کشمیر جنت نظیر و ایران صغیر کا وہ ایک چھوٹا سا چناروں اور چیڑھوں سے گھرا گام (گاوں) تھا جہاں کچی بانڈیوں کی چھوٹی سی آبادی تھی۔ چندراہار نامی یہ گاوں آنے والے وقتوں میں اپنا نام بدل لینے والا تھا۔ اس گاوں میں چاند جنم لینے والا تھا،زونی آسمان سے اتر کر ایک دیہاتی کے گھر کو اجال دینے والی تھی۔ زونی! جو محبت کا استعارہ بنی اور زونی!! جس کے مقدر میں رب لم یزل نے والی کشمیر کا تاج،عہدہ اور دل لکھ رکھا تھا۔ مگر سنو!! زونی سے حبہ خاتون بننے کا یہ سفر اس قدر آسان بھی کہاں ہے؟؟الجھو نہیں!! کہانی کو اپنا راستہ خود بنانے دو اور آو اے میری کہانیوں کے شہزادے، میرا ہاتھ تھام کر چندراہار کے اس چھوٹے سے گھر کی مغربی دیوار میں بنے دریچے سے اندر جھانکو جہاں چنار کا سایہ آدھی دیوار کو ڈھانپتا ہے! دیکھو! وہاں کون ہے؟؟ شش!! آو کہانی سنتے ہیں!!۔
“مبرک مبرک!! دد چھ آون” ایک سفید بالوں والی مہربان بڑھیا نے جس کا گہرا سرمئی جبہ پاوں میں الجھتا تھا، زچہ خانے کا دروازہ کھول کر خوشی سے بے حال ہوتے ہوئے اطلاع دی کہ مبارک ہو، چاند سی بیٹی کا جنم ہوا ہے۔ بچی کا باپ اشتیاق سے اندر لپک آیا اور کیا دیکھا کہ نڈھال پڑی بیوی کا پہلو جگمگاتا ہے، دودھیائی رنگت سے نیم اندھیرے کمرے کا وہ حصہ جگمگا رہا تھا جہاں ایک نوزائیدہ بچی ماں کے پہلو میں پڑی دھیما دھیما رو رہی تھی اور چاند کے پانی میں گھلے زعفران کا رنگ چارپائی سے چھلکا پڑتا تھا۔
باپ نے اس نور کے مجسمے کو ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے کان سے لب جوڑ کر ازان دینے لگا”اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر” مقدس کلمات صبح کاذب کے پرندوں کے پروں اور منقاروں پہ سوار ہو کر وادی میں پھیلتے گئے۔ بچی کا نام اس قدر خوبصورتی اور دلکشی کے سبب “زون بی بی” رکھا گیا۔زون! یعنی مکمل چاند!! ماہ کامل!!۔
آنے والی صبح کے اجالے اپنے ساتھ زونی کی خوبصورتی کے قصے پھیلاتے گئے اور بچی کو دیکھنے آنے والی سرخ و سفید کشمیری عورتوں کے جبے اور کسابے زون کے نور سے بھیگتے گئے۔
اس وقت بھی کمرے میں بچھے نمدوں پر سرخ مخملیں گاو تکیوں سے ٹیک لگائے عورتیں زونی کی خوبصورتی کے گن گا رہی تھیں اور درمیان میں نون چاء کا بھرا سماور رکھا تھا۔ “مولائے پاک کے دم سے خوش نصیبی بنی رہے” ایک ادھیڑ عمر عورت نے نمکین چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا اور باقی سب تائید میں سر ہلانے لگیں۔ “ماتر! یہ بہت خوبصورت ہے کاش میں بھی ایسی ہی ہوتی”! ایک چھوٹی بچی نے ماں کا ہاتھ تھام کر شکوہ کیا تو زون کی نانی، جس کے سفید چہرے کی کھال دودھ کی بالائی جیسی شکنوں سے پر تھی، اس نے بے اختیار بچی کو ڈانٹ دیا” ہئے رد بلا!! دعا کر نصیب کرم والی ہو! حسن نہیں مانگتے رانٹس(چڑیل) نصیب مانگتے ہیں مولا سے” بڑھیا کی ڈانٹ میں قرنوں کا تجربہ اور گھاگ پن بولتا تھا مگر بچی خود کو رانٹس کہے جانے پر فیرن کا پلو مروڑتی منہ بنانے لگی”ہونہہ! یہ میان پوترو!!خود ہی رانٹس ہے” اس نے تنک کر سوچا اور خشک شہتوتوں کی مٹھی بھرے باہر کو بھاگ گئی۔ اور بڑھیا سچ ہی تو کہتی تھی، نصیب مانگتے ہیں رب سے! نہیں اے شریر شہزادے! مجھے ایسے مت دیکھو! کوئی شکوہ نہیں ہے یہ تو بس کہانی ہے ناں؟ اور کل رات ہی تو ہم تم نے طے کیا تھا کہ ہم یہاں آ کر ماضی کے اوراق میں چھید کر کے زون کو حبہ خاتون بنتے دیکھیں گے! تو یہ لو تم بھی خشک شہتوت کھاو اور چلو پھر سے اس دریچے سے اندر جھانکتے ہیں!۔
پالنے میں پڑی رہنے والی زون اب پاوں پاوں چلنے لگی تھی اور اس کی اماں، ابی اور بھائی بہن اس چاند کی پری کے پیچھے ہلکان ہوئے پھرتے تھے۔ “ارے زون کو زور سے مت چوما کرو! اس کے گال پہ نیلا دھبہ پڑ جاتا ہے”ماں زور سے آواز لگاتی تو ابی کو ایک ہی ڈر ہوتا کہ مٹک مٹک کے چلتی زونی کو کسی دہلیز کے اکھڑے ہوئے کیل سے زخم نہ آ جائے۔ سو وہ ہر وقت ہتھوڑی تھامے اخروٹ کی بوسیدہ لکڑی سے باہر جھانکتے کیلوں کی ٹھونکا پیٹی کرتے رہتے تھے۔ وقت گزرنے لگا اور زون اس وقت کے ساتھ ساتھ بڑی ہونے لگی۔ الہڑ معصوم اور حسین زونی دن بھر وادی میں چناروں کے سائے میں کھیلتی اور زعفران کے کھیتوں میں ننھی بکریوں، بھیڑوں اور ان کے میمنوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی تھی۔ وہ چندراہار کی شہزادی تھی،گاوں باسیوں کی چاند کی پری! جب دیکھو اسے عورتیں بہانے بہانے سے گھسیٹ کر سنوارنے لگتیں۔ “اے زونی! کتنی میلی لگ رہی ہے! ادھر آ!! منہ سنوار دوں! اور زون کے دودھیل گالوں پر نرمی سے بہتے پانی اسے پھر سے نکھار دیتے۔ کوئی اس کے لیئے سرخ اور جامنی مخملیں پھیرن کاڑھتی تو کوئی ننھے کسابوں کو چھوٹی چھوٹی پنجرہ بالیوں سے سجا کر اس کے سر پہ اوڑھا دیتی۔۔
زون کی خوبصورتی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی۔ اس کے بال پشمینہ سے بھی زیادہ نرم تھے، قامت میں چیڑھ کا بانکپن اور رنگت میں کشمیر کا سارا زعفران گائے کے تازہ مکھن میں گھلا ملتا تھا۔ ہونٹ تازہ اخروٹ کے دنداسے کی مانند دہکتے عنابی، آنکھوں میں ڈل کے کنول تھے اور دانت جیسے کچنار کی کلیاں! اس پر پہاڑی آب جو سی چال اور گنگناتے گاتے مدھر جھرنوں کی سی آواز! ارے ایسے حیران ہو کر مت دیکھو شہزادے! مانا کہ میں زون سی حسین نہیں ہوں مگر سچ کہوں تو تم نے کبھی مجھے یوسف شاہ کی نظر سے دیکھا ہی کب؟؟ جو دیکھ لیتے تو جان نہ جاتے کہ آج کے زمانوں کی یہ داستان گو اپنے لہو، اپنی آنکھوں اور اپنے گیتوں میں آج بھی زون کی وارث ہے! زون کشمیر کا فخر ہے شہزادے اور مجھے حق ہے کہ میں اس فخر کو پورے تفاخر سے تم تک پہنچاوں! میں جو گیت تمہارے چرنوں میں رکھنے اتنی دور چلی آتی ہوں تو اصل میں وہ بھی زون کے ہی ہیں۔ آو! ایک بار پھر سے چندراہار کے ماضی میں زون کی زندگی کو بدلتے دیکھتے ہیں۔
الہڑ زونی اب نوجوانی کی دہلیز پہ قدم جمانے کو تھی۔ وہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی ذہین بھی تھی اور گاوں کی دیگر لڑکیوں کی نسبت مخطوط لکھنے اور پڑھنے کو اس کا جی مچلا جاتا تھا۔ “ابی!! مجھے تختی لکھنی ہے!!:” وہ باپ کے کندھے سے لٹکی فرمائش کر رہی تھی اور نرم دل شفیق باپ نے زون کا بازو پکڑا اور گاوں کی مسجد کے امام صاحب کی دہلیز پہ پہنچ گئے۔
“زون کو کلام پاک کے ساتھ ساتھ ابجد بھی سکھا دیجئے امام صاحب” انہوں نے عاجزانہ کہا تو امام صاحب زندگی میں پہلی بار کسی ایسی ذمہ داری اٹھانے میں ہچکچاہٹ اور تامل کا شکار نظر آنے لگے۔ “مولوی چاچا! میں ذرہ بھی کوتاہی نہ کروں گی، اور اگر جو کروں تو کینتھی کی چھڑی سے پیٹ لیجئے گا” زونی آنکھیں جھکائے مولوی چاچا کے قریب آ کر بولی تو امام صاحب ہنس دئیے”ارے پگلی! تو کوئی چھڑی سے پیٹنے والی شے ہے؟ جا اندر چاچی نے کدو کا حلوہ بنا رکھا ہے،اسے کھا اور کل سے عصر کو سبق لینے آ جانا” انہوں نے جھک کر زون کو تسلی دی تو وہ ہرنی کی مانند قلانچیں بھرتی گرما گرم مزیدار اور میٹھا حلوہ کھانے چل دی۔
سنو! کیا میں تمہارے کاندھے سے ٹیک لگا لوں؟ اچھا! شکریہ میرے شہزادے۔اور کیا میں تمہارا گال چوم لوں؟؟ ذرا قریب ہو جاو! ہاں اب ٹھیک ہے! دراصل مجھے اس وقت تم پہ پیار ہی اتنا آ رہا ہے۔ تویہ لو یہ بوسہ کشمیر کی زون کی طرف سے میدانوں کے شہزادے کے لئیے تحفہ ہے۔ کوئی وقت جاتا ہے کہ تمہارے گالوں پہ سنہری کمرخیں سایہ فگن ہو کر شبنمی بوسوں سے تمہیں آسودہ کریں گی مگر تب تک کے لئیے۔۔۔ہاں مگر تب تک کے لئیے تو میرے شہزادے یہ گہرا عنابی اور دہکتا نشان اپنے گندمی گال کی زینت بنا لو۔۔آو اب داستان کی جانب رخ کرتے ہیں۔
پڑھنے لکھنے کی شوقین زونی جلد ہی ابجد میں طاق ہو گئی۔ اب وہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھ بھی سکتی تھی اور جب لکھنے کا وقت آیا تو بال گنیش کی آتما اس میں براجنے لگی۔ ہاں شہزادے! زونی کو شعر اور گیت الہام ہونے لگے۔ وہ شعر لکھتی، انہیں جوڑ کر گیت بناتی اور چناروں کے سائے میں، زعفران زاروں میں بکریاں چراتے ہوئے گاتی رہتی۔ اس کی آواز کی جادوئی کشش سے پہاڑی ندیاں سست پڑ جاتیں، جھرنے دھیمے بہنے لگتے اور لٹ راس اڑانیں بھول کر زونی کے گرد جمع ہونے لگتے۔ وہ پہاڑی لڑکی کھلی وادیوں میں پھیرن کاڑھتی، گیت گاتی اور شعر لکھتی رہی اور ادھر لگن کے دن آن پہنچے۔ زون اب بیاہ کی عمر کو پہنچ گئی تھی اور اماں ابی کو اس کی بڑھتی اور جوبن پہ جاتی خوبصورتی نے دہلا رکھا تھا۔ “کوئی مناسب بر ملے تو امانت حقدار کو سونپ کر سبکدوش ہوا جائے” اماں ابی اب سر جوڑے سرگوشیاں کرتے۔ زون کے علم میں لائے بغیر وہ کئی امیدواروں کو دیکھ کر انکار کر چکے تھے۔ کسی پہ دل ہی نہ ٹھکتا تھا”ہماری زونی! اس قدر حسین اور یہ جانگلوس!” وہ سوچتے ۔ مگر شہزادے اس عام سی بستی میں جنم لینے والی زون بھلے کتنی ہی حسین ہوتی، بیاہ تو اس کا اپنے ہی جیسے لوگوں میں ہونا تھا ناں؟ اور یہ بیاہ کے بھی عجیب قصے ہیں! نہ کرو تو دل میں کھد بد رہتی ہے اور جو کر لو تو دل ساکت ہو جاتا ہے۔
بہت چھان پھٹک کے بعد آخر اماں ابی نے گاوں کے ہی ایک نوجوان کے گھر والوں کو ہاں کا عندیہ دے دیا جو دیگر لوگوں کی نسبت زرا زیادہ بڑا ریوڑ رکھتا تھا اور اس کے اخروٹ کے بھی پورے سات درخت تھے۔
ایک شام جب زون بکریاں لے کر گھر واپس آئی تو اماں نے لپٹا لیا اور ابی نم آنکھیں پونچھتے باہر چلے گئے۔ حیران زون کو سمجھ نہ آیا”اماں ابی کو کیا ہوا”؟؟ اس نے پوچھا تو جواب میں اماں نے دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے آنے والی زندگی کے لئیے تیار کرنا شروع کیا۔ “زون بچی! اب یہ اچھلنا کودنا اور بکریوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑو اور کچھ خبر اپنی بھی لو، نون چاء کو پھینٹنا اچھے سے سیکھ لو اور کانگڑی میں انگارے بھرنے میں تم ابھی بالکل پھوہڑ ہو میری بچی”! وہ اسے سینے سے لگائے بتائے گئیں کہ جلد ہی وہ دن آنے کو ہے جب وہ اپنے اماں ابی اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر اپنے گھر چل دے گی۔اس کے گدبدی ناشپاتی جیسے ہاتھوں میں مہندی کے بوٹے کھلکھلائیں گےاور اس کے مکھن جیسی کان کی لو سونے کے گہنوں پاتوں سے خوبانی کے لدے پیڑ کی طرح جھک جائے گی۔
زون کو کچھ سمجھ آیا کچھ نہ آیا مگر ماں نے اسے سرخ،عنابی شیشوں والے پھیرن، ریشمی کسابے اور چاندی کی پنجرہ بالیوں اور بازو بند کے خواب دکھا کر بہلا لیا جو زرگر لس جو کی دکان پہ جگر جگر کرتے تھے،وہ سب اب زون کی ملکیت ہونے والے تھے۔ اف شہزادے! کتنا آتنک ہے ناں! گیت،شعر،قصے،مخطوط،قرطاس اور لوح چھین کر بالی پتہ، گلوبند،ہنسلیاں اور پازیبوں میں جکڑ دیتے ہیں یہ سماج،یہ ریتی رواج!!
خیر یہ ناانصافی تو ہر دور کی زون کے ساتھ ہوتی رہی ہے تو اس کا قصہ کہہ کر تمہیں بیزار کیا کرنا؟
ہاں تو زون نے بھی اچھی بیٹیوں کی طرح گھر داری کے سبھی کاج سنوار لئیے،نون چاء اس کے لبوں سی سرخ ہونے لگی اور اس کی بھری کانگڑی رات رات بھر سلگتی رہتی۔ اور شہزادے جس دن اس نے مکئی کا پہلا پھلکا چودہویں کے چاند سا گول کراڑ سے اتار لیا تو ٹھیک اس کے اگلے چاند کی تیرہ کو اس کے بیاہ کے دن باندھ دئیے گئے۔ وادی میں آتی بہار کے دن تھے اور چندراہار کے سبھی سیبوں، خوبانیوں، ناشپاتیوں،آڑووں اور آلوچوں کے پیڑوں پر اس برس اتنے پھول آئے تھے کہ زون کے گھر سے سسرال تک کے سب راستوں پر سفید اور گلابی پھول ہی پھول تھے ۔ شب بھر زون کے لکڑی کے جھکے چھت والے گھر میں ڈھولک بجتی رہی اور “ریند پوشمال ” کی آوازیں زعفران کے کھیتوں میں سوئے بھنورے جگاتی رہیں۔ گھر کی اوپر والی منزل میں باقر خانیوں،کھنڈ کلچوں اور نمکین چائے کے دور چلتے رہے ۔ زرد لباس،لچکوں،کرن،کنگن سے پور پور سجی زون کی رسم حنا میں شامل ہونے کی خاطر چاند بھی گویا آہستہ چلتا تھا اور تارے اس دلہن کو دیکھنے جھکے پڑتے تھے جو چاول کے آٹے میں سیندور اور زعفران کو ملا کر گائے کے دودھ سے گوندھ کر بنائی گئی مورت لگتی تھی۔
آخر زون کا صدقہ اتار کر چاند آکاش کی گہرائی میں ڈوب گیا اور سورج جب نکلا تو اس کی لالی زون کے سہاگ جوڑے کی آب و تاب کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔
اماں ابی اور مولوی چاچا کی دعاوں کے سائے زون اپنے گھر کی ہو گئی اور پیچھے اس کی بکریاں اس کے ہاتھ کو،اس کی آواز کے لوچ کو ترس گئیں۔ اماں ابی غم کھاتے مگر ایک دوسرے کو تشفی ہو،اس لئیے ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ بکریاں بھی دو دن تو گھاس پات کے قریب بھی نہ ہوئیں مگر آخر کے دن؟ پشو کو پیٹ تو بھرنا ہی پڑتا ہے ناں؟ جیسے منش کو بھرنا ہوتا ہے! دل میں کوئی سا بھی غم کنڈلی مارے بیٹھا ہو،پیٹ تو اناج سے ہی بھرے ہے شہزادے! جیسے میرے دل کو بھی تمہاری بے اعتنائی کا سنگ چور ڈستا ہے مگر پھر بھی۔۔۔۔ہاں! تم کیا جانو!
خیر! تم خفا مت ہو۔ آو دیکھیں ہماری زونی اپنے پی کے آ نگن میں کیسی ہنستی بستی ہے، کیا کرتی ہے اور اپنے شوہر کو اپنے شعروں اور گیتوں سے کیسے رجھاتی اور شادکام کرتی ہے۔
ہنستی کھلکھلاتی زون کے نصیب میں چند ہی دنوں تک خوشی کا ڈیرہ رہا اور پھر وہ سیاہی، بخت کی وہ کالک اس کے رنگ روپ کو کھانے لگی جس سے ڈرتے ہوئے زون کی نانی نے خوبصورتی کی چاہ کرتی اس ننھی بچی کو پھٹکار دیا تھا۔
زون کا ناخواندہ شوہر اور جاہل گھرانہ بلبل کشمیر کے لئے ایک ایسا پنجرہ بن گیا جو ہر دن کے ساتھ اس خوش گلو چڑیا کے ساز گھونٹ رہا تھا۔ زون کو بیاہ بالکل بھی راس نہ آیا تھا۔ ساس کو اس کا گھومنے جانا قبول نہ تھا اور شوہر کو اس کے اشعار، اس کے گیت برچھی اور بھالے بن کر لگتے تھے۔ زعفران کے کھیتوں میں محبوب کا ہاتھ تھام کر الوہی گیت گانے کا خواب دیکھنے والی زون تمام دن کوٹھا لیپنے، چولہا مرمت کرنے اور پکانے ریندھنے میں گزار دیتی اور اس پر ساس کی جھڑکیاں اور گھرکیاں سہتی جو اس کے کاموں میں ہزارہا نکتہ چینی کرنا اپنا فرض جانتی تھی۔ زون کے گیت بند لبوں کی قبر میں دفن ہونے لگے ۔ شوہر کو تو مطلب براری سے قبل بیوی کے وجود سے آگاہی تک نہ ہوتی کجا اس کے لکھے شعر سنتا اور گیتوں پہ سر دھنتا ۔ جن گہنوں پاتوں،پھیرنوں کسابوں کے بدلے زون سے مخطوط ،قرطاس، قلم،لوح،گیت،شعر اور قصے چھین لئے گئے تھے وہ سب کے سب لکڑی کے بھاری بکسوں میں رکھے رہے اور جہالت کے اندھیروں میں بلبل کے رنگ اجڑنے لگے۔ وہ بھری ہوئی کانگڑی کی مانند دھیرے دھیرے سلگ کر راکھ رنگ ہونے لگی تھی۔ چولہا چوکا نمٹا کر اٹھتی تو ساس دھاگے بنانے کو بٹھا دیتی اور پشمینہ کو بٹتی زون کی آنکھیں ان اشعار اور گیتوں کے زخموں سے پٹ جاتیں جو اس کے لہو میں تو راس رچاتے تھے مگر باہر ان کے لئیے پہرے ہی پہرے تھے۔ ماہ کامل پہ گرہن نے ڈیرہ ڈال لیا تھا۔
اماں ابی دو چار مرتبہ تو زون سے ملنے آئے پھر اس کی اکھڑ ساس اور ناخواندہ شوہر کے تیور دیکھ کر انہوں نے بھی رفتہ رفتہ قدم کھینچ لئیے اور اب حضرت بل کی درگاہ پہ وہ زون کے واسطے مسرتیں، آسودگی اور راحت مانگتے تھے۔
مجھے درگاہوں کی منتوں پہ یقین تو نہیں شہزادے مگر جانے کیوں؟ سوچتی ہوں ایک بار حضرت بل میں تمہیں مانگ لیا ہوتا تو کیا خبر؟ تم مجھے مل ہی چکتے؟؟ آہ! مگر یہ سرحدیں،یہ کانٹے دار تاریں! جو زون کی اس وارث کے دل میں گڑی جاتی ہیں۔ میرا دامان دل تو خالی ہی رہا مگر زون کا نصیبا سچ مچ چاند کی مانند جگمگا اٹھنے والا تھا ۔ دعائیں مقبول ہونے کی وہ گھڑی آن پہنچی تھی جس میں نصیب پلٹ دئیے جاتے ہیں چندراہار کی زونی اب حبہ خاتون بننے جا رہی تھی۔ کچھ تاریک دنوں کی قید کاٹ کر اسے کوئی سوریا دیو ملنے والا تھا۔ ارے! حیران مت ہو، نصیب بدل جاتے ہیں۔ آو! خود دیکھ لو۔
زون اپنی فطرت پہ جبر کرنا نہیں جانتی تھی اور جب اسے یوں کرنا پڑا تو وہ اداس رہنے لگی، بیمار ، پژمردہ اور رنجور! اس کے لبوں پہ پپڑی رہنے لگی اور آنکھوں کے کنول مرجھا گئے اور ان میں رہنے والی راگ آساوری کی دیوی جس کا لباس کیسری ہوتا ہے اور تن پہ بھبوت ملی ہوتی ہے، وہ دیوی خفا ہو گئی، بال گنیش جو اس کے من اندر بسرام کرتے تھے، وہ سب زونی سے منہ پھیر بیٹھے، گیتوں اور شعروں نے الہام ہونے سے انکار کر دیا کہ وہ اس زون کو جانتے ہی نہ تھے جو یوں بے بس اور لاچار پھرتی تھی۔
جب آہستہ آہستہ زون کمزور اور بیمار رہ رہ کر چولہا اور شوہر دونوں کے کام کی نہ رہی تو ایک صبح اس کے شوہر نے ڈھوک میں بکریاں لے جانے سے قبل اسے اس گھر میں نامحرم کر دیا۔ اس نے زون کو طلاق دے دی اور شام کا سورج ڈھلنے سے پہلے زون اپنے اماں ابی کے آنگن میں ایک تھکے ہارے رام چکور اور نڈھال رت گلے کی مانند گردن ڈالے پڑی تھی۔ اماں ابی روئے جاتے مگر سمجھ نہ پاتے کہ بیٹی کا گھر اجڑنے پہ غم کھائیں یا زندہ لوٹ آنے پہ شکر بجا لائیں۔ اور ہماری زون ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے گھر میں آزادی کے اس احساس کے ساتھ گھومنے لگی جو اسے اس آنگن کے بعد کہیں نہ ملا تھا۔ اس کی بکریاں اس کے ہاتھوں، چہرے اور بالوں کے ساتھ اپنے تھوتھن رگڑتی اور خوشی سے اس کے کاندھوں پہ اپنے پیر جمانے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان کی چاند کی پری جو لوٹ آئی تھی!
چند دن لگے تھے زون کو اپنی آزادی دوبارہ حاصل ہونے کا احساس ہونے میں اور پھر وہ ویسی ہو گئی جیسے اس گھر کو چھوڑ کر کبھی گئی ہی نہ تھی۔ وہ ریشمی کسابوں، پھیرنوں اور زیور کے طوقوں سے آزاد ہو گئی تھی اور پھر سے چہچہانے لگی تھی اور جس دن اس نے اپنے مخطوط، قلم قرطاس اور لوح سے گرد جھاڑی، بیاہ کا تجربہ رکھنے والی زون سے اس کا تعلق ختم ہو گیا۔ وہ پھر سے چودہویں کے چاند جیسی جگمگ کرنے لگی اور اس کے گلے میں قید بلبل نے مدت بعد پنکھ پھڑپھڑائے، بال گنیش نے شعر الہام کئیے اور آساوری نے اس کی آنکھوں کے کنول سے نکل کر انگڑائی لی۔ وہ بھلی چنگی ہو کر پھر سے اپنی بکریوں، بھیڑوں اور میمنوں کے ساتھ چندراہار کی وادی میں زمستانی ہوا کی مانند آزاد پھرا کرتی۔ پھول چنتی، گیت گاتی اور چناروں کے سائے زون کے وجود سے سیماب رنگت ہونے لگتے۔ اس کی آواز جہاں جہاں پہنچتی، وہاں پھل مزید شیریں ہو جاتے اور زعفران کا رنگ مزید گہرا ہو جاتا۔
اور پھر شہزادے! ایک بہار کی دوپہر کو وہ گھڑی آخر آن پہنچی جس میں زون کے دل میں محبت کا کنول کھلنا تھا اور مشک نافہ کی مانند اس کے عشق کی مہک پنجال سے نوشہرہ اور پھر دہلی سے لاہور تک پھیل جانی تھی، اس کے گیت امر ہونے والے تھے۔
اس دوپہر وہ بکریاں چراتے ہوئے جب تھک گئی تو اس نے ریوڑ کھلا چھوڑ دیا اور زرد سونا پھول، جنگلی چنبیلی اور جامنی گول گچھوں سے پھول چننے لگی اور گیت گانے لگی۔
“آ جاو! اے میرے عاشق گل،آ جاو!
میں نے تمہارے لئیے چراگاہ کو گلوں سے بھر دیا ہے آ جاو!
میں تمہارے لئیے تازہ چنبیلی چن رہی ہوں آ جاو
اور ندی کنارے تمہارے لئیے کنول کھل رہے ہیں۔۔
یہ گھڑیاں لوٹ کر نہ آئیں گی۔۔
سارا جگ سو گیا مگر تمہارا جواب نہ آیا میرے محبوب!
کیا یہ سرسبز ہار سنگھار بھی مجھے بدقسمت ہی کہیں گے؟
آ جاو اے میرے عاشق گل۔
کس کو اختیار ہے کہ قسمت کا پھیر بدل ڈالے؟
آو اے میرے محبوب آو۔۔۔۔۔۔”
وہ پھول چنتی ہوئی گاتی رہی اور پھر معجزہ ہو گیا۔وہ آ گیا تھا!!
بدخشانی گھوڑے پہ شان و شوکت سے بیٹھا وہ سچ مچ کا شہزادہ! جس کے لامبے سنہرے بال ہوا میں لہراتے تھے اور تیر کمان کا سیاہ چرمی تھیلا اس کے کاندھے پہ لٹکتا تھا۔ والی کشمیر!! یوسف شاہ چک جو اس دوپہر مرغ زریں کے گلو اپنے تیروں سے چھیدنے آیا تھا وہ خود شکار ہو گیا۔ اس نے زونی کے گیت کی پکار سنی تو بے اختیار اپنے گھوڑے کی باگیں موڑ لیں۔ زون کی میٹھی رسیلی آواز اور الفاظ نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اس صورت کو کھوجے جس سے یہ آسمانی ندا بلند ہوتی ہے۔ اور شہزادے!! آواز کی ڈور کا سرا تھامے والی کشمیر جب اس صورت تک پہنچاتو گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ حسن کی تجلیوں نے جب عشق کی تابانیوں سے بے حجابی کی تو گھوڑے کے سم عین زون کے سامنے جا رکے۔ اس نے گھبرا کر نظر اٹھائی اور دامن میں بھرے سارے پھول گھوڑے سے کود کر اترتے شہزادے کے قدموں میں ڈھیر ہو گئے۔ اف!! سچ مچ! زون کو شہزادہ مل گیا تھا۔ دیکھا! نصیبا کیسے بدلتا ہے؟ والئ کشمیر نے آن واحد میں اپنا دل اس گیت گاتی پہاڑی لڑکی کو بھینٹ کر دیا اور زون نے اسے قبول کرنے میں لمحہ بھی صرف نہ کیا۔ جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ لہو کے اندر پلنے والا عشق جب آنکھوں کو مجسم نظر آتا ہے تو پھر ایک پل بھی سوچا نہیں جاتا، اس عشق پہ نثار ہو کر امر ہوا جاتا ہے۔ زونی نے جو گیت جو اشعار بن رکھے تھے وہ بلا خوف و خطر اپنے شہزادے کے قدموں میں ڈھیر کر دئیے۔
میں سوچتی ہوں، ہر کسی کو اپنے محبوب کے قدموں میں کچھ نہ کچھ بھینٹ کرنے کی چاہ کیوں ہوتی ہے؟ کیا یہ سپردگی اور خود کو تیاگ دینے کی کوئی چاہ ہوتی ہے؟ یا انائیت کو ختم کر کے دوئی سے یکسوئی کی جانب سفر؟ ہر کسی کو یہ چاہ ہوتی ہے۔ جیسے مجھے ہے! کہ میں تمہارے تلووں سے اپنے گال لگا کر رات سے صبح کر دوں۔ اور تمہیں بھی تو کسی کے قدموں میں کچھ بھینٹ کرنے کی چاہ ہو گی ناں؟؟۔اچھا! مت بتاو!
آو ہم چندراہار کے اس مرغزار میں چلتے ہیں جہاں زون کو ابھی ابھی محبت ہوئی ہے اور اب شہزاہ یوسف شاہ چک اسے اپنے بدخشانی گھوڑے پر بٹھائے دلکی چال چلتا زون کے گھر کو رواں دواں ہے۔
گاوں والوں نے جب والی کشمیر کے گھوڑے پر بیٹھی زون کو آتے دیکھا تو انگشت بدنداں رہ گئے”اللہ اللہ! چک زونی کو لئیے چلا آتا ہے”!!! مردوں کو کھیت میں کدال چلانی نہ یاد رہی اور عورتوں کو چولہوں پہ چڑھے وزوان کی فکر نہ رہی۔ دودھ اچھل اچھل کر آگ پہ سسکیاں بھرتا رہا اور یوسف شاہ کا گھوڑا زون کے دروازے پر آن رکا۔
اس نے زون کو اترنے میں مدد دی اور اس کے ہمراہ گھر میں داخل ہو گیا۔ اماں ابی نے والی کشمیر کو اپنے غریب خانے میں دیکھا تو استعجاب سے مورت میں ڈھل گئے اور اس کا مدعا جان کر تو ان میں پلکیں جھپکانے کی سکت بھی نہ رہی تھی۔ ہاں بھئی! انہونی جو ہونے جا رہی تھی! یوسف شاہ زونی سے عقد کرنا چاہتا تھا۔اور بادشاہ تو یوں بھی جس شے کو نظر بھر کر دیکھ لیں اس پر پھر اور کسی کا اختیار کہاں رہتا ہے تو یہاں تو معاملہ عشق و محبت کا تھا۔
زونی کے اماں ابی کو تقدیر کی اس کایا پلٹ کا یقین نہ آتا تھا۔ دعائیں یوں بھی مستجاب ہو سکتی ہیں؟ ایک دیہاتن،ایک پہاڑی لڑکی کا طلبگار بن کر والی کشمیر بھی آسکتا ہے؟؟ ہاں! آ سکتا ہے اگر آسمانی بندھن باندھنے والے نے لکھ رکھا ہو تو سب ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی خوش بختی پر ڈھیروں شکر بجا لائے اور زون کو ملکہ کشمیر بنا کر یوسف شاہ چک اپنے ہمراہ لے گیا۔ اور شہزادے! درحقیقت وہ زون وہیں چندراہار میں رہ گئی تھی۔ اب وہ حبہ تھی! حبہ خاتون! جو رہتی دینا تک بلبل کشمیر کے نام سے جانی جانے والی تھی،جس کے لول لل دد(للا عارفہ) کے بعدمشہور ہونے والے تھے اور جس کے حسن و عشق کی وارث آنے والے زمانوں کی کئی کشمیرنوں کو بننا تھا جن میں سے ایک میں بھی ہوں شہزادے!
وہ دن زون جو اب حبہ خاتون تھی،اور والی کشمیر یوسف شاہ چک کے لئیے بہشت سے اتارے گئے تھے۔ ایک دوسرے کی محبت پا کر، جام عشق کے سرور میں مگن وہ دونوں کشمیر کی حسین وادیوں، مرغزاروں، باغوں اور سیر گاہوں میں پھرتے رہے۔ ڈل کے سینے پر بہتے شکارے سنہری آتشییں اور گلابی پردوں سے مزین حبہ اور یوسف کے عشق کی شدتوں کے گواہ بنے۔ وولر کے ندرو ان پہ فدا ہوئے، سری نگر کے سارے چنار ان کی عشق کی جولانیوں کی تاب نہ لا کر دہک اٹھے اور چشمہ ویری ناگ کی چمکیلی مچھلیوں نے ابدی دعاوں کے نذرانے بھیجے۔ پنجال اور ہمالہ سے آنے والی ہواوں میں حبہ اور یوسف کے لئیے آشیر باد تھے۔دن عید تھے اور راتیں شب معراج سی پاکیزہ اور بلند نصیب! زونی شاہ کے بازووں میں سمٹی شعر اور گیت گاتی اور شاہ محبت کا خزانہ لٹائے جاتا۔ حبہ کے سیپ سے وجود پر شاہ کی محبت کا ابر نیساں برس برس کر اس کی تابناکیوں کو جلا بخشتا رہا ۔ اور حبہ گیتوں اور لافانی اشعار کے گہر پالتی رہی۔
مگر شہزادے!! بادشاہوں کی کم نصیبی یہ ہے کہ انہیں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر محبت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کے ذمہ ریاست اور عوام کی نگہداشت و پرداخت کے فریضے بھی ہوتے ہیں اور یہاں یوسف شاہ بھول کر بیٹھا تھا۔
وہ اپنی محبوب ملکہ کی زلفوں کے سائے تلے اس کے ہونٹوں سے جام عشق نوش کرتا رہا اور ریاست کے معاملات بگڑنے لگے۔ سازش کے سیاہ سنپولئے وادی میں سرسراہٹیں پیدا کرنے لگے مگر چک کی بے خودی میں سر مو فرق نہ آیا۔
رعایا اب چک کی اس غیر ذمہ دارانہ سرشت سے اکتا چکے تھے جو ملکہ کے ہمراہ صحت افزا مقامات پہ مہینوں کے پڑاو کو ہی ترجیح دئیے ہوئے تھا اور عوام کے مسائل کو سننے اور ان کا حل نکالنے کے لئیے اسے وقت ہی دستیاب نہ ہوتا تھا۔ ملکہ نے صحیح معنوں میں شاہ کو بے دام کا غلام بنا لیا تھا جیسے!
اس صورتحال نے شاہ کو بے حد غیر مقبول بنا دیا تھا اور عوام اب وزیر ریاست محمد بائی حقی پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے تھے۔ اور پھر بغاوت پھوٹ پڑی۔ وہ شاہ کو معزول کرنے کا مطالبہ کرنے لگے باغیوں کے ایک گروہ نے شاہ کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔
یوسف اور حبہ کی محبت کا سنہرا دور بدقسمتی سے بہت جلد اختتام کو پہنچنے والا تھا۔ ایک رات کے اندھیرے میں یوسف شاہ کو حبہ خاتون کو اکیلا چھوڑ کر درہ پنجال
عبور کر کے نوشہرہ میں پناہ لینی پڑی۔ حبہ جدائی میں نڈھال ہو گئی اور شہنشاہ ہند اکبر، جو کشمیر پہ ایک عرصے سے نظر رکھتا تھا،اس کی دلی مراد بر آنے کے دن آن پہنچے تھے۔ ادھر یوسف شاہ نے ناسمجھی میں راجہ مان سنگھ سے مدد طلب کر لی اور وہ نادان بادشاہ ابھی سیاست کے مہرے ٹھیک سے چلانا جانتا ہی نہ تھا شہزادے! اسے صرف محبت ہی کرنی آئی تھی۔ ریاست اس کے ہاتھوں سے چکنی مچھلی کی مانند پھسل پھسل جاتی تھی۔ اکبر نے بظاہر اپنی کمک تو دلی سے روانہ کی مگر جلد ہی یوسف شاہ چک کو اس کے ارادوں کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا۔ وہ ریاست میں اپنے نام کا سکہ چلانا چاہتا تھا اور دین اکبری کے تحت چاہتا تھا کہ خطبہ اس کے نام سے دیا جائے۔ اف شہزادے!! یہ جاہ و حشم، یہ تخت و تاج ابن آدم کو کیسے خود کو خدا سمجھنے پر مجبور کر دیتے ہیں ناں؟
محبت کے خمار سے نکلے یوسف شاہ کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ بطور بادشاہ وہ ریاست کا معطون تھا اور ریاست کشمیر کے اس آخری خود مختار بادشاہ کے ساتھ ہی کشمیر کو سلطنت مغلیہ کے زیر دست آ جانا تھا۔
شاہ نے ایک کوشش کرنے کی ٹھان لی اور راجہ مان سنگھ سے لاہور میں پڑاو ڈالنے کی درخواست کرنے کے بعد اپنے وفاداروں کی ایک چھوٹی سی فوج کے ہمراہ کشمیر کو روانہ ہوا۔ حیدر شاہ چک کی فوجوں سے بچتا بچاتا یوسف شاہ اپنے وفادار وزیر محمد بائی حقی کی مدد سے بارہ مولہ کے راستے کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب تو ہو گیا مگر جانتا نہ تھا کہ اپنی جاگیر کی حفاظت میں ناکام ہونے والوں کو نہ زمین قبول کرتی ہے اور نہ ہی عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
یوسف اپنی حبہ سے ملنے کے لئیے بھی بے تاب تھا اور حبہ جدائی سہتی سہتی اب جان سے گزرنے کو تھی۔
اور پھر شہزادے!! محبت کی اس کہانی میں ریاست،سیاست،فرعونیت اور بادشاہت بھی شامل ہو گئے۔ یوسف شاہ،ایک سچا عاشق مگر نااہل حاکم ثابت ہوا اور ریاست کشمیر اس کے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتی چلی گئی ۔
بادشاہ اب بھی ریاست کی فلاح و بہبود میں ناکام ثابت ہوا اور اکبر نے اپنی افواج دلی سے کشمیر کا انتظام و انصرام سنبھالنے کو روانہ کر دیں۔ ادھر یوسف شاہ اب سارے ہتھیار پھینک کر محض حبہ خاتون کے گیتوں اور اشعار کی چھاوں تلے جئے جا رہا تھا۔ کیسی مہلک محبت ثابت ہو رہی تھی یہ؟؟ دنیا و مافیہا سے بے نیاز وہ ایک دوسرے کو چاہے جاتے، عشق کئیے جاتے اور ان کی بے خودی کم ہونے میں نہ آتی تھی۔ ریاست کے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔
اور پھر شہزادے! آسمانی محبت کے اس زمینی سفر میں ازلی جدائی کا سیاہ اور منحوس وقت بھی آن پہنچا۔
“والی کشمیر،یوسف شاہ چک کو شہنشاہ ہند محمد اکبر نے دلی طلب کیا ہے” شاہی ایلچی نے مکتوب پڑھ کر سنایا تو حبہ خاتون بے چین ہو کر شاہ کے قریب لپک آئی۔ “نہیں شاہ! یہ مکتوب جدائی کا پرچم ہے! میں تمہیں دلی نہیں جانے دوں گی!! شاہ دلی مت جاو! ” وہ گڑگڑا رہی تھی، اس محبوب ملکہ کو جدائی کا الہام ہو گیا تھا مگر شہزادے! کوتاہیاں یہ دن تو دکھاتی ہی ہیں ناں؟؟ چاروناچار یوسف شاہ چک کو دلی جانا ہی پڑا اور اسے جاتے ہوئے دیکھتی حبہ خاتون کا دل تڑپ تڑپ کر کہتا رہا کہ اب واپسی نہیں!
وہ سچی تھی شہزادے! والی کشمیر کو اس کے بعد ریاست میں لوٹنا کبھی نصیب نہ ہوا۔ اکبر نے اسے قید خانے میں پھنکوا دیا اور کشمیر اس کے زیر دست آ گیا۔ حبہ کو اس بات سے کیا غرض کہ ریاست میں کیا ہوا، کیا نہیں! اس کے لئیے تو اس کی بادشاہت اور سلطنت محض یوسف شاہ تھا۔ وہ جدائی میں فرط غم سے بوکھلا کر کشمیر کی وادیوں میں المیہ گیت گاتی چک کو پکارتی رہی اور چک!! وہ اپنی باقی کی حیات کے دن بنگال کی جلاوطنی میں کاٹتا رہا۔ حبہ خاتون اپنے یوسف سے جدا ہو گئی اور یوسف اس کی سرمگیں آنکھوں کو یاد کرتا،اس کے گیتوں کو دہراتا اور اس کے ہونٹوں کے شہد آگئیں ذائقے کو حلق میں تازہ کرتا زندگی کو الوداع کہہ بیٹھا۔
زونی سے حبہ بننے کے اس سفر میں نصیبوں کے پھیر نے جو رنگ دکھائے ہیں شہزادے وہ اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اس محبت نے پہاڑن زونی کو ملکہ کشمیر بنا دیا اور اسی محبت نے شہزادے ریاست کشمیر کے آخری خودمختار بادشاہ کو بنگال کی قید تنہائی میں بھسم کر دیا۔ وہ کبھی وطن نہ لوٹ سکا شہزادے اور کشمیر کی وادیوں کا پالا بہار میں آسودہ خاک ہوا۔
جانے اس کے مزار پر کوئی شمع جلتی ہے یا نہیں؟ ہاں مگر میرا دل کہتا ہے شہزادے!! کہ حبہ خاتون کے وہ المیہ گیت وہاں ضرور رقص کرتے ہوں گے جو اس نے چک کی جدائی میں وادی کے ہر پیڑ پودے تک کو سونپ دئیے تھے۔
اور بلبل کشمیر!؟؟ اس نے اپنی باقی ماندہ زندگی کشمیر کی وادیوں میں نوحے بونے میں گزار دی۔ اس کے گیت دلگداز ہوتے چلے گئے ۔ اتنے! کہ ہواوں کے کلیجے کانپ جائیں اور سنگ سے چشمہ پھوٹ بہے! محبت اور جدائی کی بے خودی میں بھٹکتی حبہ خاتون ایک صبح پہاڑی نالے کے کنارے بے حس و حرکت ملی ۔ اس کے جبے میں خاک کا بسیرا تھا اور ہاتھوں میں جنگلی پھول تھے جو وہ چک کے انتظار میں چن رہی تھی۔ محبت کی ایک اور داستان اختتام کو پہنچی! زون مر گئی مگر اس کے گیت،اس کے لول! رہتی دنیا تک امر ہو گئے شہزادے۔۔!!
آج بھی اس سری نگر میں اس کے مقبرے پر محبت اپنے سنہری پنکھ کھولے اڑان بھرتی ہے، آج بھی کشمیری گیتوں میں بلبل کشمیر چہکتی ہے اور بھی وادی کی ہر زون اپنے یوسف کی بلائیں لینے کو زعفران کے پھول چن کر لاتی ہے۔ زون ہر دور میں محبت کا استعارہ ہے شہزادے!! اور حبہ خاتون ہر دور میں محبت اور نصیب کے پھیر کا منہ بولتا ثبوت!
دیکھو ناں شہزادے! صبح اب روشن ہونے کو ہےاور چندراہار کے اس گاوں سے جہاں زونی کی داستان شروع ہوئی تھی، سری نگر میں اس سڑک کنارے حبہ خاتون کے مقبرے سے ٹیک لگائے ہم دونوں نے جو سفر کیا ہے اس نے ہمیں تھکا دیا ہے ۔ آو! کچھ دیر کو میری آغوش میں سر رکھ کر آرام کر لو شہزادے! میں تمہارے چہرے پہ اپنی زلفیں گراتی ہوں اور تمہارے بالوں کو سہلاتے ہوئے وہ گیت سناتی ہوں جو آج کے دور میں زون کی وارث نے اپنے شاہ کے لئیے لکھا ہے! ہاں مگر یہ گیت جدائی کا ہے شہزادے!! کیونکہ ہر زونی کو یوسف نصیب نہیں ہوتا۔۔ تم وصل نصیب رہو میرے شہزادے! کہ کشمیر کی یہ زون تو میدانوں کے یوسف کا دل کبھی جیت ہی نہ سکی تو وہ جو تمہارے دل کی ملکہ ہے اس کے ساتھ دائم آباد رہو،شاد رہو اور یہ گیت سنو!!
لکڑی کے جھکے چھتوں والے برامدوں میں۔۔۔
ہواوں کے ہونٹوں پہ اپنے گیت لکھنے والی ایک پہاڑی لڑکی ۔۔۔
جو سورج کی پہلی کرن کے بوسے سے بیدار ہوا کرتی ہے۔۔
اور چاند کی زرد کرنوں سے منہ دھو کر سو جاتی ہے۔۔
ایسی لڑکی کو محبت نہیں کرنی چاہیئے!!
پہاڑی لڑکی کی محبت میدانوں میں بہتے دریاوں جیسی نہیں ہوتی۔۔
وہ بیلے نہیں بناتی۔۔۔سست روی سے نہیں بہتی۔
وہ جب محبت کرتی ہے تو۔۔
پہاڑی ندی جیسی محبت کرتی ہے۔۔۔۔
خودکشی پہ اکساتی، پرجوش اور بلاخیز محبت۔۔۔
اس کے پانی مٹیالے نہیں ہوتے، سیماب رنگ، اور پتھروں سے ٹکرا کر جھاگ ہوتے سفید دکھتے ہیں۔۔
اس کے پانی حیات بخش ہوتے ہیں، ۔۔۔
چاندی رنگ مچھلیوں کی پناہ گاہیں۔۔۔۔
اور ایسی محبت عموما بڑے پانیوں تک پہنچنے سے پہلے کہیں مر جاتی ہے۔۔
اور چاند کی کرنوں سے منہ دھونے والی کے لہو میں جب محبت کا پہلا پھول کھلتا ہے۔۔۔۔
تو اس کا رنگ سفید، پہاڑی بکریوں کے دودھ سا سفید ہوتا ہے۔۔
ایک صبح جب وہ سو کر اٹھتی ہےتو۔۔۔
پھول کھلا دیکھ کر حیران بچے کی طرح مسکراتی ہے۔۔
اس کے ساتھ ساتھ جھکے چھت والے برامدے بھی گیت گاتے ہیں۔
سنو!!
بالکل ویسے!! جیسے زونی نے یوسف چک کے لئیے گائے تھے۔۔۔
آہ زون!! تمہیں یوسف چک حبہ خاتون بنا گیا۔۔۔
مگر!! وہ تو بادشاہ تھا، والی جاگیر تھا!!
ہر پہاڑی لڑکی کو یوسف شاہ نہیں ملتا۔۔۔
وہ لہو میں اگے پھول کو لہو پلاتی ہے۔۔
محبوب کا چہرہ اپنے کسابے، اپنے پھیرن پہ کاڑھتی ہے۔۔۔
اس کے دھاگے ایشوری کے دھاگے ہیں!!
باریک، نفیس اور یک رنگت۔۔۔
مگر سیاہ ترین آنکھوں والی پہاڑی لڑکی۔۔
قینچی کا کام کاٹنا ہے، اور سوزنی جوڑتی ہے
لیکن!!
ہجر نصیب محبت کرنے والوں کا المیہ کیا ہے؟؟
انہیں فاصلوں کی قینچی قطع کرتی ہے۔۔
اور سوزنی ان کے جگر چھیدتی ہے۔۔۔
پہاڑی لڑکی کو محبت نہیں کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔
ہر زون حبہ نہیں بنتی۔۔۔۔
یوسف شاہ کے لئیے لکھے ہوئے گیت۔۔۔
اکثر ہواوں میں کھو جاتے ہیں۔۔
مریم مجید
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں