شبِ سیاہ

عالم شاہ: توقیر! اس آدمی کو ہر قیمت پر خریدو، تم جانتے ہو کہ یہ ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے۔ (عالم شاہ نے ایک ناممکن کام کو ممکن بنانے کے لیے اپنے سیکرٹری توقیر کو ہدایات جاری کیں)
توقیر: (بےبسی سے) شاہ جی! مَیں اپنی پوری کوشش کر چکا ہوں مگر جانے کس مٹی سے بنا ہے یہ اے ایس پی داؤد خان۔ جتنا مرضی دبائیں، یہ شخص ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس کے افسران بھی اس کی فرض شناسی سے نالاں تھے، اسی لیے تو اس نامراد کو شہر سے دور ہمارے علاقے میں تعینات کیا گیا ہے۔
عالم شاہ: جوان خون ہے اور پھر وردی کا جوش۔ ملتے ہیں اس بے لگام گھوڑے سے۔ ایسے سرپھرے افسروں کو قابو کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ (عالم شاہ نے اپنے سیکرٹری کی بات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا)
توقیر: جیسا آپ کا حکم شاہ جی! (توقیر فرمانبرداری سے سر ہلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا)
۔۔۔۔
داؤد خان: شاہ صاحب! آپ کی آفر خاصی پرکشش ہے لیکن معذرت کے ساتھ آپ غلط جگہ پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ (داؤد خان نے عالم شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات مکمل کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا)
عالم شاہ: پچاس لاکھ آپ کے ذاتی اکاؤنٹ میں ہوں گے جب کہ تفتیش کا رخ موڑنے کے لیے پچیس لاکھ آپ کے دیگر ساتھیوں کے لیے۔ (عالم شاہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے)
داؤد خان: (عالم شاہ کے اصرار پر مسکراتے ہوئے) میرا نام داؤد ہے، داؤد ابراہیم خان! اصولوں پر سمجھوتہ میری فطرت میں شامل نہیں۔
عالم شاہ: جلد بازی اچھی نہیں ہوتی اے ایس پی صاحب! ٹھنڈے دماغ سے سوچیں۔ چاہیں تو رقم بڑھ بھی سکتی ہے۔ ہم تو خادم ہیں جناب۔ آپ حکم تو کریں۔
داؤد خان: (عالم شاہ کی بات کاٹتے ہوئے) ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو عالم شاہ! میں شہید کرنل ابراہیم خان کا بیٹا ہوں جس نے وطن کی سربلندی کے لیے اپنی جان قربان کر دی تھی لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ تم مقدور بھر کوشش کرلو مگر میرے جیتے جی خاور کو جیل کی سلاخوں سے باہر نہیں نکلوا سکتے۔ تہرے قتل کا مجرم ہے وہ۔ اسے پھانسی کے تختے تک تو پہنچا کر رہوں گا۔ (داؤد ابراہیم نے بات مکمل کی اور واپس جانے کے لیے مُڑا)
عالم شاہ: تمھاری ہمت کی داد دیتا ہوں اے ایس پی داؤد ابراہیم خان! تم نے عالم شاہ کو انکار کیا ہے۔ عالم شاہ کو بہت مہنگا پڑے گا۔ آخری موقع دے رہا ہوں۔ میری آفر پر غور کرنا۔ 24 گھنٹے ہیں تمھارے پاس… (عالم شاہ نے داؤد ابراہیم کو بلند آواز میں پکار کر کہا لیکن داؤد ان سنی کرتا ہوا عالم شاہ کی حویلی سے باہر نکل گیا)
۔۔۔
سر جی! عالم شاہ بہت خطرناک آدمی ہے۔ آپ کو اسے یوں اچانک انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ (حویلی سے باہر نکلتے ہی سپاہی جان محمد نے داؤد خان کو سمجھانا چاہا)
داؤد خان: (لاپروائی سے) عالم شاہ جیسے بڑے بڑوں کو سیدھا کرچکا ہوں میں۔ تم فکر نہیں کرو۔ کچھ نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جان سے مار ڈالے گا۔ تو یاد رکھو جان محمد! موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے اور جو رات قبر کے اندر ہے وہ باہر نہیں ہوسکتی! (سپاہی جان محمد اپنے افسر کی دلیل سے قائل ہوتے ہوئے خاموش ہو گیا)
۔۔۔
ہیلو! عالم شاہ بات کر رہا ہوں (عالم شاہ کی آواز سنتے ہی داؤد خان بدمزہ ہوا۔ اسے اپنی اور عالم شاہ کی ایک دن پہلے ہونے والی ملاقات یاد آ گئی۔)
بولیے شاہ جی! کیا خدمت کرسکتا ہوں میں آپ کی؟ (داؤد خان نے خاصے خشک انداز میں سوال کیا)
عالم شاہ: اے ایس پی صاحب! خدمت تو ہم آپ کی کرنا چاہتے ہیں مگر آپ موقع ہی نہیں دے رہے ہمیں… (عالم شاہ نے داؤد خان کے کھردرے لہجے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شکوہ کیا)
داؤد خان: شاہ صاحب! میرا جواب کل بھی وہی تھا اور آج بھی وہی ہے۔ (داؤد خان نے دوٹوک انداز میں جواب دیا)
عالم شاہ: اے ایس پی صاحب! آپ تو برا مان گئے۔ میں نے تو اس لیے فون کیا تھا کہ آپ کے انتخاب کی داد دے سکوں… (عالم شاہ نے بلند قہقہہ لگایا)
داؤد خان: بہت بہت شکریہ۔
عالم شاہ: پوچھیں گے نہیں کہ میں کس انتخاب کی بات کر رہا ہوں؟
داؤد خان: مدعے پر آؤ عالم شاہ۔ کیا کہنا چاہتے ہو۔
عالم شاہ: جہاں آرا! بہت خوبصورت نام ہے تمھاری بیوی کا۔ اور اپنے نام کی طرح بےانتہا خوبصورت بھی ہے۔
داؤد خان: عالم شاہ! میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ (داؤد خان اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے دہاڑا)
عالم شاہ: چلاؤ مت! تمھاری بیوی تب تک محفوظ ہیں جب تک تم خاور کو رہا نہیں کر دیتے۔ 12 گھنٹے گزر چکے ہیں اور اتنے ہی گھنٹے مزید تمھارے پاس ہیں۔ میرا بندہ رہا کرو ورنہ۔۔۔ (عالم شاہ نے سفاک لہجے میں اسے دھمکی دی اور فون بند کر دیا)
۔۔۔۔
یہ زمین جل رہی ہے
آسمان رَو رہا ہے
لہو لہو داستانِ چمن پہ
سینے ہیں چھلنی
اور
کاغذ و قلم رو رہا ہے
دخترانِ ملت کی ڈھلکی ہیں ردائیں
ہر سُو چمن میں بکھری ہیں صدائیں
کیا، کیوں اور کیسے؟
پر تھم گئی ہیں ہوائیں
جوان لاشوں پہ خاموش آنسو بہا کر
خونِ جگر کو سرد مہری کی چادر اوڑھا کر
وقت کا سمندر
اِس پار چمن سے
اُس پار بڑھ رہا ہے
یہ زمین جل رہی ہے
یہ آسمان رو رہا ہے…!!

جہاں آرا! بھاگو..
آگ کے شعلوں میں گھرے داؤد خان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس آواز نے اسے بری طرح سے جھنجھوڑ دیا تھا۔ مگر آواز دینے والا کہاں تھا؟ وہ جیسے کسی بھیانک خواب سے بیدار ہوئی تھی۔
۔۔۔۔
اس کی نظروں کے سامنے آگ کے شعلے اور ان میں جلتے داؤد خان کا وجود آ رہا تھا۔ وہ دیوانہ وار اپنے محبوب شوہر کی طرف لپکی۔ دہکتی آگ میں اپنے شوہر کے ساتھ وہ بھی اپنی زندگی کی شام کر دینا چاہتی تھی مگر عالم شاہ کے پالتو کتے اسے زبردستی گھسیٹتے ہوئے ڈیرے پر لے گئے۔
وہ اس احساس سے ماورا ہوچکی تھی کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟ عالم شاہ کے ڈیرے سے وہ کسی نہ کسی طرح اپنی عزت بچاتے ہوئے ننگے سر، ننگے پاؤں بھاگ کھڑی ہوئی۔ وہ بھاگتی رہی، چھپتی رہی اور عالم شاہ کے بندے بھوکے کتوں کی طرح اس کا پیچھا کر رہے تھے۔
وہ اپنوں کے درمیان، اپنے باپ کی محفوظ پناہ گاہ میں کب اور کیسے پہنچی؟ یہ الگ کہانی تھی جو اس کے لاشعور پر انمٹ نقوش ثبت کرچکی تھی-
ہر رات خواب میں وہ خود کو دیوانہ وار بھاگتا ہوا دیکھتی۔ اس کے پیچھے عالم شاہ کے نمک خوار بھوکے شکاری کتوں کی طرح لگے ہوتے جو اسے چاروں طرف سے گھیر کر اس پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہے ہوتے اور ہر رات وہ چیخیں مارتی بیدار ہوجاتی۔ محبوب شوہر کی موت نے اسے پاگل کردیا۔ کوئی علاج جہاں آرا کے زخم کا مرہم نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف نوبیاہتا جوان بیٹی کا اجڑنا بوڑھے ماں باپ کے لیے کسی طوفان سے کم نہیں تھا۔ داؤد خان کے والدین بھی دن رات اپنے لاڈلے بیٹے کو یاد کرکے آنسو بہاتے۔ وقت کے مرہم نے جہاں آرا اور داؤد خان کے ماں باپ کے زخم تو کسی حد تک بھر دیے۔ دونوں خاندانوں کی زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگی۔ مگر جہاں آرا شبِ سیاہ کی تاریکی سے کبھی نہ نکل سکی۔ کچے کے علاقے میں تعینات ہونے والے نئے اے ایس پی نے آتے ہی نہ صرف خاور کو بےگناہ قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا گیا بلکہ اے ایس پی داؤد خان کی موت کو بھی ایک اتفاقی حادثہ قرار دے کر کیس بند کر دیا۔
طائرانِ سحر سے کہہ دو یہاں سے نہ گزریں
میرے چمن میں ہے پھیلی شبِ دیجور کی سرخی

Facebook Comments

محمد بن کامران
سیکورٹی ایڈوائزر مڈل ایسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply