کراچی شجرکاری کا طالب ہے۔۔۔کمیل اسدی

آج اختتام سحری سے ہی بجلی کی آنکھ مچولی جاری تھی۔آفس دیر سے جانے کا ارادہ کیا۔ ساڑھے 11 کے قریب گھر سے نکلا ایسی قیامت خیز گرمی کہ  دل بیٹھا سا جا رہا تھا۔ غلطی یہ کی کہ بائیک کا انتخاب کر بیٹھا۔ درجہ حرارت صرف 42 لیکن ہوا میں نمی (Humidity) کی وجہ سے اس کا اثر شاید 50 سے کم نہیں ہوگا۔ کراچی شہر کے نرم مزاج لوگوں کے لئے یہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت گزشتہ 4 سال سے کافی مسائل پیدا کررہا ہے۔ 4، 5 منٹ کے سفر کے بعد ہی ایسا لگا جیسے اس گرمی کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو جاؤں گا۔ ان نیک لوگوں کے لئے بہت سی دعائیں جنہوں نے جگہ جگہ برفیلے پانی کی سبیلیں لگائی ہوئی تھیں۔ ان کیمپس میں پانی پلایا نہیں جا رہا تھا بلکہ لوگ اپنے رومال کپڑے، ہیلمٹ وغیرہ پانی میں بھگو کر گرمی کا اثر زائل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ 12 کلومیٹر سفر کے دوران 3 مرتبہ رکنا پڑا منہ ہاتھ سر دھویا اور رومال بھگو کر سر پر باندھا لیکن گرمی تھی کہ حلق ہونٹ اور خون بھی خشک کررہی تھی۔ آج اگر یہ کیمپ نہیں ہوتے تو کچھ بعید نہیں تھا کہ میں دار فانی سے  کوچ کرچکا ہوتا۔

ایسے افراد ، تنظیموں اور فلاحی اداروں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم مالی اور اخلاقی لحاظ سے بھرپور تعاون کریں۔ صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے ہمیں انفرادی یا اجتماعی طور پر ایسی سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہیے۔ یہ اقدامات مستقل حل تو نہیں لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونا بہت بہتر ہے۔

اہلیان کراچی گزشتہ 4 سالوں سے گرمی کے عفریت کا سامنا کر رہے ہیں اس کا حل صرف اور صرف شجرکاری ہے ورنہ ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت جہاں اموات کی وجہ ٹھہرے گا وہاں یہ ہماری نقل و حرکت کو محدود ، بیماریوں کو جنم اور دیگر دشواریو ں کا سبب بنے گا۔
گھروں میں درخت لگانے میں تو کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے بلکہ فلیٹس میں رہنے والے افراد کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ایک اپارٹمنٹ میں اگر بالفرض 50 فلیٹس ہوں اور ہر فلیٹ میں درخت کی بجائے 2 یا 3 گملے ہوں تو 100 سے 150 گملے کیا ایک درخت جتنا فائدہ بھی نہیں دے سکیں گے؟

زمین کے کٹاؤ سے بچاؤ کے لئے درخت لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن جہاں درختوں کی گنجائش نہیں وہاں کم از کم چند گملوں کا اہتمام کرنا ہی تسلی کا باعث بن سکتا ہے۔ ان انفرادی کوششوں کے علاوہ حکومتی لیول پر شجرکاری کی بھرپور مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہراہوں، سکول ، کالجز اور یونیورسٹیز سے اس مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور کمپنیز کو پابند کردیا جائے کہ اپنے احاطہ میں شجر کاری کو لازم بنائیں ورنہ لائسنس نہیں جاری ہوگا۔

اسی طرح نئے گھر یا پلاٹ کی رجسٹری یا تعمیر کی منظوری اسی صورت میں ہو گی اگر فی 5 مرلہ کے حساب سے ایک درخت لگایا جائے گا۔ عدالتوں میں جج صاحبان مجرم کی سزا کے ساتھ یہ بھی اضافہ کردیں کہ جب تک لواحقین و ورثاء اتنے درخت نہیں لگاتے تب تک سزا پوری ہونے کے باوجود رہائی نہیں ملے گی۔ آئندہ نئی کار گاڑی کی خرید اس وقت ہی ممکن ہوگی جب تک خریدار ایک درخت کا اضافہ نہیں کرتا۔ سب  سے زیادہ آلودگی انہی گاڑیوں کے سبب پھیل رہی ہے اور ایک ہی گھر میں 4،5 گاڑیاں جہاں اصراف کا باعث ہیں وہاں ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ بھی کررہی ہیں۔ ٹرانسپورٹر حضرات جن کے پاس 100 ، 200 یا اس سے بھی زائد گاڑیاں ہیں اگر انکے لائسنس کا اجراء شجر سے مشروط کردیا جائے تو 200 گاڑیوں کا مطلب ہے کہ وہ شخص 200 درخت کا اضافہ کرے گا۔

یہ چند تجاویز تھیں اس سے بہتر طریقے سے سوچا بھی جاسکتا ہے اور عمل پیرا بھی ہوا جا سکتا ہے۔
کہا تو جاتا ہے کہ اگلی جنگیں  پانی کے حصول پر ہوں گی لیکن خدا جانے پاکستانی حکومت اس معاملہ کو کب سیریس لے گا۔

ابھی ایک پوسٹ نگاہ سے گزری کہ پاکستان 90 فیصد پانی بغیر استعمال کئے سمندر میں ضائع کردیتا ہے۔ کیا اس پانی کا رخ سندھ اور بلوچستان کے بنجرعلاقوں کی طرف نہیں موڑا جا سکتا؟ ۔ ہم پانی ضائع کرنے کی بجائے جنگلات نہیں اگا سکتے ؟ نہ تو ہم ڈیم بنا سکے اور نہ ہی سیلاب کے پانی کا صحیح استعمال کرسکے۔ کیا عجب پلاننگ ہے کبھی تو بوند بوند پانی کو ترستے ہیں اور کبھی پانی کی وافر مقدار میں ڈوب مرتے ہیں۔

کینیڈا کے شہر وینکوور کی یونیورسٹی آف برٹش کولمیيا کے اسکول آف پاپولیشن اینڈ پبلک ہیلتھ کے ايک پروفيسر مائیکل براؤئر نے کہا، ’’فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ پاکستان میں خاص کر سردیوں کے مہینوں (نومبر اور دسمبر) میں دھند شروع ہو جاتی تھی جو عموماً فروری کے شروع دنوں میں ختم ہوجاتی تھی یا پھر دسمبر اور جنوری میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ دھند ختم ہو جاتی تھی ، لیکن اب پاکستان میں دو تین  برسوں سے دھند کے بعد سموگ بھی شروع ہوچکی ہے، جو انسانوں کے ساتھ دوسری حیاتیاتی مخلوق کے لئے بھی نقصان دہ  ہے۔ سموگ یا دھواں جو ہماری فیکٹریوں ،بھٹہ خشت کی چمنیوں ،گاڑیوں ، گھریلو آگ والے چولہے جن میں لکڑی اور کوئلہ استعمال ہوتا ہو ، ہمارے پاور ہاوس جو کوئلے پر چلتے ہیں اور جو بڑی مقدار میں دھواں چھوڑ کرماحول کو متاثر کر رہے ہیں۔

’’دی لینسیٹ ‘‘نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیزی سے ہوتی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی شدید غذائی کمی کے سبب 2050ء میں 5 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

اگر سابقہ اعداوشمار کا جائزہ لیا جائے تو رواں صدی سے قبل یورپ میں گرمی کی لہر کی وجہ سے 35 ہزار ہلاکتیں ایک ہی سال میں ہوئی تھیں۔ اسی طرح سال 2015 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گرمی کی لہر اور ہیٹ سٹروک کی وجہ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں تھیں۔ تقریباً اس کے لگ بھگ 2016 میں بھی ہوئی تھیں۔ اسی طرح سال 2010 میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں 18 سوافراد ہلاک ہوئے، 2015ء میں آنے والے سیلاب میں 169لوگوں ہلاک ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالمی سطح پر ایک سرگرم تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے اپنے گلوبل کلائیمٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 10 سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جبکہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 27لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کراچی شجرکاری کا طالب ہے۔۔۔کمیل اسدی

  1. اسلام آباد (اے پی پی) پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 68 ہزار نوزائیدہ بچے فضائی آلودگی کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ 16.28 ملین افراد براہ راست فضائی آلودگی کے باعث صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماحولیات کے شعبہ کے ماہرین نے کہا کہ پاکستان میں فضائی آلودگی بین الاقوامی معیار سے تجاوز کر گئی ہے جس کی وجہ تکنیکی سہولتوں کا فقدان اور عوام میں شعور کی کمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی کے اضافہ کے بنیادی اسباب میں درختوں اور جنگلات کی کمی سمیت صنعتی آلودگی اور ٹریفک میں ہونے والا بے پناہ اضافہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گاڑیوں کی تعداد میں سالانہ 12 فیصد اضافہ ہو رہا ہے اور 20 سال قبل صوبہ میں صرف 8 لاکھ گاڑیاں تھیں جن کی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فضائی آلودگی کے تدارک اور اس کے نقصانات سے تحفظ کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔

Leave a Reply to محمد کمیل اسدی Cancel reply