زندگی کیا ہے؟ یہ ساڑھے پانچ چھ فٹ کا چلتا پھرتا جسم زندگی کی علامت ہے۔ یہ دراصل روح اور بدن کا ملاپ ہے۔ جب روح اور بدن کا ملاپ ختم ہو جائے تو اس بظاہر سانس لیتی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور انسان کی روح عالم ارواح کی طرف چلی جاتی ہے۔
انسانی زندگی، جسم اور روح کی حقیقت یا مرنے کے بعد روح کا مقام و کیفیت آج کی تحریر کا مطمع نظر نہیں ہے۔ لیکن اس زندہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو ضابطہ حیات ملا اس ضابطے میں رب نے انسانوں سے کچھ عبادات کا بھی تقاضا کیا۔ عبادات کا اپنا مقام و مرتبہ ہے اور ہر عبادت کی اپنا کیفیت و طریقہ کار ہے۔ اور یہ بات بھی سب ہی کے علم میں ہے کہ کچھ عبادات جیسے نماز دن میں پانچ مرتبہ فرض کی گئی ہے جبکہ دوسری عبادت حج کو صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض کیا ہے۔
گویا سب عبادات ایک جیسی نہیں اور نہ ہی ان عبادات کا تقاضا ایک سا ہے۔ اگر سب عبادات کا تقاضا اور ان کی خصوصیات ایک سی ہوتی تو ان میں رب اتنی وسعت نہ رکھتا۔ کہیں دن میں پانچ بار رکوع و سجود کا حکم تو کہیں سال میں ایک بات اڑھائی فیصد سے مال نکالنا اور کہیں سال میں تیس دن کے روزں سے بدن کی تطہیر۔۔۔
یہ سب مختلف انواع کی عبادات ہیں۔ جس طرح انسان روح اور بدن کے ملاپ کا نام ہی یعنی ایک ظاہری ڈھانچہ ہے اور دوسرا نا نظر آنے والی روح۔ اسی طرح عبادات کا بھی ایک ظاہری ڈھانچہ ہے اور ایک ان کی روح۔ روحِ عبادت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ عبادت کے عملی طور پہ زندگی میں نافذ کریں نہ کہ اس کو ایک لگی بندھی ظاہری شکل میں ادا کرتے رہیں۔
اس ضمن میں عبادت گزار کو یہ سوچنا چاہیے کہ رب کا عبادات کے ذریعے اصل تقاضا کیا ہے۔ کیونکہ اگر حمد و ثنا ہی مقصود ہوتی تو یہ واقعہ قرآن میں نقل ہو گیا ہے کہ حمد ثنا کے لیے فرشتے کافی تھے اور جب اللہ نے انسان کو بنانے کا اداراہ ظاہر کیا تو فرشتوں کو تجسس ہوا کہ یہ زمین میں فساد پیدا کرے گا۔ تو زمین کو اس فساد سے بچانے کے لیے انسانوں کی مسلسل تربیت کا انتظام بصورت عبادات رکھا گیا۔
اس مسلسل تربیت اور انسانی فکر کی تطہیر کے لیے اللہ نے اپنے منتخب نبی اور رسول بھیجے۔ اسلام کے بعد اور رسول اللہ صلعم کی بعثت کے ساتھ ہی رب نے یہ دین مکمل کر دیا اسی طرح دین میں شامل ساری عبادات بھی اپنی حتمی اصل شکل میں رائج کر دی گئی۔ اب چونکہ رب کو انسان سے صرف حمد و ثنا مقصود نہ تھا سو ہر عبادت کے اندر ایسی خصوصیات ودیعت کر دی گئی جو معاشرے اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں میں اچھے اثرات مرتب کرے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے عبادات کو چند مخصوص اعمال سے منسوب کر دیا اور “روح بلالی” کہیں ناپید ہوگی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو مسلمانوں کو بحیثیت قوم ہوا۔ آج ہم رمضان کی بابرکت ساعتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ روزہ بدنی اور روحانی تطہیر کے لیے ایک اہم ترین عبادت ہے۔ لیکن افسوس کہ اس عبادت کو کو بھی عادت بنا دیا گیا۔ جو عبادت عادت بن جائے اس میں سے تاثیر جاتی رہتی ہے کیونکہ انسان سے ایک میکانیکی انداز میں وہ عبادت سر زد ہوتی ہے۔ جیسے کوئی خود کار سسٹم۔۔۔
روزہ تقاضا کرتا ہے صبر کا، برداشت کا، روزہ سکھاتا ہے کہ رب کا حکم آ جائے تو حلال کھانا اور پینا بھی منع ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ صبر یہ برداشت اور یہ رب جے سامنے مکمل سرینڈر کرنے کی خُو سال بھر رہتی ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے ہمیں اپنی عبادت کے طرز عمل پہ غور کرنا چاہیے۔ آپ گھر سے دفتر، سکول یا کسی ضروری کام کے لیے نکلتے ہیں تو صاف نظر آتا کے کہ صبر اور برداشت کو گھر میں چھوڑ آئے یا اس کو صرف نصیحت کے طور پہ الفاظ میں دھرا دیا۔
رب نے کہا یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جو کچھ حلال کیا گیا وہ بھی نہیں کھانا ہم نے تسلیم کیا۔ لیکن اسی رب کے محبوب صلعم نے زخیرہ اندازی سے روکا غیر ضروری منافع سے روکا۔ کیا ہم رک گئے؟ اگر ہم نہیں رکے تو ایک لمحے کو سوچئے ہماری عبادت کس کام کی۔ کیا رب کو صرف کھانے پینے سے روکنا مطلوب تھا؟
اگر یہ مطلوب ہوتا تو فرشتے ان خواہشوں سے پاک ہیں ان کو غذا کی ضرورت نہیں۔ لیکن رب کا مطلوب انسانوں کے لیے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل تھا۔ جہاں احساس ہو، جہاں برداشت اور رواداری ہو۔ اسی طرح رمضان کے مہنیے میں دوسری کثرت سے کی جانے والی عبادت نماز کی پابندی ہے۔ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئیں ہیں اور انہی نمازیوں نے دوسرے انسانوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔
ہم کہتے ہیں “اھدنا الصراط المستقیم” اور باہر آتے ہی کم تولتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں رشوت لیتے ہیں۔ کیا اس راستے کی دعا نماز میں کی جاتی کے؟ نماز بھی قائم کی جا رہی ہے اور فحش بھی جاری ہے۔یہ کیسا طرز عمل ہے؟ عبادات کے فوائد کو من گھڑت سائنسی باتوں سے ثابت کیا جا رہا۔ کیا اگر سائنس یہ فائدے دریافت نہ کرتی تو ان عبادات کو ترک کر دیتے؟ رب کے حکم میں سائنس نہیں اخلاقیات تلاش کریں۔ کیونکہ عبادات کا براہ راست مقصد انسانوں کی تربیت ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ ہم روزے سے وزن کا علاج ڈھونڈنے چل پڑے اور نماز سے گھٹنے کے درد کا علاج تلاش کیا جانے لگا اور تو اور عبادت کی بنیاد وضو بارے بھی باتیں تلاش کی گئیں ممکن ہے کسی جاپانی یا چینی سائنسدان نے یہ سارے فائدے ڈھونڈے ہوں لیکن کیا یہ ایک فائدہ وضو کا کم ہے کہ جو عضو دھوتے جاؤ اس کے گناہ جھڑتے جاتے ہیں؟
اب میں یہ سوال آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں کہ روحِ عبادت کہاں چلی گئی؟ ہم نے اپنی نسلوں کو فجر سے عشا تک کی رکعتیں یاد کروا دیں لیکن اس سب کے ہیچھے رب کا منشا و مقصود ڈھونڈنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ نماز ایک غیر معمولی عبادت ہے یہ رب کا بندے سے براہ راست رابطہ ہے۔
یہ کیسا رابطہ ہے کہ جو چند منٹوں کے لیے جائے نماز پہ قائم ہوتا ہے اور اس کا اثر اگلی نماز تک قائم نہیں رہتا۔ مجھے مسلمانوں کی عبادات کے خلوص پہ شک نہیں میں صرف ان عبادات کے اثرات سے محروم معاشرہ دیکھ کے الجھ جاتا ہوں۔ کہ اگر روح کے بغیر عبادت برقرار رکھی جا رہی ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر انسان صرف میت ہے، یہ عبادات دراصل عبادات کی میتیں ہے جسے ہم اپنے کندھوں پہ لادے جانب منزل رواں دواں ہیں۔ آپ سب پہ امن و سلامتی ہو۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں