مولانا مودودیؒ کے ساتھ علماء کا متعصبانہ رویہ

اختلاف رائے ایک حسن ہے۔ خاص کر علمی میدان میں بڑے بڑے آئماِ کرام کے درمیان بھی یہ حسن موجود رہا ہے۔ لیکن اختلاف، تنقید اور تذلیل میں فرق ہے۔ اختلاف کا حق تقریباً ہر کسی کو حاصل ہے اور تنقید کا حق ہر کسی کے لئے نہیں جبکہ تذلیل کا حق کسی کوبھی حاصل نہیں ہے۔ کسی شخصیت کی برتری دوسری شخصیت پر یا تو اس شخصیت کے ذاتی کردار و عمل کی بنیاد پر ہوتی ہے یا اس شخصیت کی دینی خدمات کی بنیادپر۔ اسی طرح کسی کتاب کی فضیلت دوسری کتاب پر یا تو مصنف کی فضیلت کی وجہ سے ہوتی ہے یااس کتاب میں صحت کا جو التزام کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ہوتی ہے، یا جمہور علماء اسلام میں اس کی مقبولیت کی وجہ سے ہوتی ہے، یا حسن ترتیب اور تمام اہم مقاصد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اگر ہم مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا جائزہ لیں تو اسلام کی تاریخ میں امت کے بڑے بڑے مجددین اور مفکرین عمر بن عبدالعزیزؒ، ائمہ اربعہ، امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، شیخ احمد سرہندیؒ، شاہ ولی اللہ، سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمعٰیل شہید کے بعد تجدید احیائے دین کے میدان میں ایک ایسے دور میں مولانا مودودیؒ جیسی مفکر شخصیت ملتی ہے، جب پوری دنیا کے اندر نظاموں کی کشمکش کا دور تھا۔ ایک طرف مغرب کا تہذیبی سرمایہ درانہ نظام تو دوسری طرف مشرق سے ابھرتا ہوا سوشلزم اور کمیونزم کا نظام۔ اور مولانا مودودیؒ جیسی شخصیت نےاسلام کو ازسرنو بڑے مدلل انداز میں نظاموں کی اس کشمکش میں ایک نظام کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ کی شخصیت نےبیسویں صدی کی اسلامی فکر پر سب سے گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ نے امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ کے فکری اور علمی کام کوآگے بڑھایا۔
فکر اسلامی کی تشکیل نو کی، امت کے زوال کے اسباب کی نشاندہی کی اور اصلاح کے لئے عملی جہدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی دینی خدمات کی وجہ سے 1979ء میں پوری دنیا کے علماء اور مفکرین میں سے مولانا مودودیؒ کی شخصیت کو شاہ فیصل ایوارڈ سےنوازا گیا۔اس لحاظ سے اگر مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور ان پر الزامات اور تنقید کرنے والوں کی شخصیت کا اگر غیر متعصب اور غیر جانبدارانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو مولانا کی شخصیت کی برتری نمایاں واضح ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اندھی تقلید کی بنیاد پر نہیں کہا جا رہا اور مولانا مودودیؒ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نےاپنے نظریے کے حامیوں کے لئے مریدی کی بجائے تحقیق کےمیدان کی راہ دکھائی ہے۔
جہاں تک مولانا مودودیؒ کی تصانیف کا تعلق ہے تو تفسیر، حدیث، سیرت، معیشت، معاشرت، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی اور اسلامی کتب کے علاوہ مغربی تہذیبوں اور افکار و نظریات کے رد میں مدلل انداز میں 120 سےزائدایسی کتابیں لکھیں جن کی وجہ سے باطل نظریات کے غباروں سے ہوا نکل گئی۔ ان کتابوں کےمختلف زبانوں میں تراجم ہو ئے۔ مغربی اور خصوصاََ ًعرب ممالک میں اسلامی انقلاب کا ذریعہ بنیں۔ مولانا مودودیؒ کی فکر اسلامی کی جھلک ان کی کتابوں سے نمایاں ہوتی ہے۔ جہاں تک ان کی کتابوں یا شخصیت کی ضد میں ان کے خلاف کتابیں لکھیں گئیں ہیں تو ہونا یوں چاہئے تھا کہ جس کتاب یا شخصیت کے رد میں کتاب لکھی جارہی ہو تو لکھنے والے کے دلائل جس پر اعتراض کیا جارہا ہو، اس کے دلائل سے مضبوط ہوں۔ لیکن یہاں ان کی دلیلوں اور الفاظ کو دیکھ اور پڑھ کر کسی حد تک مسلکی یا تعصب کی بو آرہی ہے۔
وہ اس لئے کہ اگر صرف اختلاف ہوتا تو چند ایک پہلوؤں یا نقطے پر ہوتا اور اس کی اصلاح کی گنجائش بھی موجود ہوتی لیکن یہاں صورت حال کچھ یوں ہے کہ مولانا مودودیؒ کی تجدید احیائے دین کی خدمات اور اس ضمن میں ان کی مشقات کو یکسر نظرانداز کر کے ان کی شخصیت کو مشتشرقین سے بھی بڑھ کر مشکوک انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کے وہ تاریخی جملے بھی قابل غور ہیں کہ " ان کے خلاف میں اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں لڑوں گا۔ اگر میں نے اپنے قلم کا رخ ان کی طر ف کر دیا تو یہ نشان عبرت بن جائیں گےاور میں اپنی قوت اور اپنا وقت ان بحثوں میں صرف کرنا گوارہ نہیں سمجھتا"
مولانا مودودیؒ کے ساتھ علمی اور دعوتی میدان میں ان کے ہم عصر علماء خاص طور پر علماء دیوبند کی طرف سے جس طرح متعصابہ رویہ اپنا کر ان کی علمی خدمات پر جابجا اعتراضات، سیاق و سباق سے ہٹ کر الفاظ کو معانی پہنانا، فرضی سعرائ اور کبریٰ سے اپنی مرضی کے مطلب اور مفہوم گھڑنا،کفر و نفاق کےبے وقعت فتاویٰ دینااور بہت سی کتابیں بھی لکھی گئیں ہیں۔اس قسم کے الزامات دراصل اصطلاحات کے غلط اور بے محل استعمال سے ابھرتے ہیں اور اس وجہ سے اہمیت اختیار کر لیتے ہیں کہ ہم کسی شخص کے خیالات و افکار کا جائزہ لیتے وقت اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ شخص جس دور میں پیدا ہوا ہےاور جس تہذیبی روایات میں اس نے پرورش پائی ہے اس کے تقاضے کیا تھے۔ اور یہ کہ بحثیت ایک عظیم اور دیدہ ور مسلمان عالم، مفکر و مصلح اور داعی دین کے یہ جن اقدار کو تسلیم کرتا تھا، اور جس نصب العین کی اشاعت و فروغ کے لئے اس نے اپنی زندگی کی تمام توانائیوں کو وقف کر رکھا تھا وہ فکر و استدلال کے کس منہج کا طالب تھا۔
مزید برآں ہمارا قصور یہ بھی ہے کہ ہم کسی شخص کی تصانیف کا گہرامطالعہ کئے بغیر دو چار سنے سنائے مفروضوں کے بل پر الزامات کی ایک فہرست تیار کر لیتے ہیں اور دیکھنے کی مطلق زحمت نہیں کرتے ہیں کہ اسکے نتائج فکر کس درجہ استوار، کتنے تابناک اور کس درجہ منطقی استواری لئے ہوئے ہیں۔ اور یہ کہ ایسے پیغام یا دعوت کی اصلی اور بنیادی روح کیا ہے جو اس کی تمام تحریروں پر جاری و ساری ہے؟آج بھی یہ چیلنچ موجود ہے کہ اگر مسلکی یا تقلیدی روئیے سے آزاد ہو کر مولانا مودودیؒ کی خدمات کی تحقیق اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو آج بھی اختلافات کے باوجود آپ مولانا مودودیؒ کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ذیل میں ہم دیو بند کے عالم مفتی امتیاز کا حوالہ خود انہی کی زبانی دیں گے:
مولانا مفتی امتیاز دار العلوم دیوبند کے فارع التحصیل ہیں اور 22 سال سے دیوبند مکتب فکر کے مرکزی علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے اور ختم نبوت کے بھی مرکزی علماء میں شامل ہیں۔ انہوں نے علماء دیوبند اور جمعیت علماء اسلام کی خدمات پر کئی کتابیں لکھیں جن میں ضرب قائد جو مولانا فضل الرحمن کی مدح میں لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب کاروان حریت کے نام جمعیت علماء اسلام کی دینی خدمات کے حوالے سے لکھی ہیں۔ ان دونوں کتب کا ان کی جماعت، حلقے اور مکتب میں بہت زیادہ پزیرائی ملی۔ اس شہرت کی وجہ سے دیوبندمکتب فکر پاکستان کے قائد مولانا فضل الرحمن نے مفتی امتیاز کو مولانا مودودیؒ پر ایک تنقیدی کتاب لکھنے کا ٹاسک دیا۔ بقول مولانا مفتی امتیاز، اپنے قائد کے حکم پر لبیک کہا اور اس مقصد کے لئے خود مولانا مودودیؒ کی کتابوں کا مطالعہ کچھ عرصے کے لئے غیر جانبدرانہ انداز میں شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مولانا مودودیؒ پر تنقیدی کتاب لکھنے کی بجائے خود تنقید کا شکار ہوگئے اور ان کا قلم ناقدین کے خلاف اٹھے لگا۔
خاکسار اپنی ناقص تحقیق اور مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ مولانا مودودیؒ کےساتھ ان علماء کے متعصبانہ روئے کی درجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں۔
 مولانا مودودیؒ کےپاس Deoband School of Thoughts کا سرٹیفیکٹ کا نہ ہونا۔
 بیسویں صدی میں مولانا مودودیؒ، ان کی تصانیف اور ان کے نظرئے کی عالمی شہرت پانا۔
 جماعت اسلامی کا وجود میں آنا۔ اس سے پہلے صرف ایک ہی مذہبی جماعت جمعیت علماء ہند تھی۔ جماعت اسلامی کے وجود میں آنے اور عملی میدان میں پیش قدمی ان کے لئے پریشانی کا باعث بنی۔
 روایت پسند علماء پر مولانا مودودیؒ کی تنقید کے اثرات۔
 مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر ہٹ دھرمی۔
 تحقیق کی بجائے تقلید کی عادت۔
 دینی مدارس میں مولانا مودودی کے خلاف شامل نصاب۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مولانا مودودیؒ کے ساتھ علماء کا متعصبانہ رویہ

  1. مفتی امتیازجس آپ نے شفقت فرمائی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کےفاضل نہیں ہیں اپنے مطلب کے بندے کو اپنی دلیل مضبوط بتانے کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ مزید برآں وہ ایک ڈسٹرکٹ سطح کی شخصیت ہیں۔ کم از کم میں تو انہیں جماعت اسلامی میں شامل ہونے سے قبل واقف نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مولانا مودودی کی خدمات کا انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ آپ لوگ مریدی کے درجے پر فائز ہوکر جب مولانا کی علمی غلطیوں کے وکیل بن جاتے ہیں تو افسوسناک صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ ہر شخص سے کوئی نہ کوئی غلطی ہوسکتی ہے لیکن اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے دفاع کرنا غلط ہے جو ہر بڑی شخصیت کی متبعین کرتے چلے آرہے ہیں اس سے پرہیز کرنا ہی علم اور عقل کا تقاضا ہے ورنہ اندھے مقلدین تو دنیا میں بے حدوحساب ہیں۔

  2. مولانا مودودی پر اعتراضات اپنے اثرات کے حوالے سے دو پہلو رکھتے ہیں
    علمی اور عوامی
    علمی سطح پر ان اعتراضات کی کوئی وقعت نہیں البتہ علم سے محروم لوگوں اور سیکولر لادین طبقات کے لیے یہ اعتراضات اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کی ذمہ داری سے فرار کا ایک زبردست بہانہ ثابت ہوئے اور یوں ان اسلام بیزار طبقوں نے جماعت اسلامی کے مقابلے میں معترضین کی پذیرائی کی. اس پذیرائی کو دیکھ کر دیوبند کے اہل علم نےدین کے جامے میں رہتے ہوئے علم کو چھوڑ کر سیکولرزم کی ہمنوائی شروع کردی. کیونکہ وہ “استحبوا الحیوٰۃ الدنیا علی الآخرۃ” کے مصداق دنیا کے جاہل عوام کی حمایت کو آخرت کی فلاح پر ترجیح دے بیٹھے تھے.

Leave a Reply