اجتماعی زیادتی۔۔۔عامر اشفاق

میں کیسے کہوں کہ میری قوم اپنے ساتھ خود ہی اجتماعی زیادتی کر رہی ہے۔۔کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی دیکھنی ہو تو انکی ترجیحات پر نظر دوڑا لیں،کوئی بھی قوم شعور کی منزل تب تک نہیں پا سکتی جب تک اسکے بچے بچے کے ذہن میں تعلیم کی اہمیت، شخصی آزادی اور فرد کی عزت اسکے دل میں نہیں ہوگی۔
کچھ دیر پہلے تیراکی پر ویڈیو دیکھتے ہوئے کمنٹس پڑھے،میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔وہی ایک ویڈیو ہماری ذہنی پسماندگی کا استعارہ ہے۔
ایک شخص ،پانی میں کیسے تیرتے   ہیں ، سکھا رہا ہے،اسکے نیچے جو کمنٹس ہیں ان میں برصغیر کے لوگوں کے کمنٹس کچھ یوں ہیں
کیا بیکار ویڈیو ہے
یہ تو بچے بچے کو پتا ہے
کچھ نیا سکھاؤ
ایویں پانچ منٹ ضائع کرا دیے
بہت اچھی ویڈیو
نائس
اور یہیں تھوڑا سا کچھ ان کمنٹس کی طرف نظر دوڑاتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے تھے
آپ کمال ہو
لاجواب
سب سے زیادہ کمنٹس میں جو کہا گیا تھا وہ بتاتا ہے کسی قوم کی شعوری سطح کیسی ہے
کہ
” آپ نے تیراکی پر ویڈیو بہت اچھی بنائی ہے،لیکن تیراکی کے پیچھے جو سائنس ہے اسے بھی سمجھانا چاہیے تھا”
یہ کمنٹ مختلف انداز میں کئی لوگوں نے لکھا تھا،اور انکے نام میں کوئی برصغیر کا بندہ نہیں لگتا تھا

یہ صرف کمنٹس نہیں،یہ ہماری شعوری سطح پر ایک طمانچہ ہے،یہ وہ کفار ہیں جنھوں نے ہماری زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں شامل کی ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو کھیل کود میں سیکھنے کی فکر کرتے ہیں،اور ہم کیا ہیں؟ بشمول میرے ہم نے اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے؟ہم بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اس ملک نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟

کبھی بیٹھ کر سوچا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے جو ہم اس ملک سے ایسے حق مانگتے ہیں؟۔۔سائنس کے نام پر ہمیں نیوٹن اور آئن سٹائن کے نام علاوہ کچھ پتا ہی نہیں ہے،ایجادات کرنی تو بہت دور کی بات ہے،جو ایجادات ان کافروں نے کی ہیں وہی ہمیں استعمال تک کرنا نہیں آتیں،یونیورسٹی، کالج کتاب پڑھنے سے زیادہ نصاب پر ہزاروں اعتراض اٹھا دیتے ہیں،کبھی یہ تو نہیں کیا کہ وہی سلیبس تھوڑا سا پڑھ لیں،اساتذہ پڑھانے سے زیادہ وقت ضائع کرنے کے زیادہ شوقین ہیں،کوانٹم مکینکس کا نام سن کر طلباء ہی نہیں اساتذہ کی ٹانگیں بھی جواب دینے لگتی ہیں

اور ادھر کسی نے  نواز شریف لکھ دیا،نیچے ہماری قوم کے نوجوان عمران خان، فضل الرحمن، آصف زرداری، شہباز شریف،انکی بیویوں سے لے کر ناجائز اولادوں تک،نوکروں سے لے کر گاڑیوں تک کی تفصیل ہم نیچے کمنٹس میں ملاحظہ کر سکتے ہیں

یہ کوئی قابل فخر بات نہیں ہے. کہ کوئی اگر عمران خان کے حوالے سے سیتا وائٹ پر تنقید کرنا لازم سمجھتا ہے تو سامنے والے شہباز، کے دس ناجائز رشتے سامنے لے کر آجائیں گے،یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے،کہ ہم نے ان قومی گدھوں کے تمام مسائل کو اپنے سر پر لاد لیا ہے،اور جو ہمارے مسائل ہیں وہ اللہ پر چھوڑ دیے ہیں،یقین مانو خدا ان سب مسائل سے بے نیاز ہے،وہ آپ سے کبھی حساب نہیں لے گا کہ عمران یا شہباز کے ناجائز ریلیشنز کو آپ نے کیوں نہیں روکا،ہاں وہ یہ ضرور پوچھے گا کہ آپ نے شہباز کے دفاع میں عمران پر اور عمران کے دفاع میں نواز پر اور نواز کے دفاع میں فضل الرحمن اور فضل کے دفاع میں آصف زرداری پر اتنے سارے بہتان کیوں باندھے؟

جیسی قوم ویسے لیڈر سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر برے لیڈر مسلط کر دیتے ہیں،بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ بری قوم اپنے لیے برے لیڈر ہی چننا پسند کرتی ہے.کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ جن گھٹیا کاموں کی لت انھیں لگ چکی ہے وہ کوئی اچھا راہنما منتخب کریں اور وہ ان سے چھوٹ جائیں،میں یہ کہوں گا کہ آپ بہت بڑے دانشور ہیں،لیکن آپ کو بتا دوں کہ آپ دن میں دس کالم لکھ کر کسی فرد کو  اپنی طرف مائل کریں گے وہیں ایک دو ایسے کالم وہ سوشل میڈیا پر پڑھے گا جو اسے آپکی طرف سے منحرف اور دوسری طرف مائل کر دینگے۔

مجھے آپکے قلم پر شک نہیں ہے،مجھے اپنی قوم کی یادداشت پر اعتبار نہیں ہے۔۔۔یہ قوم جذبات سے بھری ہوئی ہے،لیکن دلیل سے عاری ہے،ہماری قوم کی اجتماعی مثال اس واقعے سے دی جا سکتی ہے
“جب ایک قاتل سے جج نے پوچھا کہ تم نے مصنف کو کیوں مارا
تو قاتل کا جواب تھا کہ اس نے کتاب میں گستاخی کی ہے
جج نے پوچھا کہ کیا گستاخی کی ہے
قاتل کا جواب کہ میں نے نہیں پڑھا میں ان پڑھ ہوں”

ہماری قوم سے پوچھیں کہ گالی کیوں دے رہے ہیں؟۔۔۔۔
کیونکہ وہ گالی دے رہا ہے
وہ کیوں اور کسے دے رہا ہے
یہ تو نہیں پتا’

میری قوم کے ذہن کی دو سطح ہیں۔ایک جہاں یہ بالکل کورے کاغذ کی طرح ہیں۔ایک بندہ انھیں کہتا ہے کہ عمران ٹھیک ہے وہ مان لیتے ہیں،دوسرا کہتا ہے نواز ٹھیک ہے وہ مان لیتے ہیں،دوسری قسم کے لوگوں کا ذہن بوسیدہ کاغذ کی طرح ہے لیکن انکے خیالات ان مٹ ہیں،انکے نزدیک انکے علاوہ باقی سب غلط ہیں
یہی ہمارے شعور کا المیہ ہے،یہی نوحہ ہے ہمارے شعور کا،ہماری قوم کی مثال بچپن میں لکھی گئی سلیٹ کی طرح ہے،کوئی آتا ہے آکر ہمارے ذہن میں اپنی دلیل بھر جاتا ہے،دوسرا آتا ہے وہ تھوک لگا کر پہلی دلیل پر ہاتھ پھیر دیتا ہے وہاں اپنے خیالات ڈال کر چلا جاتا ہے.اور ہمیں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ ہمیں ان کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روک سکیں،ہماری قوم شعوری طور پر بہت پیچھے رہ چکی ہے۔

دوسری قوموں کے نظم و ضبط دیکھ کر رونا آجاتا ہے،جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے،ایٹمی جنگ سے تباہ حال معاشرے نے کس طرح سے عالمی دنیا میں اپنا لوہا منوایا وہ شعور سے ہی ممکن ہو پایا  دور کیوں جائیں
انڈیا اور چائنہ کی مثال لے لیتے ہیں،آج چائنہ ٹیکنالوجی میں پچاس اور انڈیا بیس سال ہم سے آگے ہے
ایک ساتھ آزاد ہونے والی ریاست میں شعور کا یہ عالم اور ہماری قوم کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم کہ پانی ختم ہوگیا ہے کہتے ہیں سمندر کا پانی صاف کریں گے

ظالمو، ہمارے حکمران اتنے ہی اعلیٰ ذہن کے کام کرنے والے ہوتے تو آج کیا ہمارا پانی ختم ہوجاتا؟
غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ہماری قوم کے پاس لکھنے کے لیے صرف دو مشاغل ہیں،نثر میں سیاست اور شاعری میں محبت۔۔علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور چند ایک اور کے علاوہ ہماری شاعری میں محبوب نامی مخلوق کے علاوہ بچتا ہی کیا ہے۔سیاست میں گالی چھوڑ کر ہمارے پاس کیا دلیل بچتی ہے؟

کل ایک تصویر دیکھی جہاں لوگ لائبریری میں جانے کے لیے سینکڑوں میٹر کی لائنوں میں لگے تھے  اور مجھے اپنے لنگر خانوں کی دھکم پیل یاد آگئی،مہذب معاشرے کی ہر تصویر ہمارے ذہنوں میں اجتماعی دھماکہ ہے
کاش کہ ہم وہ دھماکہ سن پائیں۔میری قوم کو شعور کی اس سطح پر آنے کے لیے ہمیں بیس پچیس سال مزید انتظار کرنا ہوگا،قوموں کے سال فرد کے مقابلے میں صدی کے برابر ہوتے ہیں،ایک فرد جتنا اپنے آپکو ایک سال میں تبدیل کر سکتا ہے وہی تبدیلی اگر قوم پر لاگو کی جائے تو سال کی بجائے نصف صدی لگ جائے گی

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ ہمارے پرانے گدھے فوت ہوجائیں،ہمیں اجتناب برتنا ہوگا انکی نسلوں کے اجتماع سے،ہمیں رکنا ہوگا کہ یہ ناسور خودبخود ختم ہوجائیں،ہم نے ستر سال تک آزادی کے نام پر غلامی کی زندگی جی ہے،ہم مزید تیس سال رک کر صبر کی سنچری بھی کر لینگے،لیکن اس دوران ہمیں تہیہ کرنا ہوگا کہ ہماری آنے والی نسل، تہذیب و اخلاق کا پیکر ہو،ہمیں انکی ایسی تعلیم و تربیت کرنا پڑے گی کہ انکے ذہن میں دشمنی کا تصور ہی دوسرا دینا ہوگا ہمیں انھیں باور کرانا ہوگا کہ ہمارے دشمن انڈین، امریکن یا اسرائیلی نہیں ہیں
ہمارے دشمن سنی یا شیعہ نہیں ہیں
ہمارے دشمن وہ ہیں جو مذہب کو بیچتے ہیں
ہمارے دشمن وہ ہیں جو چوریاں کرتے ہیں
ہمارے دشمن وہ ہیں جو کرپشن کرتے ہیں
ہمارے دشمن ہمارے ہمسائے نہیں ہیں
ہمارے دشمن دفتروں میں فائل کے لیے خرچہ پانی مانگنے والے ہیں
ہمارے دشمن وہ ہیں جو پھل کے پیسے لے کر گلا سڑا پھل ڈالتے ہیں
ہمارے دشمن وہ ہیں جو گالی دیتے ہیں
انھیں بتانا ہوگا کہ ہمارے دشمن ہم خود ہیں
جس دن انھیں یہ پتا چلے گا میں آپکو بتا دوں پھر فیس بک پر بھی ہُو کا عالم ہوگا،لائبریریوں میں لائن لگے گی،پھر ضلع  میں ایک لائبریری کی بجائے دس گھر پر مشتمل گاؤں میں مسجد کے ساتھ لائبریری بھی ہوگی،میں آپکو بتا دوں تب امید کی کرن نہیں مکمل سورج طلوع ہوگا

Facebook Comments

عامر اشفاق
میں نعرہ مستانہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply