منتخب حکومت کا پانچ سال پورے کرنا۔ ۔۔طارق احمد

تمام تر سازشوں ، دھرنوں ، انگلیوں ، فیصلوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود ایک منتخب جمہوری حکومت کا دوسری بار اپنی ٹرم پوری کرنا سول سپریمیسی کی جانب ایک زبردست قدم ھے۔ وہ وقت دور نہیں جب ایک منتخب وزیراعظم بھی اپنی ٹرم پوری کر سکے گا۔ ایک وقت تھا ۔ جب منتخب حکومتیں ھی پلٹا دی جاتی تھیں۔ تب اسٹیبلشمنٹ بڑی بے خوف اور طاقتور تھی۔ سامنے فرنٹ پر آ کر کھیلتی۔ جنرل ایوب ، جنرل یحیی ، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف نے پہلے سے طے کردہ مارشل لاءز بڑی سہولت اور پلک جھپکتے میں لگائے۔ اور طویل حکومتیں کر گئے۔ کبھی بنیادی جمہوریت ، کبھی پاور شیئرنگ ، کبھی صدارتی نظام اور کبھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی تو کھبی غیر جماعتی جمہوریت جیسے تجربے کیے گئے۔ کبھی ایبڈو ، کبھی رشوت ، کبھی نااھلی اور کبھی غداری کے نام پر سیاستدانوں کو رسوا کیا گیا۔ تو کبھی پھانسی ، کبھی قتل اور کھبی جلاوطنی سے انہیں راستے سے ھٹایا گیا۔ کبھی کولڈ وار ، کبھی گرم وار ، کبھی جہاد ، کبھی رد الفساد اور کبھی دھشتگردی کے ناموں پر جنگیں لڑی گئیں۔ اور اقتدار و اختیار پر قبضہ کیا گیا تو کبھی تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کیا گیا۔ جب اس اختیار کو واپس لینے کے لیے آئین سازی کرنے کی کوشش کی گئ تو عدالتی حمایت سے ان کوششوں کو ناکام کر دیا گیا۔ کبھی 58ٹوبی کی رسی وزرائے اعظم کے گلے میں ڈال کر انہیں گھسیٹا گیا تو کبھی عدالتی فیصلوں سے انہیں نااھل کروایا گیا۔ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق پر عدالتی شب خون مارے گئے۔ تو کبھی توھین رسالت سے ڈرایا گیا۔ اور اس مکروہ کھیل میں جو وطن عزیز کا حال ھوا۔ وہ سب جانتے ھیں ۔ آج پوری دنیا میں کوئی ھم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ اسی ھزار لوگ مروانے اور ایک سو ارب ڈالر کو تھک لگوانے کے بعد بھی ھماری کوڈی کی عزت نہیں ۔ ھمارے سبز پاسپورٹ کو کوئی پوچھتا نہیں ۔ اور ھم ھیں ۔ کہ جنگ و جدل کو چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ دھلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانا ھو۔ یا اسرائیل کو پانچ منٹ میں تباہ کرنا مقصود ھو۔ ھم نعروں کی حد تک تیار بیٹھے ھیں۔ نتیجہ یہ نکلا ھے۔ ھم نے ایٹم بم اپنی حفاظت کے لیے بنایا تھا۔ آج اس کی حفاظت کر رھے ھیں۔
سول و خاکی بیوروکریسی اور تباہی و تعمیر کی اس کشمکش میں لیکن سول سوسائٹی اور سیاستدان خاموش نہیں بیٹھے۔ اگرچہ اس جدوجہد میں ھاتھ اور گردنیں قلم ھوئیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ۔ ایٹم بم بنا کر وطن عزیز کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے تین کرداروں کا کیا حال کیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی لگائی گئی ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے توھین آمیز طریقے سے معافی منگوائی گئ۔ اور ایٹمی دھماکے کرنے والے کو کبھی جیل ، کبھی جلا وطنی اور کبھی تاحیات نااھلی کی سزا سنائی گئی۔ کیا جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں یہ نہیں لکھا۔ کہ ھم نے اپنے بندے پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے۔ اور امریکہ سے ان کو پکڑوانے کے پیسے وصول کیے۔ کیا جنرل درانی نے اپنی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ اسامہ کی مخبری کرکے پچاس ملین ڈالر کماے گئے۔ جو ذاتی جیبوں میں گئے۔ نوازشریف بھی ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر پیسے پکڑ سکتا تھا۔ شائد اس سے زیادہ جتنا اس پر کرپشن کا الزام ھے۔ سی پیک شروع نہ کرنے پر بھی اسے قیمت مل سکتی تھی۔ کئ ممالک یہ قیمت دینے کو تیار تھے۔ جیسے سی پیک کئ سالوں سے ملتوی چلا آ رھا تھا۔ مزید ملتوی ھو جاتا۔
کیا یہ حقیقت نہیں مڈل ایسٹ کے کئی ممالک ، ھمارے ھمساے اور امریکہ سی پیک کے خلاف تھے۔ وہ اسے روکنے کے لیے پیسے دینے کو تیار تھے۔ جیسے ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر امریکہ نے پانچ بلین ڈالر کی آفر کی تھی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ۔ اسلام آباد دھرنے سے چین کے صدر کا دورہ کینسل کروایا گیا۔ اور اس کے نتیجے میں سی پیک لیٹ ھوا۔ لیکن نواز شریف نے پہلے ایٹمی دھماکے کرکے امریکہ کی دشمنی مول لی۔ اور حکومت سے نکالا گیا۔ جلاوطن ھوا۔ پھر سی پیک شروع کرکے دوبارہ سے امریکہ کی دشمنی لی۔ پھر حکومت سے نکالا گیا۔ تاحیات نااھل ھوا۔ کیا یہ سمجھنا مشکل ھے۔ امریکہ کو گوادر کی بندرگاہ پر چین اور روس کا آنا کسی طور قبول نہیں ۔ کیا یہ تاریخی سچ نہیں ۔ گرم پانیوں پر قبضے کے لیے دو افغان جنگیں لڑی گئیں ۔ دو گلف جنگیں ھوئیں ۔ ایران عراق جنگ ھوئ۔ اسرائیل کو اسی قبضے کے لیے بنایا گیا۔ اور آج اس خطے کا عدم استحکام انہی گرم پانیوں ، تجارت اور تیل کے راستوں کی وجہ سے ھے۔ جن میں امریکی اور یورپین جان بند ھے۔ اور نواز شریف اس کے اوپر چین اور روس کو لے آیا تھا ۔ امریکی در سے اٹھ کر شنگھائی تعاون تنظیم کی کھڑکی کھول رھا تھا ۔ کیا یہ حقیقت نہیں چین پاکستان میں باسٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رھا ھے۔ ایک بار سی پیک مکمل ھو گیا۔ تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی ریاست کی آمدن میں سالانہ پچاس ارب ڈالر کا اضافہ ھو جائے گا۔ یار ابھی ھماری کل سالانہ انکم ترتالیس ارب ڈالر ھے۔ کیا یہ سچ نہیں ۔ ھمارے ملکی سسٹم میں گیارہ ھزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ ھو گیا ھے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ ختم ھو چکی ھے۔ پٹرول پمپوں پر لگنے والے لمبی قطاریں ختم ھو چکی ھیں۔ اٹھارا اٹھارا گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ختم ھو چکی ھے۔ بجلی ترسیل کی نئی ڈسٹریبیوشن لائنز بن رھی ھیں۔ موٹر ویز ، شاہراہیں ، ایر پورٹس ، بندر گاہیں بن رھی ھیں۔ کارخانے چل رھے ھیں ۔ ھڑتالیں ختم ھو چکی ھیں ۔ دھشتگردی پر قابو پایا جا چکا ھے۔ کھیلوں کے میدان آباد ھو رھے ھیں۔ ھسپتال اور یونیورسٹیاں تعمیر ھو رھی ھیں ۔
اور یہ سب کچھ کب ھوا۔ جب حکومت کو مسلسل مفلوج رکھا گیا۔ بلیک میل کیا گیا۔ اختیارات سلب کیے گئے۔ جوڈیشل ایکٹوزم کے نام پر بازو مروڑے گئے۔ اور مختلف لیکس کے نام پر اقتدار پر قبضہ رکھنے کے بہانے استعمال کیے گئے۔ جن کی حقیقت آج جنرل درانی کھول رھا ھے۔
جیسا میں نے پہلے کہا۔ باوجود ان بدتر حالات کے , سیاستدان آگے بڑھنے کے راستے تلاش کرتے رھے۔ ملک کو دفاعی اور معاشی اور جمہوری و آئینی طور پر مضبوط کرتے رھے۔ اور صلے میں قربانیاں دیتے رھے۔ وہ وزیر دفاع جو 1958 میں گوادر کی بندرگاہ اومان سے خریدنے میں شامل رھا۔ اس اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا۔ میزائل ٹیکنالوجی لانے والی کو شہید کیا گیا۔ جیسا ابھی کہا۔ ایٹم بم کے تین کرداروں کو مثالی سزائیں دی گئیں۔ سی پیک کے خالق کی سزا جاری ھے۔ لیکن یہ سیاستدان لگے رھے۔ انہوں نے پاکستان کا پہلا آئین دیا۔ وہ آئین جو آج پاکستان کو جوڑ کر رکھے ھوے ھے۔ اگر یہ آئین سول سپریمیسی کی طرف پہلا قدم تھا تو 58ٹوبی کا خاتمہ دوسرا قدم تھا۔ میثاق جمہوریت تیسرا قدم تھا۔ اٹھارویں ترمیم چوتھا قدم تھا۔ مشرف کی آئین شکنی کو آئینی تحفظ نہ دینا پانچواں قدم تھا۔ تیسری بار وزیراعظم نہ بننے اور گریجویٹ جیسی شقوں کا خاتمہ ایک اور قدم تھا۔ مشرف پر بغاوت کا مقدمہ بھی ایک سٹیپ فارورڈ تھا ۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام تر خواہش کے باوجود ن لیگ حکومت ختم نہ کی جا سکی۔ اس کے بندے توڑے نہ جا سکے۔ یہ بھی تو ایک کمزوری تھی۔ اگر یہ تمام اقدامات سول سپریمیسی کی جانب تھے۔ تو تمام رکاوٹوں کے باوجود سی پیک پر عملدرآمد معاشی آزادی کی جانب ایک انتہائی کامیاب چھلانگ تھی۔ اور دوسری جانب کیا ھے۔ یہ ایئر مارشل اصغر خان نے کہا۔ ھم نے چار جنگیں شروع کیں اور سب میں ھارے۔ کشمیر ھم نہ لے سکے۔ ملک ھمارا دولخت ھوا۔ سیاچن ھمارا گیا۔ کارگل میں ھزاروں فوجی شہید کرواے۔ دھشتگردی کا شکار ھم ھوے۔ اور فلاحی کی بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ ھم بنے۔
یہ آگاہی کا سفر جاری ھے۔ یہ جمہوری آزادی اور معاشی آزادی کا سفر تیز ھو رھا ھے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ھے۔ یہاں لوگ قبروں میں دفن راز بھی کھود رھے ھیں ۔ 1955 کی چالیں 2018 میں کامیاب نہیں ھو سکتیں ۔ کہ تیرے صنم کدے کے بت ھو گئے پرانے۔ میڈیا میں بیٹھی مراثیوں اور بھانڈوں کی بینڈ ویگن ٹھس ھو چکی ھے۔ پنجاب میں سول سپریمیسی کی جو تحریک اٹھی ھے۔ اس کے سامنے یہ جعلی، اور دباؤ اور خوف کےتحت چلنے والا سسٹم اب نہیں چل سکے گا۔ یہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ھے۔ یہ اپنے ھی بوجھ سے گر جائے گا۔ دراڑیں بڑی واضح نظر آ رھی ھیں ۔ اور یہ دراڑیں اندر بھی ھیں اور باھر بھی ھیں ۔
اگلی اسمبلی آنے دیں۔ جس طرح 58ٹوبی ختم کی گئ تھی۔ اٹھارویں ترمیم پاس ھوئ تھی۔ یہ وزیراعظم کو نااھل قرار دینے کا تماشہ بھی بند ھو جاے گا۔ جب کچھ ادارے سائز میں تجاوز کر جائیں تو انہیں کٹ ٹو سائز کرنا ملکی ضرورت بن جاتا ھے۔
طارق احمد

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply