلڈ مارشل سام مانک شا کو اس سپاہ کا سالار مانا جاتا ہے جس نے ایک ملک کو آزادی دلائی۔
نینی پالکی والا جیسا بے مثل قانون دان، دادا بھائی نور وجی جیسا معزز سیاستدان ، ” پکار اور شاہجہاں جیسی فلموں کا سہراب مودی جیسا ہدایتکار۔ بومن ایرانی جیسا باصلاحیت اور ور سٹائل اداکار، ناری کنٹریکٹر جیسا کرکٹر، پرسس کھمباتا جیسی حسینہ عالم اور ایک طویل فہرست ہے ان پارسیوں کی جو ہندوستانی سماج کے درخشاں ستارے ہیں۔
اور ہاں پیلو موڈی، بھٹو کا دوست اور ” زلفی مائی فرینڈ” کا مصنف، سوتنترا پارٹی کا سربراہ۔ اور شارجہ میں جاوید میانداد کے چھکے پر منہ لٹکانے والی مسز گودریج، بمبئی ڈائنگ کا مالک اور میرے قائد کی بیٹی کا نواسہ ” نیس واڈیا، فلم سٹار جون ابراہیم، ارونا ایرانی، ڈیزی ایرانی، وکٹ کیپر بیٹسمین فرخ انجینئر، اور ان جیسے بہت سے۔
اور واپس اپنے ہاں آئیں۔
ایشیائی کھیلوں میں دو طلائی تمغے حاصل کرنے والا اور آواری گروپ کا مالک، بیرام ڈی آواری اور اسکی شریک حیات، ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون، گوشپی آواری جو اسکریبل کی بھی چیمپئین ہے۔
اور ففٹی ففٹی میں لمبا تڑنگا، نوکدار مونچھوں والا عادل واڈیا۔ فیشن ڈیزائنر ” نادیا مستری’ ۔ مصالحہ چینل پر مسکراتی آنکھوں اور روشن چہرے والی خوش جمال، خوش مزاج ” شیف زر نک سدھوا”۔
اور زرنک سے بپسی سدھوا یاد آئی۔ کینئیرڈ کالج کی تعلیم یافتہ انگریزی کی مشہور ناول نگار بپسی اپنے آپ کو پنجابی پارسی کہتی ہے۔
اور بھی کتنے ہیں کو میری یادداشت کے احاطے سے باہر ہیں۔ اور یہ جو میں نے کہا کہ یہ باوا لوگ جہاں بھی ہوتے ہیں ، جس شعبے میں بھی ہوتے ہیں کمال کے ہوتے ہیں اس کی ایک بڑی مثال امریکہ میں مقیم ماہر طبیعات اور سائنسدان ‘ نرگس موال والا ” ہے۔ جس نے حال ہی میں ایک بہت بڑا سائنسی کارنامہ انجام دیا ہے اور بڑا اعزاز پایا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پارسیوں کی تاریخ کیا ہے، ان کا دھرم ، ان کے عقائد کیا ہیں۔ مجھے اس بارے میں زیادہ نہیں علم نہ مجھے اس سے کوئی غرض ہے۔ اگر کسی کو اس کی کرید ہے تو انٹرنیٹ پر دیکھ لے، ساری تفصیل الم نشرح ہے۔
نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ انہیں پارسی کیوں کہتے ہیں۔
آپ نے پارس پتھر کا تو نام سنا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ یہ جسے چھو جائے اسے سونے کا کردیتا ہے،
یہ باوا لوگ بھی جس کام، جس شعبے کو چھو جائیں اسے سونے کا کردیتے ہیں ۔
شاید اسی لئے ” پارسی’ کہلاتے ہیں۔ پارس جیسے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply