اک وقتی معذوری اور کچھ سبق۔۔ انعام رانا

پچھلےسے پہلے  ہفتے کی بات ہے کہ اماں نے ذلیل کرنے کی ماہانہ قسط کے دوران سستی کا طعنہ دیتے ہوے کہا کہ تو کرتا کیا ہے سوائے گاڑی میں بیٹھ کر دفتر اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر آنے کے یا ہر وقت اس موبائل استعمال کرنے کے۔ اگلی صبح زندگی کی روش بدل دینے کے ارادے کے ساتھ اٹھا کہ بس سب سستی ختم۔ اب اور تو کچھ نا سوجھی تو لان کی گھٹنوں تک گھاس ہی دکھائی دی۔ سردیوں میں گھاس بڑھتی رہتی ہے اور بہار آتے ہی گارڈننگ کا موسم شروع ہوتا ہے۔ اس بار سردی سے سیدھا گرمی کا موسم شروع ہوا ہے تو گھاس اور بھی لمبی تھی۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ستر پاؤنڈ مالی کو دینے کے بجائے کسان کا بیٹا خود محنت کرے گا۔ گرم دن تھا سو بنیان اور چھوٹی سی نیکر پہنی، اماں کے ڈوپٹے کا صاف باندھا اور شیڈ سے مختلف مشینیں نکال کر کام سے لگ گیا۔ ٹرمر سے گھاس چھوٹی کی، برش سے صاف کی، پھر لان موئر مارا اور برابر کی، کیاریوں سے گھاس اور ویڈ نکالی، پودوں اور درختوں کی شاخیں کاٹیں۔ قریب چھ گھنٹے کی محنت کے بعد لان اس حالت میں تھا کہ اچھا لگتا تھا۔ اس موقع پہ سیلفی لینا بالکل نہیں بھولا گیا تاکہ “محنت میں عظمت” کے نام سے مضمون لکھ کر لگا سکوں۔

رات تک جسم میں “میٹھی درد” شروع تھی۔ میٹھی درد وہی ہے جس میں آپ کو درد بھی ہو رہی ہوتی ہے اور ہاسا بھی نکل جاتا ہے۔ پتہ نہیں میرا تو نکل جاتا ہے۔ خیر حسب معمول کوئی ایک بجے سو گیا۔ مجھے پیٹ کے بل سونے کی عادت ہے۔ اچانک یوں لگا جیسے گرم چھری کسی نے میری کمر میں اتار دی ہو اور بلبلا کر آنکھ کھل گئی۔ درد کی شدت اتنی تھی کہ چیخ روکنے کیلیے ہونٹ دانتوں میں دبانا پڑا۔ فورا احساس ہوا کہ میں نارمل حرکت نہیں کر سکتا۔ بمشکل سائیڈ لے کر کمر کو دیوار کے ساتھ لگا لیا اور وہ درد کی شدت کم ہو گئی۔

پہلے تو جی کیا کہ اک عظیم مصنفہ کی طرح فوری سٹیٹس دوں کہ “کمر لاک ہو گئی ہے، شاید فالج ہو، احباب دعا کریں۔۔ انعام رانا فیلنگ فالج ود پنتالیس ادرز”، لیکن موبائل کچھ دور پڑا تھا سو کوئی چارہ نا تھا۔ سو حرکت کی کوشش شروع کی، ہر معمولی حرکت جسم میں ایسی ٹیس اٹھاتی تھی کہ چیخ روکنا پڑتی تھی۔ سوچا دوسرے کمرے میں سوئی ماں کو آواز دوں مگر اتنی رات گئے تکلیف دینا مناسب نا لگا۔ مختلف مسلز کو ہلا کر یہ اندازہ لگایا کہ کون سی صورت ہو کہ کسی طور بیڈ سے نکل سکوں۔ باآخر بائیں کہنی کے زور پہ بیڈ میں انچ انچ گھسٹنا شروع کیا اور کونے تک آن پہنچا۔ اٹھنے کی کوشش کی تو جسم نے ساتھ نا دیا۔ سو پیٹ کے بل گھوم کر ٹانگیں بیڈ سے لٹکا دیں اور کمر کو تختہ رکھتے ہوے پنجوں، سینے اور بازوں کے زور پہ سیدھا ہونا شروع ہوا اور باآخر کھڑا ہو گیا۔ چلنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ پاؤں اٹھا نہیں سکتا بس گھسیٹ سکتا ہوں سو درد کے عالم میں دیواریں پکڑ کر گھسٹنا شروع کیا۔ ایک ایک سیڑھی قریب ایک ایک منٹ میں اترتا ہوا نیچے آیا۔ بیڈ سے نیچے کچن تک آنے کا یہ سفر میں نے قریب پچاس منٹ میں طے کیا۔ اچانک یاد آیا کہ جولیا اک “ہیٹ سپرے” رکھتی تھی چوٹوں کیلئیے، گھسٹتے ہوے بس یہ ہی دعا تھی کہ جس بکسے میں رکھتی تھی، اسی میں ہو اور وہ بکسہ بھی اپنی جگہ ہی ہو جسے چاہتے ہوے بھی پھینک نہیں پایا تھا۔ شکر ہے کہ سپرے ملا اور استعمال کیا، ساتھ دو دردکش گولیاں کھائیں اور قریب دو گھنٹے بعد درد اتنی کم ہوئی کہ قالین پہ دراز ہو کر دوبارہ سو جاؤں۔

اب عالم یہ ہے کہ دس دن سے کمر پکڑے پھرتا ہوں، لمبر سپورٹ رکھ کر کرسی پہ بیٹھتا ہوں اور کل فزیوتھراپسٹ سے تیسری اپوائنٹمنٹ ہے۔ تسی کرا لو محنت۔ خیر اس کہانی سنانے کا اصل مقصد اپنے جسم کی اس نازکی سے زیادہ اپنا مشاہدہ اور کچھ خیالات ہیں۔ اس رات مجھے اندازہ ہوا کہ مفلوج ہونا کس قدر اذیت ناک ہے، آپ کیسے خود پہ کنٹرول کھو دیتے ہیں، کیسے اک معمولی سی حرکت جیسے ٹیبل سے سگریٹ اٹھانا بھی آپ کیلئیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ دوستو کتنی ہی بار ہم کسی اپاہج کا، کسی معذور کی معزوری کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لنگڑا، ٹنڈا، گونگا کہہ کر پکارتے ہیں۔ کتنی بار ہوتا ہے کہ کوئی بوڑھا ہمارے آگے دھیرے دھیرے سیڑھی اتر رہا ہوتا ہے اور ہم غصہ کر جاتے ہیں، کسی معذور کو آسان سی کوئی چیز مشکل سے کرتے ہوے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہوں گے اور ایسے میں ہمارا مذاق اڑانا یا ہنسنا انکی تکلیف میں کس قدر اضافہ کرتا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا اُن لمحات نے مجھے احساس دیا کہ اللہ نے ہمارے بدن کو کتنی مہارت سے بنایا ہے۔ ایک ایک مسل کتنی اہمیت کا حامل ہے اور کیسے مجموعی طور پہ جسم کی فعالیت میں کردار ادا کرتا ہے۔ کمر کے فقط کچھ مسلز کے تناو نے پانچ فٹ نو انچ کا پورا بدن مفلوج کر دیا۔ کتنی آسانی سے جو کام، جیسے جھکنا، کروٹ لینا، قدم اٹھانا، اترنا چڑھنا، اٹھنا یا بیٹھنا، میں بنا سوچے کر لیتا ہوں، وہ کس قدر اہم ہیں اور کس قدر ٹیکنیکل۔ ہم جہاں اپنے رب کی “بڑی بڑی نعمتوں” کا شکر ادا کرتے ہیں، اِن “چھوٹی چھوٹی نعمتوں” کا شکر ادا کرنا تو شاید ذہن میں بھی نہیں ہوتا۔
میں خود سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی کسی معذور کا مذاق نہیں اڑاؤں گا، کسی کمزور کی کمزوری سے جھنجلاوں گا نہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہوں گا کہ اس نے مجھے مکمل بدن اور مکمل افعال کے ساتھ پیدا کیا۔ اللہ ہم سب کو آزمائشوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اک وقتی معذوری اور کچھ سبق۔۔ انعام رانا

  1. میں خود سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی کسی معذور کا مذاق نہیں اڑاؤں گا، کسی کمزور کی کمزوری سے جھنجلاوں گا نہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہوں گا کہ اس نے مجھے مکمل بدن اور مکمل افعال کے ساتھ پیدا کیا۔

Leave a Reply