قصہ ہمارا ہود بھائی کے خطاب پر جانے کا

بات کچھ اس طرح ہے کہ چند سال پہلے کسی نیوز چنیل پر ایک شخص کو بولتے دیکھا ، جسکی زبان میں ایک تاثیر اور بیان میں خاصی پختگی تھی – بجائے اسکے کہ میں چنیل تبدیل کرتا ، ریموٹ کو ایک طرف رکھ دیا اور اس شخص کی باتوں میں گم ہوتا چلا گیا – خود سے سوال کیا "یار، یہ بندہ کون ہو سکتا ہے ؟ کیا واقعی یہ پاکستانی ہے ؟ " خیر ! ٹی وی پر ایک جھلک میں انکا نام سامنے آ گیا "ڈاکٹر پرویز ہود بھائی "۔ ٹیلیویژن پروگرام تو ختم ہوگیا لیکن ہود بھائی کی زبان ، بیان اور انکے نام نے مجھے تجسس میں ڈال دیا – المختصر'یوٹیوب' سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ان کے بیسیوں لیکچرز اور مباحثے سننے کو ملے ۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ میں انکا Follower بن چکا تھا –
کچھ ہفتے قبل لاہور سے واپس گھر پہنچا ہی تھا کہ نہایت ہی پیارے دوست ابو بکر صاحب کی جانب سے ایک فیس بکی دعوت نامہ موصول ہوا ، جس میں وہ سب کچھ درج تھا جو کہ ایک دعوت نامے میں ہونا چاہئیے- دعوت نامہ خوشی کا باعث اسوقت ثابت ہوا جب سپیکرز میں سے ایک نام ' ہود بھائی' پر نظر پڑی – کسی حد تک مایوسی ہوئی جب تقریب کے مقام ' H 8 اسلام آباد' پر نظر پڑی ۔ لیکن دعوت نامے میں موجود درج ذیل عناصر
موضوع : اکیڈیمیا اور مزاحمت
سپیکر : ہود بھائی ۔ اے ایچ نئیر
میزبان : ابو بکر
اس مایوسی پہ بھاری ثابت ہوۓ – سو اس دعوت کو Interested مارک کر دیا گیا ۔ فیس بکی دوست حسین صابر کو اس کے متعلق بتایا اور ساتھ ہی ہود بھائی کے لیکچرز سننے کو کہا ، اس قدر متاثر ہوئے دوسری صبح انکا پیغام ملا کہ "بھائی، میں تو پکا جاؤں گا "۔ ادھر سے میں نے بھی ایونٹ کو Going مارک کر دیا۔
دقت کا مرحلہ اس وقت پیش آیا جب اماں جی کو معلوم ہوا کہ میں نے کچھ ہی دنوں بعد اسلام آباد روانہ ہونا ہے – گزرنے والے کچھ تہوار (جن کے متعلق میں یقین سے نہیں کہ سکتا کہ آیا یہ مذہبی تھے یا رسمی) کے بارے میں میرے خیالات کو سن کر انہوں نے میرے بارے میں یہ خیال بنا لیا تھا کہ "میں راستے سے ہٹ گیا ہوں "۔ بھائی صاحب نے جلتی میں تیل چھڑکتے ہوئے مجھے کسی مذہبی تنظیم کا سرگرم رکن قرار دیا ۔ اور ادھر میں انکے خیالات پہ سوائے مسکرانے کے کسی رد عمل کا اظہار نہ کر سکا۔ دن گزرتے گئے ، ہر روز اماں جی کو یاد دلاتا گیا کہ اسلام آباد جانا ہے ، اور ہلکی پھلکی وعظ و نصیحت بھی سنتا گیا –
بالآخر 12 مئی کو تیاری مکمل ہو چکی ، دوست سے گزارش کی اور وہ اڈے تک چھوڑ آئے – اماں جی دوست سے مخاطب ہوئیں " یہ آوارہ کدھر جا رہا ہے ؟ "دوست بولا " اسکا دوست ہے اسلام آباد میں ، وہ پروگرام کر رہا ہے اور اس نے اسکو بلاوا بھی بھیجا ہے "
"اچھا ، تو دوست کا نام کیا ہے ؟" اماں نے پھر سوال داغ دیا –
دوست نے کہا "جی ، وہ کوئی ابو بکر ہے- "
اماں جی نے نہ جانے کیسے اس نام کا تعلق کسی خاص مسلک سے منسوب کر دیا اور پھر ۔۔۔۔ خیر انہیں منا لیا گیا –
سرگودھا جاتی گاڑی میں سوار ہوگیا – سکھ کی سانس لی ، سیٹ بھی مل گئی جس کاملنا اکثر محال ہوتا ہے۔ سرگودھا اتر گیا اور ان فیس بکی دوست سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد راولپنڈی روانہ ہوئے۔ رات پنڈی میں گزری ۔ صبح بیدار ہو تو خیال آیا کہ پروگرام تو اقبال احمد کے متعلق ہوگا اسلئے کچھ ان کے متعلق بھی جاننا ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے علامہ گوگل سے مستفید ہونا پڑا ۔ چونکہ ایونٹ کی ترتیب میں اس بات کا ذکر تھا کہ اقبال احمد کی شخصیت کا مختصر تعارف پیش کیا جائے گا لہذا زیادہ مشکل نہ ہوئی۔
المختصر ، 4:40 تک پاکستان اکادمی ادبیات کے احاطے میں داخل ہوئے اور مرکزی ہال ڈھونڈنے لگے۔ اس دوران یہ گفتگو جاری رہی کہ تقریب کیسی ہو گی اور کیا کیا جاننے کو ملے گا۔
یہ بات جاری تھی کہ ایک گاڑی ہمارے سامنے رکی ۔ اس میں ہود بھائی کو دیکھ کے میرا وہ یقین ایک باطل گمان بن کر رہ گیا کہ ہود بھائی کسی لش پش کرتی گاڑی میں آئیں گے اور ساتھ میں سیکورٹی گارڈ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہاں تو سب کچھ مختلف تھا ۔ ان کی پرانی سی گاڑی ہم دونوں کے قریب ہی رکی تو ہم مصافحہ کرنے کو آگے بڑھے۔ سادگی اور عاجزی کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی سے ملک کے نامور طبیعات دان نے ہم دو اجنبی طالب علم نما لڑکوں سے مصافحہ کیا ۔ ہم حیران سے رہ گئے خاموشی سے ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران وہ ابو بکر کے ساتھ تقریب کے لیے مختص کردہ ہال کی جانب بڑھے تو ہم بھی ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کچھ لمحات کے انتظار کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔
ابوبکر نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا اور ان سے تعارف کراتے ہوئے معرز مہمانوں کو اسٹیج پر لگی کرسیوں پر آنے کی دعوت دی۔ پروگرام چونکہ اسلام آباد کلچرل فورم کے اشتراک سے ہو رہا تھا لہذا سب سے پہلے اشفاق سلیم مرزا صاحب نے اسلام آباد کلچرل فورم کا تعارف پیش کیا اور اس کی سرگرمیوں کو ازسر نو بحال کرنے کے حوالے سے ابوبکر اور صنوبر سہیل کی کاوشوں کو سراہا اور اسٹیج سے چل دئیے۔
اس کے بعد ابوبکر صاحب نے اقبال احمد کی حیات و خدمات کا ایک مختصر لیکن جامع بیان سامعین کے گوش گزار کیا جسے سن کر اقبال احمد کی کی مجاہدانہ صلاحیتیوں اور شخصی عظمت کا اندازہ ہوا ۔
اب ابوبکر نے تقریب کے موضوع یعنی " اکیڈیمیا اور مزاحمت '' کا تعارف پیش کیا اور بتایا کہ جدید نظام تعلیم کی حدود اور مسائل کیا ہیں اور کیسے ان مسائل کی وجہ سے اکیڈیمیا اپنا فرض مکمل طور پر ادا کرنے کے قابل نہیں جس کی وجہ سے عامتہ الناس میں درست سماجی شعور اور اپنے حقوق سے آگاہی موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے گیارہ عدد سوالات بھی پیش کیے تاکہ سامعین کو ناصرف موضوع کا علم ہوجائے بلکہ اہم نکات بھی واضح ہو جائیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر اے-ایچ نئیر صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔ انہوں نے تقریب کے انعقاد کے لیے انتظامیہ کو سراہا اور کچھ دیر اقبال احمد کی شخصیت اور ان کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا جس میں انہوں نے تقریباً ہر ایک سوال کا جواب دینے کا حق نبھایا ۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں موجود Intellect کو Honest اور Dishonest میں تقسیم کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے جدید تعلیم کے نصاب پر بات کی اور اسے معقول اور جدید بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ تعلیمی اداروں سے باشعور شہری پیدا کیا جا سکیں۔
اس کے بعد ہود بھائی صاحب تشریف لائے – وہی شیریں اور متاثر کن انداز گفتگو جو میں نے ان کی ویڈیوز میں دیکھا تھا ۔ سب سے پہلے موجودہ تعلیمی نظام کی صورت حال کے متعلق آگاہ کیا – جہاں انہوں نے سابقہ دور کے آزاد خیال اور بلند فکری سطح رکھنے والے مسلم سائنسدانوں کا تذکرہ کیا وہیں موجودہ مفلوج شدہ اذہان پر افسوس بھی کیا – یونیورسٹی کی تعداد میں بڑھتے اضافے اور ان یونیورسٹیوں میں بھرتی ہونے والے پروفیسر حضرات کی قابلیت پر سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا۔
دریں اثنا انہوں نے اقبال احمد صاحب کے ساتھ اپنے تعلق کا خاکہ کھینچا اور انکی خدمات کا زیر بحث موضوع سے ربط قائم کرتے ہوئے انکی ادا کردہ قیمت کو سلام پیش کیا –
اپنےخاص انداز تکلم میں جب انہوں نے بھارت میں "گائے ایمبولینس" کے کارنامے کا ذکر کیا تو سامعین ہنسی پہ ضبط نہ رکھ سکے۔ ہود بھائی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہم ان کی عقل پر ہنس رہے ہیں شاید وہ بھی ہم پر ہنستے ہوں ۔ انہوں نے اسی تناظر میں بھارت میں بڑھتی ہندو قوم پرستی اور سیکولر ازم پر اس کے اثرات کو وہاں کے نظامِ تعلیم سے جوڑا اور بطورِ مثال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے دورے کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے عالمی طور پر زور پکڑتی شدت پسندی اور اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا اور حالیہ امریکی انتخابات میں وہاں کی یونیورسٹیوں کے کردار پر گفتگو کی۔
انہوں نے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور یہ نکتہ بطور خاص سامنے لائے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کس طرح علم پیدا کرنے کی بجائے کام چلاؤ پالیسی پر چل رہے ہیں۔ انہوں سے شدت پسندی کو روکنے میں تعلیمی اداروں کے کردار پر تنقید کی اور اسی ضمن میں مشال خان کا ذکر آ گیا۔ وہ اس کا ذکر کرتے رہے اور ایک مقام پر جذباتی سے ہو گئے جب انہوں نے کہا کہ اسے پہلے ننگا کیا گیا اور ڈنڈے مارے گئے۔ پھر گولی مار کر قتل کردیا۔ لعنت ہو اس قوم پر جو بچوں کو یوں قتل کرتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے فرطِ جذبات سے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور پوری محفل پر سوگوار خاموشی طاری تھی۔ یہ کہنے کے بعد وہ لمحہ بھر کو خاموش سے ہو گئے اور غمزدہ چہرہ لیے کہا کہ بس اب میں اور کچھ نہیں بول سکتا۔ یہ کہتے ہوئے وہ مائیک چھوڑ کر واپس اپنی نشست پر چلے گئے۔
ابوبکر واپس آئے اور تقریب کو بحال کرتے ہوئے عثمان قاضی صاحب اور زینب ڈار صاحبہ کو دعوت دی۔ عثمان صاحب نے فیض صاحب کی ایک نظم تحت الفظ میں قرآت کی جس پر زینب صاحبہ نے نہایت دلنشیں انداز میں رقص پیش کیا۔ یہاں ایک اور بات نہایت خوشگوار حیرت کے ساتھ محسوس ہوئی۔ چونکہ ہال میں جگہ کم تھی لہذا کچھ دیر کے لیے مہمانوں سے سامعین کی پہلی قطار میں آنے کی درخواست کی گئی تاکہ میز ہٹا کر رقص کی جگہ بنائی جا سکے۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مہمان حضرات نہایت خوشی اور اطمینان سے سامعین کے ساتھ آبیٹھے۔ یہ محسوس تک نہ ہوا کہ انہوں نے اس میں اپنی کوئی ہتک محسوس کی ہو۔ میرے دل میں ان سب کا احترام اور بھی بڑھ گیا۔
زینب ڈار صاحبہ کے بعد صنوبر سہیل اسٹیج پر آئیں اور فیض صاحب کی ایک نظم نہایت خوبصورتی سے گانے لگیں۔ اس پر رابعہ شکور سمیت ان بچوں نے مختصر ایکٹ پیش کیا جن کی ویڈیوز اس سے پہلے میں صرف فیس بک پر ہی دیکھتا تھا۔ اس دوران محفل نہایت جوش پر تھے اور تمام لوگ پوری طرح سے متوجہ بیٹھے رہے۔
اس محفل میں کافی ایسے لوگوں کی زیارت ہوئی جن کو آج تک صرف فیس بک پر دیکھا تھا۔ تقریب میں اتنے لوگ آ گئے تھے کہ صرف کرسیوں کی کمی ہی محسوس ہوئی جسے صنوبر سہیل اور زینب ڈار صاحبہ خود اپنی نگرانی میں باہر سے کرسیاں منگوا کر پورا کرتی رہیں۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جن میں کئی مسائل کو اٹھایا گیا اور ان کے متعلق سپیکر صاحبان کی راۓ طلب کی گئی۔ اس ایک سوال کے سوا جو ایک لڑکے نے نہایت امریکی انگریزی میں پوچھا مجھے تمام سوالات نے متاثر کیا۔ مجھے انگریزی والا سوال دراصل سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
سوالات کا سلسلہ تقریباً چالیس منٹ تک چلتا رہا اور پھر سامعین نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے – تقریب کے اختتام پر سپیکر صاحبان اور حاضرین محفل ایک دوسرے میں گھل مل گئے – گویا سوال و جواب کا ایک اور مرحلہ جاری رہا ۔ اسی دوران جب ڈاکٹر نئیر صاحب کو میں نے بتایا کہ بندہ پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم ہے تو ان کے چہرے کے تاثرات سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مجھ جسے ہزاروں طلبہ کی مظلومیت سے واقف تھے –
چاۓ سموسے کا انتظام تھا ، ہر لحاظ سے لطف اندوز ہوئے – اس دوران بھی ھود بھائی کے ارد گرد حاضرین جمگھٹے کی صورت موجود تھے۔ اور ھود بھائی سب کو حسب توفیق مطمئن کرتے نظر آۓ –
دریں اثنا ابو بکر صاحب نے مجھے کچھ اور نامور ہستیوں سے جو شریکِ محفل تھے ملوایا۔ ان میں فرنود عالم صاحب ، وسیم الطاف صاحب ، روشن خیال لکھاری ارشد محمود صاحب اور قابل صد احترام اشفاق سلیم مرزا صاحب۔
سیکھنے کی بات کی جائے تو ظاہری سی بات ہے بہت کچھ ملنا تھا۔ جب واپسی ہوئی تو دوست نے پوچھا "ہاں ، بھئی ، اسلام آباد جو گئے تھے ; کیا ملا پھر ؟ "
لمبا چوڑا جواب دینے کی بجاۓ اس وقت ھود بھائی کی وہ بات دوہرا دی
" اقبال احمد کے نزدیک 'علم' اس چیز کا نام ہے جو عقل کے دریچے کھول دے "
کچھ وقت کے بعد وہ بھی متفق ہوگیا کہ آج کل کہ کچھ عناصر ڈرا ڈرا کے ایک نارمل انسان کو نہ صرف نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں بلکہ انسان کے عقل کو تالے لگا کے انکی کنجیاں کو مخفی رازوں کی طرح غائب کر دیا جاتا ہے ۔ اگر ان تک رسائی حاصل کرنا پڑے تو یا تو کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے ، یا پھر 'راہ سے پھرا ہوا ' کا مفت خطاب ، یا پھر پاگل ہونے کے ساتھ ساتھ نظام فطرت میں خلل ڈالنے والے 'ایجنٹ' کا نام دیا جاتا ہے —
یہی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے آج ہم اس حال میں اپنی ذات کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں ۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پھر کیوں کر تحقیق ممکن ہو سکے جب HEC ہی کچھ خاص موضوعات پر تحقیق کرنے کی اجازت نہ دے اور تحقیق کرنے والوں کو سوال پوچھنے کی عادت ڈالنے کی بجائے چپ چاپ کام چلاتے رہنے کا فرمان سنا یا جائے۔ پھر نتیجہ یہی نکلنا ہے کہ ایک ہجوم اکٹھا ہو کہ ایک ترقی پسند نوجوان کی آواز دباتا ہے اور جب اس میں ناکام ہوتا ہے تو اس نوجوان کو جان سے مار کر خاموش کر دیتا ہے۔ پھر بجاۓ کہ مجرم کو سزا دی جائے مظلوم طبقہ کو اور دبا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ا س حال میں 'وہی لکیر کی فقیر ' نسل جنم لیتی رہے گی جن کے ذہن پہ جہالت کا پردہ ہوگا اور جو بے حس ، ظالم اور اپنے بچوں کو مارنے والوں سے لاعلم یا ہمدرد رہے گی ۔ ان میں ہمت نہیں ہوگی کہ ظالم پر لعنت کر سکے۔ اور اگر کوئی لعنت کر ہی دیتا ہے تو اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ "ظالموں پر تو خدا بھی لعنت بھیجے گا "۔
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر
فعلِ بد خود ہی کریں لعنت کریں انسان پر

Facebook Comments

شجاعت ایلیا
طلبِ حق میں گم ایک بے قرار روح

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply