محبت جاوداں میری۔۔۔فوزیہ قریشی

محبت کرنے والوں کی شخصیت میں تضاد ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں بھی تضاد تھا۔ گہرا تضاد۔ یوں تو محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، نہ تو کوئی مذہب اس کے آڑے آتا ہے اور نہ ہی کوئی سرحد۔ لیکن زمانے کے لئے میں اب اس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ مجھے محبت کا نہ حق تھا اور نہ کوئی ایسی خواہش ہونی چاہیے  تھی ۔ میں اپنی جوانی کی سب بہاریں ان دعویداروں پر لٹا چکی تھی، جو کہتے تھے کہ انہیں مجھ سے محبت ہے۔۔ ایسے میں میری ڈھلتی جوانی سے محبت کون کرتا؟
مجھے جب آفاق سے محبت ہوئی تو میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے محبت کہتے ہیں ۔ میں نے اپنی تمام زندگی میں محبت سے زیادہ بیکار کسی اور جذبے کو کبھی نہیں سمجھا تھا کیونکہ جس نے بھی مجھ سے اپنی محبت کا دعویٰ کیا، وہی ہمیشہ کے لئے میرا ساتھ چھوڑ گیا۔

باپ کی محبت مجھ سے اس وقت چھین لی گئی جب مجھے ان کی سخت ضرورت تھی۔ ماں کی محبت نے سوتیلے باپ کا روپ دھار لیا۔۔ شادی ہوئی تو ایک دھوکے باز کا ساتھ ملا۔۔ وقت نے اسے بھی مجھ سے دور کر دیا۔ دکھوں سے چور، میری  کشکول جیسی خالی ہستی کے لئے صرف بیٹےکی محبت کا آسرا بچا تھا ۔ وہ بھی جوان ہوتے ہی اپنی محبت کی خاطر مجھے چھوڑ گیا ۔سچ کہوں تو محبت نے سوائے نفرت کے جذبے کے کوئی اور احساس میرے اندر پیدا ہی نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔

اور جب مجھے آفاق سے محبت ہوئی تو وہ بھی بہت ساری محبتوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اسے اپنے بیوی بچوں سے بہت محبت تھی ۔ ایسے میں اس کے دل میں میری جگہ بننا مشکل تھا لیکن مجھے حیرت ہوئی، جب اس نے مجھ سے محبت کا اقرا ر کیا ۔ یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک لمحہ میرے وجود میں گھر کر لے گا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس نے میری بے رخی کو بھانپتے ہوئے مجھ سےکلاس کے بعد بات کرنے کی خواہش ظاہر  کی۔ میرے انکار پر اس نے اگلے دن ہی کلاس ختم ہونے کے بعد مجھے راستے میں روک کر اپنی محبت کا کاسہ میرے آگے پھیلا دیا کہ میں اس میں محبت کی خیرات ڈال دوں۔ لیکن میری انا اس کاسے کوجھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
شروع میں مجھے وہ بھی سب دعویداروں کی طرح کم ظرف لگا اور میں جانتی تھی کہ کوئی کم ظرف کبھی محبت نہیں کر سکتا۔
چاندی پیتل کے زیور پر بھلے لاکھ ملمع چڑھا دو، وہ چاہے سونے جیسا دکھائی دے ، مگر کبھی سونا نہیں بن سکتا۔۔۔

وہ مجھ سے دو سال ہی بڑا تھا ۔ میرا اس سے ملنا کسی اتفاق سے کم نہ تھا۔ جب میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی اس وقت مجھے محبت کے نام سے بھی نفرت تھی۔
محبت کے دعوے کرنے والوں سے بچھڑنے کے بعد بھی ایک امید تھی کہ میرا بیٹا کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا جسے میں نے اپنی محنت ، محبت اور پیار سے آج ایک اونچے مقام تک پہنچایا تھا۔ اس کی بے رخی اورلاپرواہی نے تمام رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔میر
ے اندھیرے جیون سے آس کی آخری کرن بھی چھین لی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں مکمل ٹوٹ گئی۔یہ وہ وقت تھا جب مجھے اپنی زندگی سے اکتاہٹ اور موت کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ اکیلے پن اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے کونسلنگ کے لئے ایک ایڈوائزر کے پاس بھیجا ۔

وہ مجھے بہت سارے مفید مشورے دیتیں تھیں اور سمجھاتی تھیں۔ میری سوچ کو اس نے مثبت رخ دیا۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ مجھے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کی سخت ضرورت ہے۔ اس لئے مجھے کچھ گروپ سیشن کی ضرورت ہے، جہاں میں دوست بنا سکوں اور نت نئے لوگوں سے ملوں تاکہ میرے اندر کی گھٹن اور فریسٹریشن کچھ کم ہوسکے۔۔ اس لئے اس نے مجھے لوگوں میں دلچسپی  لینے، ہنسنے ہنسانے، گپ شپ لڑانے اور اپنی پسند کی مختلف کلاسز جوائن کرنے کا مشورہ دیا ۔ پردیس میں ایسی کلاسز ہم جیسے ڈپریسڈ، بڑی عمر کے تنہا لوگوں کے لئے ہی مرتب کی جاتی ہیں تاکہ ہم بھی اپنی زندگی بھرپور انداز میں جی سکیں ۔ میں نے بھی ایک گپ شپ کا سیشن “اپنے لوگ” کے نام کا جوائن کر لیا۔

آفاق سے میری ملاقات اسی کلاس میں ہوئی تھی۔ وہ سانولا سلونا ، ہنس مکھ، ملنسار اور جلدی سب میں گھل مل جانے والا انسان تھا، اگرچہ شروع شروع میں اس کا بات بے بات سب سے فری ہو جانا مجھے زہر لگتا تھا۔۔۔ جیسے اس نے سب کے معاملات کو جاننے اور انھیں اپنے نیک اور مفت مشورے سے نوازنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہو ۔ اس کا یہ از حد بے تکلف انداز مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ ہم سب کو اس کی عادت سی ہوگئی۔ جس کا احساس مجھے تب ہوا، جب وہ ایک ہفتہ کلاسز سے غیر حاضر رہا۔ شروع کے دو دن بہت بے چینی رہی کیونکہ کسی کو اس کی کوئی خیر خبر موصول نہیں ہوئی۔ دل کی عجیب سی کیفیت تھی -بے چینی اور پریشانی سے ہول اٹھتے رہے۔
تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا اور آخر میں نے ریسیپشنسٹ سے پوچھ لیا” آفاق کی کوئی خیر خبر آئی؟ ۔ آخر وہ کیوں غیر حاضر ہیں؟
ٹھیک تو ہیں ناں؟ ”
اس نے بتایا ” ان کی طبعیت ناساز ہے، موسمی بخار کی شدت کا شکار ہیں مگر جلد ہی واپس آجائیں گے۔”

یہ پہلی بار تھی جب مجھے محسوس ہوا مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے۔ کب؟، کیوں اور کیسے ؟
ان سوالوں کے جواب شاید مجھے خود بھی معلوم نہیں تھے۔ کلیوں غنچوں میں اپنی اپنی نمو کی حسرتوں کے رنگ پھٹ پڑتے ہیں تو لوگ پھولوں میں خوشبو تلاش کرتے ہیں۔ شاید وہ ” محبت” تھا اور میں____” انا “۔۔۔۔

دھنک کے خوشنما رنگ جو کیسری بادلوں کی آغوش سے مچل کر نیلے امبر پر امڈ پڑتے ہیں، دھوپ کی ایک کرن کی نگاہ التفات کے محتاج ہوتے ہیں، سورج پورا نکل آئے تو وہی رنگ نجانے کہاں کھو جاتے ہیں؟-

کچھ دن بعد جب اس نے دوبارہ کلاسز شروع کیں تو سب سے پہلے میں نے ہی اسے صحت یابی پر خوش آمدید کہا۔ کہتے ہیں محبت اور انا کبھی بھی دو تلواروں کی طرح ایک میان میں نہیں رہ سکتے۔ پھر یوں ہوا انا کو پھولوں سے لدی شاخ کی طرح جھکنا پڑا، شاید اسے بھی محبت ہو گئی تھی۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ محبت کا وار بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ہر ذی روح کو اندر تک توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب ایک بار محبت ہو جائے تو پھر نہ عمر کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور بات کی۔۔۔ تب آس پاس کی ساری آوازیں محبت کے مدھر سروں میں دب جاتی ہیں ۔۔ میری انا بھی بلاخر بکھر گئی ۔ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگئی۔ انا نے لیلیٰ کا لبادہ اپنے بکھرے ، ٹوٹے وجود پر تان لیا اور پھر صحراؤں میں مجنوں کی طرح بھٹکنے لگی۔ یہ جانے بغیر کہ انجام محبت کیا ہوگا؟

انا کی محبت ، میری محبت سے بہت اعلیٰ مقام پر تھی کیونکہ محبت کی بارش نے اس کے سارے وجود کو گیلا کر دیا تھا۔۔ ہمارا تضاد، شخصی، تضاد تھا۔ دو مختلف ہستیوں کا تضاد، انا کا تضاد، مختلف سوچوں کا تضاد ۔ لیکن پھر بھی اتنے سارے تضادات کے باوجود محبت کی کونپل پھوٹی اور دل کے ریتلے صحرا کی بنجر زمین کو بھی ہرا کر گئی۔۔
میں تو ایک نازک سی عورت تھی۔ زمانہ جسے چنچل سی ہرنی گردانتا تھا۔

کہتے ہیں عورت کا خول اوپر سے نرم مگر اندر سے سنگلاخ ہو تا ہے ۔ محبت کی چند بوندیں اسے جل تھل سے  گداز کر دیتی ہیں۔ اندر کی سختی کو توڑ دیتی ہیں۔۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اور میں موم کی طرح پگھل گئی تھی لیکن وہ تو مرد تھا باہر سے سخت خول والا مرد لیکن اندر سے نرم۔

یہ مرد بھی نا بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ وہ اندر سے نرم روئی کے گالے کی طرح ہے۔ نرم و نازک ۔۔ اپنے اس اوپری خول کی بدولت کبھی انکشاف ہی نہیں ہونے دیتا کہ اندر تو محبت ہی محبت ہے۔
مرد کے دل میں محبت کے ان گنت پردے ہوتے ہیں اور ہر پردے میں ایک محبت چھپی بیٹھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے مرد ایک وقت میں بے شمار محبتیں کر سکتا ہے۔ جبکہ عورت ایک وقت میں ایک ہی محبت کے دیوتا کی پجارن ہوتی ہے۔ وہ اپنی محبت میں شرک کی قائل نہیں ہوتی۔ میں بھی تو عورت تھی۔

سنا ہے پہلی بار اعتراف محبت کرنا بھی بڑا ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ اعتراف کرنے والا حدت ، شدت اور جذبات سے اندر باہرتک تھر تھر  کانپ رہا ہوتا ہے۔ ۔ اقرار محبت کے بعد وہ چند دن میرا سامنا نہ کر سکا اور میں بھی اس سے نظریں چراتی رہی۔

کبھی کبھی محبوب ہمارے گردو پیش کا حصہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ہمیں آس پاس محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب محبت کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے ۔ یہ محبت ہی روح میں نئی قوت پھونک سکتی ہے اور یہی محبت زندگی کو نئی جلا بخشتی ہے۔
پھر بھی ہماری شخصیت پر صرف وہی محبت اثر انداز ہوتی ہے جو ہم کسی سے کرتے ہیں، وہ محبت نہیں، جو کوئی ہم سے کرتا ہے۔ اسی لئے جب تک اسے مجھ سے محبت تھی ۔ میرے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ کسی انسان کو ساری زندگی یہ توفیق حاصل نہیں ہو تی کہ وہ ایک بار بھی محبت کر سکے۔ کیونکہ یہ کونپل اس کے وجود میں پھوٹی ہی نہیں ہوتی۔ ۔ محبت گہری نہ ہو تو اس میں شدت بھی نہیں ہوتی۔ محبت کی شدت میں ہی وہ جنون ہے جو بادشاہ کو تخت چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہی محبت انا کے بخیے  ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے، پھر مٹی میں ملا کر خاکستر کر دیتی ہے۔۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ محبت امر بیل کی طرح میری انا کے وجود سے لپٹ جائے گی اور مجھے مجبور بھی کر دے گی۔

میں اب ہار چکی تھی ۔ محبت کے ہاتھوں انجام سے بے خبر صرف محبت کے سچے جذبے سے سرشار جس میں کسی کے وجود کا ساتھ ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا اب تک جسے میں محبت سمجھتی تھی وہ تو میری ضرورت تھی، مجبوری تھی ۔ کسی نہ کسی کے ساتھ کو محبت کا نام دے کر محبت سے نفرت کرنے والی میری انا اب ہار چکی تھی۔ میرے وجود کو سچی محبت کی بیل نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ میرے شکستہ وجود کو اب کسی ساتھ یا وجود کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میری محبت ہر احساس سے ماورا ہو چکی تھی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply