دور کے رشتے دار۔۔۔فوزیہ قریشی

اِن دور کے رشتے داروں سے دور رہنا ہی بہتر اور خوشگوار ہو سکتا ہے۔جس قدر رہ سکیں ہمارے لئے ہی بہتر ہوگا۔بس بھئی!   اب ہم نے بھی  ٹھان لی ہے۔۔ ان کم بختوں کو دور سے ہی سلام کریں گے۔
ارے جب تک یہ مُوئے جونک کی طرح سا راخون نہ چوس لیں چین سے نہیں بیٹھتے۔

ساسو   ماں  جب سے آئی تھیں ۔۔۔  لگاتار بُڑ بُڑ ائے   جارہی   تھیں۔
آخر !  میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔۔
ساسو ماں!!   کس کو کوس رہی ہیں؟ کس بیچارے کی شامت  آئی ہے؟ آج آپ کے ہاتھوں۔
ساسو ماں !  تم ہمارا منہ نہ کھلواؤ،   تمہارے بھی پچھلے کم نہیں۔۔۔
انھوں نے کیا کر دیا اب !    میں   اُن کی طرف    دیکھتے ہوئے بولی۔۔
“سچی  کہوں  تو خو ن   آپ نے بھی کم نہیں نچوڑا، وہ بھی جہیز کے نام پر۔۔۔۔۔

ذرا یاد کریں  ! کیسے منہ کھول کھول کر مانگ رہیں تھیں آپ؟

بجائے احسان مند ہونے کے ۔۔یہاں تو  کسی کے مزاج ہی نہیں مل رہے ۔۔

غور کیجئے !!  اسی گھر کے “غیرت مند مرد” ہماری  ہی لائی سوغاتوں پر عیش کررہے ہیں۔ویسے اُس وقت غیرت کہاں  چلی جاتی ہے؟  “جب ہمارے ابا کے دیئے بیڈ پر، آپ کے یہ سپُوت!   سارے  گھوڑے ،گدھے بیچ  کر مزے کی نیند اڑاتے ہیں۔۔

تم چپ کرو بی بی۔۔۔
ہم اِس وقت تم سے الجھنا نہیں چاہتے۔۔
ہم تو ان کم بخت رشتے داروں کو  کوس رہے ہیں ،جن کی آؤ بھگت میں  ہماری بہن نے کوئی کسر نہیں  چھوڑی۔۔۔ کچھ تو لحاظ کر لیتے یہ  رشتے دار  ۔۔سب نے اوقات دکھائی، ہر کسی نے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی تھی۔۔۔
کوئی کہتا ہے چاول میں بوٹیاں کم ہیں اور جن کمبختوں کو بوٹیاں مل گئیں  ان کو گوشت ٹھیک سے گلا ہوا نہیں لگا۔۔۔دس  دس بوٹیاں کھاکر بھی   یہ کہتے ہیں کہ ان کے حصے میں سرے سے  ہی کوئی بوٹی ہی نہیں آئی۔۔۔
کسی کو ناشتے میں انڈے  نہیں ملے   تو کسی کوکلچے ۔ کچھ   فرماتے  ہیں  کہ چائے ٹھنڈی  تھی ، کسی کو تکیہ نصیب نہیں ہوا تو کسی کو بستر۔
ولیمے کے بہترین کھانے میں بھی کیڑے ہی نکالتے رہے،غرض کہ ہر کسی نے رشتے دار ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔۔

ہمیں تو آج ابا جی کا قُل یاد آگیا ۔۔۔یہی حال تھا اُس وقت بھی  ان رشتے داروں کا۔۔اللہ غارت کرے!    سچ میں،ان کو ماتم اور خوشی میں صرف اور صرف اپنے  معدوں  کی خوشی عزیز ہوتی ہے.
اِدھر میت دفنائی ہی تھی    پیارے  ابا مرحوم کی،  اُدھر یہ مُوئے  تلملانے لگے کہ   اب کھانا کھول دیجیئے۔۔
دیگیں منٹوں میں ایسی چٹ ہوئیں جیسے  یاجوج  ماجوج  کُھل گئے ہوں  ۔۔اِدھر  ہمارا رو رو کر برا حال تھا،   تو نہ بھوک  تھی  اور  نہ  ہی پیاس، پھربھی   اِن نَدِیدوں کی خاطر دیگیں چڑھانی پڑیں ۔۔
گٹھلیاں پڑھتے وقت بھی  ایسا  ہی عالم تھا۔  دس  دس کی مُٹھی بھرتے  اور ایک ہی پھونک سے   کام تمام   کر دیتے،زبان ذکر ِالٰہی  سے  نہیں  غیبتی ورد سے تر  ہو رہی تھی۔
اس موقع پر بھی کسی کو اپنی ہمسائی کی بھاگی  ہوئی بیٹی یاد آرہی تھی توکوئی اپنے بہنوئی کی دوسری شادی کو رو رہا تھا۔کسی کو یہ فکر تھی کہ اس کی  بُھوری نے   کالا کٹا کیوں  جنا ہے؟
مشرقی روایات میں بندھی  میری بہن  ان کو خوش کرنے  کے چکر میں ہلکان ہوئے جارہی تھی اور  اسی غم میں مبتلا تھی کہ لوگ کیا کہیں گے؟رشتے دار طعنے ماریں گے۔۔۔۔ محلے دار کیا کہیں گے؟ زمانے کو کیا منہ دکھائیں گے؟    شریک کیا کہیں  گے؟
اسے یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ  یہ حاسدی  صرف تماشا  دیکھنے آئے ہیں ۔خوشی میں شریک ہونے نہیں۔۔

ہمیں   آج بھی یاد ہے  وہ دن جب بڑے بھیا نے دبئی سے ٹی وی بھیجا  تھا ۔۔۔ ہائے کیا دن تھے؟ ابا جی کی ناک فخر سے اونچی ہو گئی تھی  لیکن  ان کے سینے حسد کی آگ میں جل بھن گئے تھے ۔
سارا دن وقفے وقفے سے ڈرامے  اور کارٹون کے شوقین مزاج بچے اور محلے کی آنٹیوں کا تانتا بندھا رہتا  تھا۔کبھی کبھی تو برآمدے میں تِل دھرنے کی بھی  جگہ میسر نہ آتی تھی  ۔ ہمارا تو  رات  دن کا  چین، سکون اور  آرام سب  ختم ہوگیا تھا۔غلطی سے اگر ہم کسی کو کچھ کہہ  دیتے تو بس طعنوں کی بوچھاڑ کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ۔فریج کا ٹھنڈا پانی  بھی انہی  کی آؤ بھگت میں ختم ہو جاتا  تھا۔آخر میں اپنے نصیب میں تو صرف  نلکے کا گرم پانی  ہی آتا تھا۔

اور ہاں !   تم اپنے جہیز کی سوغاتوں پر ایسے اترا ر ہی  ہو کہ  جیسے ہم نے پہلی بار دیکھی ہوں۔تمہارے اماں ابا نے کوئی احسان نہیں کیا دے دلا کر۔۔ ویسے بھی جائیداد میں حصہ تو دیں گے نہیں چلو اسی طرح  ہی سہی ،انہوں نے  اپنا فرض تو  ادا کیا۔

برا مت منائیےگا   پیاری ساسو ماں جی،  آپ بھی ہماری دور کی  ہی رشتے دار ہیں ۔وہ الگ بات ہے کہ اب سرتاج کی بدولت قریب کی  ہو گئیں ہیں ۔۔ویسے گھنٹہ بھر سے آپ بھی غیبتی ورد میں مصروف ہیں۔۔ وہ بھی بغیر وضو۔
سچ بتائیے  گا ۔۔ ایسے رشتے دار کون سے درجے پر فائز ہوتے ہیں؟ جو سب کے گریبانوں میں جھانکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں  لیکن اپنے گریبان  میں ان کی کبھی  نظر نہیں جاتی ۔
اب ہم بھی سوچ رہے ہیں  کہ کیوں نہ ہم بھی  کہیں الگ گھر لے لیں۔نہ  رہیں گے دور کے رشتے دار  اور  نہ ہی بجے گی  یہ بے سُری   بانسری۔
کیوں کیا خیال ہے؟   ساسو ماں جی !

اول فول مت بکو بی بی!    ہماری چائے کا ٹائم ہوگیا ہے،ابھی ہم نے عصر بھی ادا کرنی ہے ،آگے تم سے باتوں کے چکر میں ہماری ظہر بھی قضا گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساسو ماں جی!    ” جتنی دیر میں آپ پچھلے گھنٹے کےگناہ بخشواتیں ہیں ۔۔ہم آپ کے لئے گرما گرم چائے لے کر آتے ہیں۔۔۔۔ پھر جی بھر کر  غیبت  کر لیجئے گا اگلی نماز  تک۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply